Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 61-75

اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰهُ وَعۡدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيۡهِ كَمَنۡ مَّتَّعۡنٰهُ مَتَاعَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ثُمَّ هُوَ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ مِنَ الۡمُحۡضَرِيۡنَ‏  ﴿28:61﴾ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ فَيَـقُوۡلُ اَيۡنَ شُرَكَآءِىَ الَّذِيۡنَ كُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ‏ ﴿28:62﴾ قَالَ الَّذِيۡنَ حَقَّ عَلَيۡهِمُ الۡقَوۡلُ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۤءِ الَّذِيۡنَ اَغۡوَيۡنَا ۚ اَغۡوَيۡنٰهُمۡ كَمَا غَوَيۡنَا​ ۚ تَبَـرَّاۡنَاۤ اِلَيۡكَ​ مَا كَانُوۡۤا اِيَّانَا يَعۡبُدُوۡنَ‏ ﴿28:63﴾ وَقِيۡلَ ادۡعُوۡا شُرَكَآءَكُمۡ فَدَعَوۡهُمۡ فَلَمۡ يَسۡتَجِيۡبُوۡا لَهُمۡ وَرَاَوُا الۡعَذَابَ​ۚ لَوۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿28:64﴾ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ فَيَـقُوۡلُ مَاذَاۤ اَجَبۡتُمُ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ﴿28:65﴾ فَعَمِيَتۡ عَلَيۡهِمُ الۡاَنۡۢبَآءُ يَوۡمَـئِذٍ فَهُمۡ لَا يَتَسَآءَلُوۡنَ‏  ﴿28:66﴾ فَاَمَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَعَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ مِنَ الۡمُفۡلِحِيۡنَ‏ ﴿28:67﴾ وَرَبُّكَ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخۡتَارُ​ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ​ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿28:68﴾ وَرَبُّكَ يَعۡلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوۡرُهُمۡ وَمَا يُعۡلِنُوۡنَ‏ ﴿28:69﴾ وَهُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ؕ لَـهُ الۡحَمۡدُ فِى الۡاُوۡلٰى وَالۡاٰخِرَةِ وَلَـهُ الۡحُكۡمُ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿28:70﴾ قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمُ الَّيۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ مَنۡ اِلٰـهٌ غَيۡرُ اللّٰهِ يَاۡتِيۡكُمۡ بِضِيَآءٍ​ؕاَفَلَا تَسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿28:71﴾ قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمُ النَّهَارَ سَرۡمَدًا اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ مَنۡ اِلٰـهٌ غَيۡرُ اللّٰهِ يَاۡتِيۡكُمۡ بِلَيۡلٍ تَسۡكُنُوۡنَ فِيۡهِ​ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿28:72﴾ وَمِنۡ رَّحۡمَتِهٖ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ لِتَسۡكُنُوۡا فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿28:73﴾ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ فَيَـقُوۡلُ اَيۡنَ شُرَكَآءِىَ الَّذِيۡنَ كُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ‏ ﴿28:74﴾ وَنَزَعۡنَا مِنۡ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيۡدًا فَقُلۡنَا هَاتُوۡا بُرۡهَانَكُمۡ فَعَلِمُوۡۤا اَنَّ الۡحَـقَّ لِلّٰهِ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏  ﴿28:75﴾

61 - بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرفِ حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟84 62 - اور (بھُول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جب کہ وہ اِن کو پکارے گا اور پُوچھے گا ”کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے؟“85 63 - یہ قول جن پر چسپاں ہوگا86 وہ کہیں گے ”اے ہمارے ربّ، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ اِنہیں ہم نے اُسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔87 یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے۔“88 64 - پھر اِن سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو۔89 یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ اِن کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے۔ 65 - اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ)وہ دن جبکہ وہ اِن کو پکارے گا اور پُوچھے گا کہ ”جو رسُول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا؟“ 66 - اُس وقت کوئی جواب اِن کو نہ سُوجھے گا اور نہ یہ آپس میں ایک دُوسرے سے پُوچھ ہی سکیں گے۔ 67 - البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔ 68 - تیرا ربّ پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور(وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے)منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے،90 اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ 69 - تیرا ربّ جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں۔91 70 - وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ 71 - اے نبیؐ ، اِن سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے؟ کیا تم سُنتے نہیں ہو؟ 72 - اِن سے پُوچھو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کرد ے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبُود ہے جو تمہیں رات لادے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟ 73 - یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ 74 - (یاد رکھیں یہ لوگ)وہ دن جبکہ وہ انہیں پکارے گا پھر پُوچھے گا ”کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کو تم گمان رکھتے تھے؟“ 75 - اور ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے92 پھر کہیں گے کہ ”لاوٴ اب اپنی دلیل۔“93 اس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق اللہ کی طرف ہے، اور گم ہوجائیں گے ان کے وہ سارے جھُوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔ ؏۷


