Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 76-82

اِنَّ قَارُوۡنَ كَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰى فَبَغٰى عَلَيۡهِمۡ​ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنَ الۡكُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَةِ اُولِى الۡقُوَّةِ اِذۡ قَالَ لَهٗ قَوۡمُهٗ لَا تَفۡرَحۡ​ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡفَرِحِيۡنَ‏  ﴿28:76﴾ وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ​ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا​ وَاَحۡسِنۡ كَمَاۤ اَحۡسَنَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ​ وَلَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿28:77﴾ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوۡتِيۡتُهٗ عَلٰى عِلۡمٍ عِنۡدِىۡ​ؕ اَوَلَمۡ يَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ قَدۡ اَهۡلَكَ مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مَنۡ هُوَ اَشَدُّ مِنۡهُ قُوَّةً وَّاَكۡثَرُ جَمۡعًا​ؕ وَلَا يُسۡـئَلُ عَنۡ ذُنُوۡبِهِمُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿28:78﴾ فَخَرَجَ عَلٰى قَوۡمِهٖ فِىۡ زِيۡنَتِهٖ​ؕ قَالَ الَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا يٰلَيۡتَ لَـنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِىَ قَارُوۡنُۙ اِنَّهٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِيۡمٍ‏ ﴿28:79﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَيۡلَـكُمۡ ثَوَابُ اللّٰهِ خَيۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ۚ وَلَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ‏ ﴿28:80﴾ فَخَسَفