Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 51-60

وَلَقَدۡ وَصَّلۡنَا لَهُمُ الۡقَوۡلَ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَؕ‏ ﴿28:51﴾ اَلَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِهٖ هُمۡ بِهٖ يُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿28:52﴾ وَاِذَا يُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنۡ قَبۡلِهٖ مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿28:53﴾ اُولٰٓـئِكَ يُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَيَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏ ﴿28:54﴾ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡهُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُـكُمۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ لَا نَبۡتَغِى الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ﴿28:55﴾ اِنَّكَ لَا تَهۡدِىۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ​ؕ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿28:56﴾ وَقَالُوۡۤا اِنۡ نَّـتَّبِعِ الۡهُدٰى مَعَكَ نُـتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَلَمۡ نُمَكِّنۡ لَّهُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجۡبٰٓى اِلَيۡهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَىۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿28:57﴾ وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا ​ۚ فَتِلۡكَ مَسٰكِنُهُمۡ لَمۡ تُسۡكَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهِمۡ اِلَّا قَلِيۡلًا ؕ وَكُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِيۡنَ‏  ﴿28:58﴾ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهۡلِكَ الۡقُرٰى حَتّٰى يَبۡعَثَ فِىۡۤ اُمِّهَا رَسُوۡلًا يَّتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِنَا​ ۚ وَمَا كُنَّا مُهۡلِكِى الۡقُرٰٓى اِلَّا وَاَهۡلُهَا ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿28:59﴾ وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَـتُهَا​ ۚ وَمَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى​ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿28:60﴾

51 - اور(نصیحت کی) بات پے در پے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں۔71 52 - جن لوگوں کو اِس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اِس (قرآن)پر ایمان لاتے ہیں۔72 53 - اور جب یہ اُن کو سُنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ”ہم اِس پر ایمان لائے، یہ واقعی حق ہے ہمارے ربّ کی طرف سے، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں۔“73 54 - یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا74 اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی۔75 وہ بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں76 اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔77 55 - اور جب انہوں نے بیہودہ بات سُنی78 تو یہ کہہ کر اُس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ”ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے۔“ 56 - اے نبیؐ ، تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خُوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔79 57 - وہ کہتے ہیں ”اگر ہم تمہارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے۔“80 کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پُر امن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔81 58 - اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِترا گئے تھے۔ سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔82 59 - اور تیرا ربّ بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسُول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سُناتا۔ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔83 60 - تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ ؏۶


Notes

71. یعنی جہاں تک حق نصیحت ادا کرنے کا تعلق ہے ، ہم اس قرآن میں پیہم اسے ادا کر چکے ہیں۔ لیکن ہدایت تو اُسی کو نصیب ہو سکتی ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ ے اور تعصبات سے دل کو پاک کر کے سچائی کو سیدھی طرح قبول کر نے کےلیے تیار ہو۔

72. اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام اہلِ کتاب (یہودی اور عیسائی) اس پر ایمان لاتے ہیں۔ بلکہ یہ اشارہ دراصل اُس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورہ کے نزول کے زمانہ میں پیش آیاتھا، اور اس سے اہلِ مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آ رہے ہیں اور اُس کی قدر پہچان کرا س سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

اس واقعہ کو ابن ہشام اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیقِ حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجدِ حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردو پیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضورؐ سے کچھ سوالا ت کیے جن کاآپ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضورؐ پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستہ میں جا لیااور انہیں سخت ملامت کی کہ ”بڑے نامراد ہو تم لوگ، تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اِس شخص کے حالا ت کی تحقیق کر کے آؤ اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبر دو، مگر تم ابھی اِس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا“۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ”سلام ہے بھائیو تم کو۔ ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے“(سیرت ابن ہشام ج۲، ص۳۲۔ البِدایہ و النِّہایہ، ج۳، ص۸۲)۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ ۱۲۳)۔

73. یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا۔ اور اب جو نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم نے مان لیا ، لہٰذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں۔

یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اُس دین کا نام نہیں ہےجسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور ”مسلم“ کی اصطلاح کا اطلاق محض حضورؐ کے پیرووں تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اُس وقت جبکہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے اُن کے اسلام میں کوئی انقطاع نہیں ہوا۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے۔

تعجّب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہلِ علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں، حتّٰی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہُوا۔ علامہ سیوطی نے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صر ف اُمتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔ لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کر دے۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے انہوں نے اُس پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدّد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بے وزن ہیں۔ مثلاً ان کی ایک تاویل یہ ہے کہ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہ  مُسلِمِیْنَ کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کر لیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے میں مُسْلِمِیْن کے بعد بِہ  مخذوف ہے ، یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے، اس لیے توراۃ و انجیل کو ماننے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے نزول سے پہلے برحق مان لینے کی بنا پر ہم مسلم تھے۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الہٰی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کر لیں گے اس لیے در حقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اِس اُصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف ”اسلام“ (اللہ کی فرمانبرداری ) ہے، اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا، اور آغاز آفرینش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے، اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خود مسلم رہے ہیں، اپنے پیرووں کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید کی ہے، اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمانِ خدا وندی کے آگے سرِ تسلیم خم کیا، ہر زمانے میں مسلم ہی تھے۔ اِس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاحظہ ہوں:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔ (آل عمران، آیت ۱۹

درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران، آیت ۸۵)

اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا۔

حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللہِ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (یونس، آیت ۷۲)

میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہو کر رہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَوَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ، یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْ بَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآ ئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (البقرہ۔ آیت ۱۳۱ تا ۱۳۳)

جبکہ اس کے ربّ نے اس سے کہا کہ مسلِم (تابع فرمان) ہو جا، تو اس نے کہا میں مسلم ہو گیا ربّ العالمین کے لیے۔ اور اسی چیز کی وصیّت کی ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو اور یعقوب ؑ نے بھی، کہ اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہٰذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ کی وفات کا وقت آیا؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے با پ دادا ابراہیم ؑ اور اسمٰعیلؑ اور اسحٰق ؑ کے معبود کی ، اس کو اکیلا معبود مان کر، اور ہم اسی کے مسلم ہیں۔

مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَ انِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا، (آل عمران، آیت ۶۷)

ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نہ نصرانی ۔ بلکہ وہ یکسو مسلم تھا۔

حضرت ابراہیم ؑ و اسمٰعیلؑ خود دعا مانگتے ہیں:

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ آیت ۱۲۸)

اے ہمارے ربّ ، ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک اُمت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔

حضرت لُوط ؑ کے قصّے میں ارشاد ہوتا ہے:

فَمَا وَجَدْ نَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔(الذاریات۔ آیت ۳۶)

ہم نے قومِ لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

حضرت یوسفؑ بارگاہِ ربّ العزّت میں عرض کرتے ہیں:

تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِا الصّٰلِحِیْنَ o (یوسف۔ آیت ۱۰۱)

مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ ملا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں:

یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِا للہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَo (یونس۔ آیت ۸۴)

اے میری قوم کے لوگو، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلم ہو۔

بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ۔ چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے:

اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (یونس۔ آیت ۹۰)

میں مان گیا کہ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ، یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْ ا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا ، (المائدہ۔ آیت ۴۴)

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ، اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے اُن لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہو گئے تھے۔

یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا، چنانچہ ملکۂ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے:

اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (النمل۔ آیت ۴۴)

میں سلیمانؑ کے ساتھ ربّ العالمین کی مسلم ہو گئی ۔

اور یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا:

وَاِذْ اَوْ حَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمَنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ o (المائدہ۔آیت ۱۱۱)

اور جبکہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤمجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔

اس معاملہ میں اگر کوئی شک اِس بنا پر کیا جائے کہ عربی زبان کے الفاظ ”اسلام“ اور ”مسلم“ ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہوسکتے تھے، تو ظاہر ہے کہ یہ محض ایک نادانی کی بات ہو گی۔ کیونکہ اصل اعتبار عربی کے اِن الفاظ کا نہیں بلکہ اُس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں۔ دراصل جو بات اِن آیات میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت یا موسویت یا محمدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمانِ خداوندی کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویّہ جہاں جس بندۂ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی و ابدی دینِ حق کا متبع ہے۔ اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسیٰؑ کے بعد مسیحؑ کو اور مسیحؑ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین کو ماننا تبدیل ِ مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری و منطقی تقاضا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے گروہوں میں بے سوچے سمجھے گُھس آئے یا پیدا ہو گئے ، اور قومی و نسلی اور گروہی تعصبات نے جن کے لیے اصل مذہب کی حیثیت اختیار کر لی، وہ بس یہودی یا مسیحی بن کر رہ گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر ان کی جہالت کی قلعی کھل گئی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے آخری نبی کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا، بلکہ اپنی اس حرکت سے یہ ثابت کر دیا کہ حقیقت میں وہ پہلے بھی ”مسلم“ نہ تھے، محض ایک نبی یا بعض انبیاء کی شخصی گرویدگی میں مبتلا تھے ، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید کو دین بنائے بیٹھے تھے۔

