Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 43-50

وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَهۡلَكۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحۡمَةً لَّعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ‏  ﴿28:43﴾ وَمَا كُنۡتَ بِجَانِبِ الۡغَرۡبِىِّ اِذۡ قَضَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسَى الۡاَمۡرَ وَمَا كُنۡتَ مِنَ الشّٰهِدِيۡنَۙ‏ ﴿28:44﴾ وَلٰـكِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيۡهِمُ الۡعُمُرُ​ۚ وَمَا كُنۡتَ ثَاوِيًا فِىۡۤ اَهۡلِ مَدۡيَنَ تَـتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِنَاۙ وَلٰـكِنَّا كُنَّا مُرۡسِلِيۡنَ‏ ﴿28:45﴾ وَمَا كُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَيۡنَا وَلٰـكِنۡ رَّحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰٮهُمۡ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿28:46﴾ وَلَوۡلَاۤ اَنۡ تُصِيۡبَـهُمۡ مُّصِيۡبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ فَيَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡلَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَـيۡنَا رَسُوۡلًا فَنَـتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَـكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿28:47﴾ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الۡحَـقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡلَاۤ اُوۡتِىَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى​ ؕ اَوَلَمۡ يَكۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى مِنۡ قَبۡلُ ​ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظَاهَرَا وَقَالُوۡۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿28:48﴾ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِكِتٰبٍ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ هُوَ اَهۡدٰى مِنۡهُمَاۤ اَتَّبِعۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿28:49﴾ فَاِنۡ لَّمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَكَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا يَـتَّبِعُوۡنَ اَهۡوَآءَهُمۡ​ ؕ وَمَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰٮهُ بِغَيۡرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿28:50﴾

43 - پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عطا کی، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بنا کر، ہدایت اور رحمت بنا کر، تاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں۔59 44 - (اے محمدؐ )تم اُس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے60 جب ہم نے موسیٰؑ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے،61 45 - بلکہ اُس کے بعد (تمہارے زمانے تک)ہم بہت سی نسلیں اُٹھا چکے ہیں اور اُن پر بہت زمانہ گُزر چکا ہے۔62 تم اہلِ مَدیِن کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ اُن کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے،63 مگر (اُس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں۔ 46 - اور تم طُور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ)پکارا تھا، مگر یہ تمہارے ربّ کی رحمت ہے( کہ تم کو یہ معلومات دی جارہی ہیں) 64 تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کرو جن کے پاس ان سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا،65 شاید کہ وہ ہوش میں آئیں۔ 47 - (اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ)کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے اپنے کیے کرتُوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب اُن پر آئے تو وہ کہیں ”اے پروردگار، تُو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسُول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہلِ ایمان میں سے ہوتے۔“66 48 - مگر جب ہمارے ہاں سے حق اُن کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے”کیوں نہ دیا گیا اس کو وہی کچھ جو موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟“67 کیا یہ لوگ اس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟68 اُنہوں نے کہا ”دونوں جادُو ہیں69 جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔“ اور کہا ”ہم کسی کو نہیں مانتے۔“ 49 - (اے نبیؐ)اِن سے کہو ”اچھا، تو لاوٴ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو اِن دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو، میں اسی کی پیروی اختیار کروں گا۔“70 50 - اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پُورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔ ؏۵


Notes

59. یعنی پچھلی نسلیں جب انبیائے سابقین کی تعلیمات سے رو گردانی کا برا نتیجہ بھگت چکیں، اور ان کاآخری انجام وہ کچھ ہو چکا جوفرعون اور اس کے لشکروں نے دیکھا، تو اس کے بعد موسیٰؑ کو کتاب عطا کی گئی تا کہ انسانیت کا ایک نیا دور شروع ہو۔

60. مغربی گوشے سے مراد جزیرہ نمائے سینا کا وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰؑ کو احکام شریعت دیے گئے تھے۔ یہ علاقہ حجاز کے مغربی جانب واقع ہے۔

61. یعنی بنی اسرائیل کے اُن ستر نمائندوں میں جن کو شریعت کی پابندی کا عہد لینے کے لیے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ بلایا گیا تھا۔(سورہ اعراف،آیت۱۵۵ میں اُن نمائندوں کو بلائے جانے کا ذکر گزر چکا ہے ، اور بائیبل کی کتاب خروج، باب۲۴ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے)۔

62. یعنی تمہارے پاس اِن معلومات کے حصول کا براہِ راست کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ آج جو تم ان واقعات کو دو ہزار برس سے زیادہ مدّت گزر جانے کے بعد اِس طرح بیان کر رہے ہو کہ گویا یہ سب تمہارا آنکھوں دیکھا حال ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ سے تم کو یہ معلومات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔

63. یعنی جب حضرت موسیٰؑ مدین پہنچے، اور جو کچھ وہاں ان کے ساتھ پیش آیا، اور دس سال گزار کر جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے ، اسوقت تمہارا کہیں پتہ بھی نہ تھا۔ تم اس وقت مدین کی بستیوں میں وہ کام نہیں کر رہے تھے جو آج مکہ کی گلیوں میں کر رہے ہو۔ اُن واقعات کا ذکر تم کچھ اس بنا پر نہیں کر رہے ہو کہ یہ تمہارا عینی مشاہدہ ہے ، بلکہ یہ علم بھی تم کو ہماری وحی کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوا ہے۔

64. یہ تینوں باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھی اس وقت مکہ کے تمام سردار اور عام کفار اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کو غیر نبی ۔ اور معاذ اللہ جھوٹا مدعی ثابت کر دیں۔ ان کی مدد کے لیے یہود کے علماء اور عیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میں موجود تھے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے۔ بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھے اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی بستی اور آپ کے قبیلے کے لوگوں سے چھپا ہوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے طور پر یہ تین باتیں ارشاد فرمائی گئیں ، اس وقت مکے، اور حجاز، اور پورے عرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر وہ بیہودہ بات نہ کہہ سکا جو آج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگر چہ جھوٹ گھڑ نے میں وہ لوگ اِن سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا درو غِ بے فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کر لائے ہو، کیونکہ پورے ملک میں وہ اِس غرض کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ جس کا نام بھی وہ لیتے ، فوراً ہی یہ ثابت ہو جاتا کہ اس سے آنحضرتؐ نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد ؐ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اور علوم آداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد سے تم یہ ساری تقریریں کر رہے ہو، کیونکہ لائبریری تو درکنار، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کہیں سے وہ ایک کاغذ کا پرزہ بھی بر آمد نہیں کر سکتے تھے جس میں یہ معلومات لکھی ہوئی ہوں ۔ مکے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو عبرانی اور سُریانی اور یونانی کتابوں کے ترجمے کر کرکے آپ کو دیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا کہ شام و فلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کر آئے تھے۔ کیونکہ یہ سفر تنہا نہیں ہوئے تھے۔ مکے ہی کے تجارتی قافلے ہر سفر میں آپ کےساتھ لگے ہوتے تھے۔ اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دے دیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اور آپ کی وفات کے بعد تو دوسال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان بر سر پیکا ر ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام و فلسطین میں کسی عیسائی راہب یا یہودی ربِّی سے حضور ؐ نے کوئی مذاکرہ کیا ہوتا تو رومی سلطنت رائی کا پہاڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں ذرا دریغ نہ کرتی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، معاذ اللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھے اور مکے جا کر نبی بن بیٹھے۔ غرض ، اُس زمانے میں جبکہ قرآن کا یہ چیلنچ قریش کے کفار و مشرکین کے لیے پیامِ موت کی حیثیت رکھتا تھا، اور اس کو جھٹلانے کی ضرورت موجود ہ زمانے کے مستشرقین کی بہ نسبت اُن لوگوں کو بدر جہاز یادہ لاحق تھی ، کوئی شخص بھی کہیں سے ایسا کوئی مواد فراہم کر کے نہ لا سکا جس سے وہ یہ ثابت کر سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے سوا اِن معلومات کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جا سکتی ہو۔

یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اِسی ایک جگہ نہیں دیا ہے بلکہ متعدد مقامات پر مختلف قصّوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ حضرت ذکریا اور حضرت مریم کا قصّہ بیان کر کے فرمایا ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآ ءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَا مَھُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ، ”یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیں ، تم اُن لوگوں کے آس پاس کہیں موجودنہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کے لیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کو ن کرے۔ اور نہ تم اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑ رہے تھے“(آل عمران، آیت ۴۴)۔ حضرت یوسف ؑ کا قصّہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ اَجْمَعُوْ ٓا اَمْرَھُمْ وَھُمْ یَمْکُرُوْنَ،”یہ غیب کی خبروں میں سے ہےجو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیں ، تم ان کے (یعنی یوف کے بھائیوں کے) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پر اتفاق کیا اور جب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے“(یوسف، آیت ۱۰۲)۔ اسی طرح حضرت نوح کا مفصل قصّہ بیان کر کے فرمایا تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحَیْھَآ اِلَیْکَ، مَا کُنْتَ تَعْلَمُھَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا، ”یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں، تمہیں اور تمہاری قوم کو اس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا“(ہود۔ آیت ۴۹)۔ اِس چیز کی بار بار تکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانب اللہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے پر جو بڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سے ایک یہ دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے کے گزرے ہوئے واقعات کی جو تفصیلات ایک اُمّی کی زبان سے بیان ہو رہی ہیں ان کے علم کا کوئی ذریعہ اُس کے پاس وحی کے سوا نہیں ہے۔ اور یہ چیز اُن اہم اسباب میں سے ایک تھی جن کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر لوگ اس بات پر یقین لاتے چلے جا رہے تھے کہ واقعی آپؐ اللہ کے نبی ہیں اور آپؐ پر وحی آتی ہے، اب یہ ہر شخص خود تصور کر سکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کے لیے اُس زمانے میں اِس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہو گا، اور انہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیا کسر اُٹھا رکھی ہو گی۔ نیز یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر معاذ اللہ اِس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کے لیے مشکل نہ ہوتا۔

65. عرب میں حضرت اسمٰعیل اور حضرت شعیب علیہما السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ تقریباً دو ہزار برس کی اس طویل مدت میں باہر کے انبیاء کی دعوتیں تو ضرور وہاں پہنچیں، مثلاً حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی دعوتیں، مگر کسی نبی کی بعثتِ خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی۔

66. اِسی چیزکو قرآن مجید متعدد مقامات پر رسولوں کے بھیجے جانے کی وجہ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اس غرض کے لیے ہر وقت ہر جگہ ایک رسول آنا چاہیے۔ جب تک دنیا میں ایک رسول کا پیغام اپنی صحیح صورت میں موجود رہے اور لوگوں تک اس کے پہنچنے کےذرائع موجود رہیں، کسی نئے رسول کی حاجت نہیں رہتی، الّا یہ کہ پچھلے پیغام میں کسی اضافے کی اور کوئی نیا پیغام دینے کی ضرورت ہو۔ البتہ جب انبیاء کی تعلیمات محو ہو جائیں، یا گمراہیوں میں خلط ملط ہو کر وسیلہ ہدایت بننے کے قابل نہ رہیں، تب لوگوں کے لیے یہ عذر پیش کرنے کا موقع پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمیں حق وباطل کے فرق سے آگاہ کرنے اور صحیح راہ بتانے کا کوئی، انتظام سرےسے موجود ہی نہیں تھا، پھر بھلا ہم کیسے ہدایت پا سکتے تھے۔ اسی عذر کو قطع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے حالا ت میں نبی مبعوث فرماتا ہے تا کہ اس کے بعد جو شخص بھی غلط راہ پر چلے وہ اپنی کجروی کا ذمہ دارا ٹھیرا یا جا سکے۔

67. یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سارے معجزے کیوں نہ دیے گئے جو حضرت موسیٰؑ کو دیے گئے تھے۔ یہ بھی عصا کا اژدہا بنا کر ہمیں دکھاتے ۔ اِن کا ہاتھ بھی سورج کی طرح چمک اٹھتا۔ جھٹلانے والوں پر ان کے اشارے سے بھی پے در پے طوفان اور زمین و آسمان سے بلاؤں کا نزول ہوتا اور یہ بھی پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام لا کر ہمیں دیتے۔

68. یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان معجزوں کے با وجود موسیٰؑ ہی پر تم کب ایمان لائے تھے جواب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا مطالبہ کر رہے ہو۔ تم خود کہتے ہو کہ موسیٰؑ کو یہ معجزے دیے گئے تھے۔ مگر پھر بھی ان کو نبی مان کر ان کی پیروی تم نے کبھی قبول نہیں کی۔ سورہ سباآیت۳۱ میں بھی کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ”نہ ہم اِس قرآن کو مانیں گے نہ اُن کتابوں کو جو اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں“۔

69. یعنی قرآن اور توراۃ۔

70. یعنی مجھے تو ہدایت کی پیروی کرنی ہے ، بشرطیکہ وہ کسی کی من گھڑت نہ ہو بلکہ خدا کی طر ف سے حقیقی ہدایت ہو۔ اگر تمہارے پاس کوئی کتاب اللہ موجود ہے جو قرآن اور توراۃ سے بہتر رہنمائی کرتی ہو، تو اسے تم نے چھپا کیوں رکھا ہے؟ اسے سامنے لاؤ، میں بلا تامل اس کی پیروی قبول کر لوں گا۔