Notes

84. یہ ان کے عذر کا چوتھا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہییں:

اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی ، جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے ۔ا صل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، آگے آنی ہے۔ موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سرو سامان جمع کر لے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کر لے، بہر حال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کاسب سرو سامان آدمی کو یونہی چھوڑ کر اٹھ جانا ہے ۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائماً خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے، تو کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کر سکتا۔ اس کے مقابلہ میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے ، مگر یہاں سے وہ بھلائیاں کما کر لے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے ہمیشگی کی موجب بنیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع ِ حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی ماردے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہےکہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر۔ اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخرو کرے، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے۔ لیکن جہاںمعاملہ مقابلے کا آپڑے ، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے کی ضد ہو جائیں، وہاں دینِ حق کا مطالبہ انسا ن سے یہ ہے ، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ بھی ہے، کہ آدمی دنیا کو آخرت پر قربان کر دے اور اس دنیا کی عارضی متاع و زینت کی خاطر وہ راہ ہر گز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو۔

ان دوباتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ اوپر کے فقروں میں کفار مکہ سے کیا فرماتا ہے۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو۔ اپنے کاروبار ختم کر دو، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہو جاؤ۔ بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیاتِ دنیا میں اٹھا سکتے ہو۔ اس کے بر عکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف(Quality اور Quantity ) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے ۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو گے اگر اِس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے۔ تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے انعام سے سرفراز ہو، یا وہ شخص جو گرفتار ہو کر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے؟

85. یہ تقریر بھی اسی چوتھے جواب کے سلسلہ میں ہے، اور اس کا تعلق اوپر کی آیت کے آخری فقرے سے ہے۔ اس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر شرک و بُت پرستی اور انکارِ نبوت کی جس گمراہی پر یہ لوگ اصرار کر رہے ہیں، آخرت کی ابدی زندگی میں اس کا کیسا بُرا نتیجہ انہیں دیکھنا پڑے گا۔ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ فرض کرو دنیا میں تم پر کوئی آفت نہ بھی آئے اور یہاں کی مختصر سی زندگی میں تم حیاتِ دنیا کی متاع و زینت سے خوب بہرہ اندوز بھی ہو لو، تب بھی اگر آخرت میں اس کا انجام یہی کچھ ہونا ہے تو خود سوچ لو کہ یہ نفع کا سودا ہے جو تم کر رہے ہو، یا سراسر خسارے کا سودا؟

86. اس سے مراد وہ شیاطین جِن و انس ہیں جن کو دنیا میں خدا کا شریک بنایا گیا تھا، جن کی بات کے مقابلے میں خدا اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کیا گیا تھا، اور جن کے اعتماد پر صراط مستقیم کو چھوڑ کر زندگی کے غلط راستے اختیار کیے گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو خواہ کسی نے الٰہ اور رب کہا ہو یا نہ کہا ہو،بہر حال جب ان کی اطاعت و پیروی اُس طرح کی گئی جیسی خدا کی ہونی چاہیے تو لازماً انہیں خدائی میں شریک کیا گیا۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔

87. یعنی ہم نے زبر دستی اِن کو گمراہ نہیں کیا تھا۔ ہم نے نہ اِن سے بینائی اور سماعت سلب کی تھی، نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھیں، اور نہ ایسی ہی کوئی صورت پیش آئی تھی کہ یہ تو راہِ راست کی طرف جانا چاہتے ہوں مگر ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جبراً انہیں غلط راستے پر کھینچ لے گئے ہوں۔ بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح اِن کے سامنےبھی ہم نے گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اس کو قبول کیا۔ لہٰذا ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار۔

یہاں یہ لطیف نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سوال تو کرے گا شریک ٹھیرانے والوں سے ۔ مگر قبل اس کے کہ یہ کچھ بولیں، جواب دینے لگیں گے وہ جن کو شریک ٹھیرا یا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر اور پیشوا محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت ۔ یہ ہمارے سابق پیرو ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اس لیے پیرووں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کر کے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کر دیں گے۔

88. یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔

89. یعنی انہیں مدد کے پکار و۔ دنیا میں تو تم نے ان پر بھروسا کر کے ہماری بات رد کی تھی۔ اب یہاں ان سے کہو کہ آئیں اور تمہاری مدد کریں اور تمہیں عذاب سے بچائیں۔

90. یہ ارشاد در اصل شرک کی تردید میں ہے ۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جو بے شمار معبود اپنے لیے بنا لیے ہیں، اور ان کو اپنی طرف سے جو اوصاف، مراتب اور مناصب سونپ رکھے ہیں ، اس پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں، فرشتوں ، جِنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کو جیسے چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہیں ، لیتے ہیں۔ یہ اختیارات ان مشرکوں کوکیسے اور کہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میں سے جس کو چاہیں مشکل کشا ، جسے چاہیں گنج بخش اور جسے چاہیں فریاد رس قرار دے لیں؟ جسے چاہیں بارش برسانے کا مختار، جسے چاہیں روزگار یا اولاد بخشنے والا، جسے چاہیں بیماری و صحت کا مالک بنا دیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کا فرماں روا ٹھیرا لیں؟ اور میرے اختیارات میں جو کچھ جس کو چاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہو یا جن یا نبی یا ولی ، بہر حال جو بھی ہے ہمارا پیدا کیا ہوا ہے۔ جو کمالات بھی کسی کو ملے ہیں ہماری عطا وبخشش سے ملے ہیں۔ اور جو خدمت بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے ۔ اس برگزیدگی کے یہ معنی آخر کیے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے پر پہنچا دیے جائیں اور خدا کو چھوڑ کر ان کے آگے سر نیاز جھکا دیا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ لیا جائے، اور انہیں خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے دیا جائے؟

91. اس سلسلہ کلام میں یہ بات جس مقصد کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص یا گروہ دنیا میں لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ جس گمراہی کو اس نے اختیار کیا ہے اس کی صحت پر وہ بڑے معقول وجوہ سے مطمئن ہے ، اور اس کے خلاف جو دلائل دیے گئے ہیں ان سے فی الحقیقت اس کا اطمینان نہیں ہوا ہے، اور اس گمراہی کو اس نے کسی بُرے جذبے سے نہیں بلکہ خالص نیک نیتی کے ساتھ اختیار کیا ہے ، اور اس کے سامنے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں آئی ہے جس سے اس کی غلطی اس پر واضح ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی یہ بات نہیں چل سکتی۔ وہ صرف ظاہر ہی کو نہیں دیکھتا۔ اس کے سامنے تو آدمی کے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ کھلا ہوا ہے ۔ وہ اس کے علم اور احساسات اور جذبات اور خواہشات اور نیت اور ضمیر، ہر چیز کو براہ ِ راست جانتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ کس شخص کو کس کس وقت کن ذرائع سے تنبیہ ہوئی ، کن کن راستوں سے حق پہنچا، کس کس طریقے سے باطل کا باطل ہونا اس پر کھلا، اور پھر وہ اصل محرکات کیا تھے جن کی بنا پر اس نے اپنی گمراہی کو ترجیح دی اور حق سے منہ موڑا۔

92. یعنی وہ نبی جس نے اس اُمت کو خبرادار کیا تھا، یا انبیاء کے پیرووں میں سے کوئی ایسا ہدایت یافتہ انسان جس نے اس امت میں تبلیغ ِ حق کا فریضہ انجام دیا تھا، یا کوئی ایسا ذریعہ جس سے اس امت تک پیغامِ حق پہنچ چکا تھا۔

93. یعنی اپنی صفائی میں کوئی ایسی حجت پیش کرو جس کی بنا پر تمہیں معاف کیا جاسکے۔ یا تو یہ ثابت کرو کہ تم جس شرک ، جس انکارِ آخرت اور جس انکارِ نبوت پر قائم تھے وہ بر حق تھا اور تم نے معقول وجوہ کی بنا پر یہ مسلک اختیار کیا تھا۔ یا یہ نہیں تو پھر کم از کم یہی ثابت کر دو کہ خدا کی طرف سے تم کواس غلطی پر متنبہ کر نے اور ٹھیک بات تم تک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