74. یعنی ایک اجر اُس ایمان کا جو وہ پہلے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر رکھتے تھے اور دوسرا اجر اس ایمان کا جو وہ اب نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لائے۔ یہی بات اس حدیث میں بیان کی گئی ہے جو بخاری و مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثلٰثۃ لھم اجران، رجل من اھل الکتب اٰمن بنبیہ واٰمن بمحمدؐ۔۔۔۔”تین شخص ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا ۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا“۔

75. یعنی انہیں یہ دوہرا اجر اس بات کا ملے گا کہ وہ قومی و نسلی اور وطنی و گرو ہی تعصبات سے بچ کر اصل دینِ حق پر ثابت قدم رہے اور نئے نبی کی آمد پر جو سخت امتحان در پیش ہوا اس میں انہوں نے ثابت کر دیا کہ دراصل وہ مسیح پرست نہیں بلکہ خدا پرست تھے، اور شخصیتِ مسیح کےگرویدہ نہیں بلکہ ”اسلام“ کےمتبع تھے، اسی وجہ سے مسیح کے بعد جب دوسرا نبی وہی اسلام لے کر آیا جسے مسیح لائے تھے تو انہوں نے بے تکلف اس کی رہنمائی میں اسلام کا راستہ اختیار کر لیا اور اُ ن لوگوں کا راستہ چھوڑ دیا جو مسیحیت پر جمے رہ گئے۔

76. یعنی وہ بدی کا جواب بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے دیتے ہیں ۔ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں بلکہ صداقت لاتے ہیں۔ ظلم کو ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دفع کر تے ہیں۔ شرارتوں کا سامنا شرارت سے نہیں بلکہ شرافت سے کرتے ہیں۔

77. یعنی وہ راہ ِ حق میں مالی ایثار بھی کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہو کہ وہ لوگ محض حق کی تلاش میں حبش سے سفر کر کے مکے آئے تھے۔ اس محنت اور صرفِ مال سے کوئی مادّی منفعت ان کے پیش نظر نہ تھی۔ انہوں نے جب سنا کہ مکہ میں ایک شخص نےنبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے ضروری سمجھا کہ خود جا کہ تحقیق کریں تا کہ اگر واقعی ایک نبی ہی خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہو تو وہ اس پر ایمان لانے اور ہدایت پانے سے محروم نہ رہ جائیں۔

78. اشارہ ہے اس بیہودہ بات کی طرف جو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے حبشی عیسائیوں کے اس وفد سے کی تھی، جس کا ذکر اوپر حاشیہ نمبر ۷۲ میں گزر چکا ہے۔

79. سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا۔ کہنا یہ تھا کہ بد نصیبو، ماتم کرو اپنی حالت پر کہ دوسرے کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے ، جو تمہارے اپنے گھر میں بہ رہا ہے، محروم رہے جاتے ہو۔ لیکن کہا گیا ہے اِس انداز سے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ، میرے بھائی بند، میرے عزیز واقارب، اِس آبِ حیات سے بہرہ مند ہوں ، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتا ہے ، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہو سکتا ہے۔

صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ ان کا جب آخری وقت آیا تو حضورؐ نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پر ایمان لے آئیں تا کہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو، مگر انہوں نے ملتِ عبد المطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا انک لا تھدی من اجبت۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شانِ نزول کے طور پر بیان کر تے ہیں۔ اس لیے اس روایت اور اِسی مضمون کی اُن دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات بو ہریرہؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ وغیرہم سے مروی ہیں۔ لازماً یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ سورہ قصص کی یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی۔ بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سے زیادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی ۔اگرچہ حضورؓ کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہِ راست پر لانے کی تھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضورؐ کو شاق ہو سکتا تھا، اور ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہو سکتے تھے ، تو وہ ابو طالب تھے۔ لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات بالکل ظاہر ہو گئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہی ہے۔یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ کے ہاں یہ دولت کسی رشتہ د ا ری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسندی کی بنا پر عطا ہوتی ہے۔

80. یہ وہ بات ہے جو کفارِ قریش اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کفر و انکار کا سب سے اہم بنیادی سبب یہی تھا۔ اس بات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ تاریخی طور پر اُس زمانے میں قریش کی پوزیشن کیا تھی جس پر ضرب پڑنے کا انہیں اندیشہ تھا۔

قریش کو ابتداء جس چیز نے عرب میں اہمیت دی وہ یہ تھی کہ ان کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہونا انسابِ عرب کی رو سے بالکل ثابت تھا، اور اس بنا پر ان کا خاندان عربوں کی نگاہ میں پیرزادوں کا خاندان تھا۔ پھر جب قُصّی بن کِلاب کے حسن تدبیر سے یہ لوگ کعبہ کے متولی ہوگئے اور مکہ ان کا مسکن بن گیا تو ان کی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی۔ اس لیے کہ اب وہ عرب کے سب سے بڑے تیرتھ کے مجاور تھے، تمام قبائل عرب میں ان کومذہبی پیشوائی کا مقام حاصل تھا،اور حج کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو ان سے تعلقات نہ رکھتا ہو۔ اس مرکزی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر قریش نے بتدریج تجارتی ترقی شروع کی اور خوش قسمتی سے روم و ایران کی سیاسی کشمکش نے ان کو بین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام عطا کردیا۔ اُس زمانہ میں روم ویونان اور مصر و شام کی جتنی تجارت بھی چین، ہندوستان ، انڈونیشیا اور مشرقی افریقہ کے ساتھ تھی، اس کے سارے ناکے ایران نے روک دیے تھے۔ آخری راستہ بحرِ احمر کا رہ گیا تھا، سو یمن پر ایران کے قبضہ نے اسے بھی روک دیا۔ اس کے بعد کوئی صورت اس تجارت کو جاری رکھنے کے لیے اس کے سوا نہیں رہ گئی تھی کہ عرب کے تاجر ایک طرف رومی مقبوضات کا مال بحر عرب اور خلیج فارس کے بندرگاہوں پر پہنچائیں ، اور دوسری طرف انہی بندرگاہوں سے مشرقی اموالِ تجارت لے کر رومی مقبوضات میں پہنچیں۔ اس صورتِ حال نے مکہ کو بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم مرکز بنا دیا۔ اس وقت قریش ہی تھے جنہیں اس کا روبار کا قریب قریب اجارہ حاصل تھا۔ لیکن عرب کی طوائف الملو کی کے ماحول میں یہ تجارتی نقل و حرکت اس کے بغیر نہ ہوسکتی تھی کہ تجارتی شاہرا ہیں جن قبائل کے علاقوں سے گزرتی تھیں ان کے ساتھ قریش کے گہرے تعلقات ہوں۔ سردارانِ قریش اس غرض کے لیے صرف اپنے مذہبی اثر پر اکتفا نہ کر سکتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے تمام قبائل کے ساتھ معاہدات کر رکھے تھے۔ تجارتی منافع میں سے بھی وہ ان کو حصہ دیتے تھے۔ شیوخِ قبائل اور با ثر سرداروں کو تحائف و ہدایا سے بھی خوش رکھتے تھے۔ اور سودی کا روبار کا بھی ایک جال انہوں نے پھیلا رکھا تھا جس میں قریب قریب تمام ہمسایہ قبائل کے تجار اور سردار جکڑے ہوئے تھے۔

ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اٹھی تو دین آبائی کے تعصب سے بھی بڑھ کر جو چیزیں قریش کے لیے اُس کے خلاف وجہ ِ اشتعال بنی وہ یہ تھی کہ اس دعوت کی بدولت انہیں اپنا مفاد خطرے میں نظر آرہا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ معقول دلائل اور حجتوں سے شرک و بت پرستی غلط اور توحید صحیح بھی ہو تو اُس کو چھوڑنا اور اسے قبول کر لینا ہمارے لیے تباہ کن ہے ۔ ایسا کرتے ہی تمام عرب ہمارے خلاف بھڑک اٹھے گا۔ ہمیں کعبہ کی تولیت سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ بُت پرست قبائل کے ساتھ ہمارے وہ تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہو جائیں گے جن کی وجہ سے ہمارے تجارتی قافلے رات دن عرب کے مختلف حصوں سے گزرتے ہیں ۔ اس طرح یہ دین ہمارے مذہبی رسُوخ و اثر کا بھی خاتمہ کر دے گا اور ہماری معاشی خوشحالی کا بھی ۔ بلکہ بعید نہیں کہ تمام قبائلِ عرب ہمیں سرے سے مکہ ہی چھوڑدینے پر مجبور کردیں۔

یہاں پہنچ کر دنیا پرستوں کی بے بصیرتی کا عجیب نقشہ انسان کے سامنے آتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں یقین دلاتے تھے کہ یہ کلمہ جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اسے مان لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہو جائیں گے۔( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ ۳۱۶ ۔۳۱۷)۔ مگر انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو دولت، اثر، رسوخ ہمیں آج حاصل ہے یہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ یہ کلمہ قبول کرتے ہی ہم اس سر زمین میں ایسے بے یارو مددگار ہو جائیں گے کہ چیل کوّے ہماری بوٹیاں نوچ کھائیں گے۔ ان کی کوتاہ نظر ی وہ وقت نہ دیکھ سکتی تھی جب چند ہی سال بعد تمام عرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ایک مرکزی سلطنت کا تابع فرمان ہونے والا تھا، پھر اسی نسل کی زندگی میں ایران، عراق، شام ، مصر، سب ایک ایک کر کے اس سلطنت کے زیر نگین ہو جانے والے تھے، اس قول پر ایک صدی گزر نے سے بھی پہلے قریش ہی کے خلفاء سندھ سے لے کر اسپین تک اور قفقاز سے لے کر یمن کے سواحل تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر حکمرانی کرنے والےتھے۔

81. یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ا ن کے عذر کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حرم جس کے امن و امان اور جس کی مرکزیت کی بدولت آج تم اس قابل ہوئے ہو کہ دنیا بھر کا مال تجارت اِس وادی غیر ذی زرع میں کھچا چلا آرہا ہے ، کیا اس کو یہ امن اور یہ مرکزیت کا مقام تمہاری کسی تدبیر نے دیا ہے ؟ ڈھائی ہزار برس پہلے چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک اللہ کا بندہ اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو لے کر آیا تھا۔ اس نے یہاں پتھر اور گارے کا ایک حجرہ تعمیر کر دیا اور پکار دیا کہ اللہ نے اسے حرم بنایا ہے ، آؤ اس گھر کی طرف اور اس کا طواف کرو۔ اب یہ اللہ کی دی ہوئی برکت نہیں تو اور کیا ہے کہ ۲۵ صدیوں سے یہ جگہ عرب کا مرکز بنی ہوئی ہے ، سخت بد امنی کے ماحول میں ملک کا صرف یہی گوشہ ایسا ہے جہاں امن میسر ہے، اس کو عرب کا بچہ بچہ احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، اور ہر سال ہزار ہا انسان اس کے طواف کے لیے چلے آتے ہیں۔ اسی نعمت کا ثمرہ تو ہے کہ عرب کے سردار بنے ہوئے ہو اور دنیا کی تجارت کا ایک بڑا حصہ تمہارے قبضے میں ہے ۔ اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جس خدا نے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے۔ اس سے منحرف اور باغی ہو کر تو تم پھلو پھولوگے مگر اس کے دین کی پیروی اختیار کرتے ہی بر باد ہو جاؤ گے؟

82. یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مال و دولت اور خوشحالی پر تم اِترائے ہوئے ہو، اور جس کے کھوئے جانے کے خطرے سے باطل پر جمنا اور حق سے منہ موڑنا چاہتے ہو، یہی چیز کبھی عاد اور ثمود اور سبا اور مدین اور قوم لوط کے لوگوں کو بھی حاصل تھی۔ پھر کیا یہ چیز ان کو تباہی سے بچا سکی؟ آخر معیارِ زندگی کی بلندی ہی تو ایک مقصُود نہیں ہے کہ آدمی حق و باطل سے بے نیاز ہو کر بس اسی کے پیچھے پڑا رہے اور راہِ راست کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کر دے کہ ایسا کرنے سے یہ گوہر مقصود ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہے ۔ کہا تمہارے پاس اس کی کوئی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں اور بدکاریوں نے پچھلی قوموں کو تباہ کیا انہی پر اصرار کر کے تم بچے رہ جاؤ گے اور ان کی طرح تمہاری شامت کبھی نہ آئے گی؟

83. یہ ان کے عذر کا تیسرا جواب ہے۔ پہلے جو قومیں تباہ ہوئیں ان کے لوگ ظالم ہو چکے تھے ، مگر خدا نے ان کو تباہ کرنے سے پہلے اپنے رسول بھیج کر انہیں متنبہ کیا، اور جب ان کی تنبیہ پر بھی وہ اپنی کج روی سے باز نہ آئے تو انہیں ہلاک کر دیا ۔ یہی معاملہ اب تمہیں در پیش ہے۔ تم بھی ظالم ہو چکے ہو، اور ایک رسول تمہیں بھی متنبہ کرنے کے لیے آگیا ہے۔ اب تم کفر و انکار کی روش اختیار کر کے اپنے عیش اور اپنی خوشحالی کو بچاؤ گے نہیں بلکہ اُلٹا خطرے میں ڈالو گے۔ جس تباہی کا تمہیں اندیشہ ہے وہ ایمان لانے سے نہیں بلکہ انکار کرنے سے تم پر آئے گی۔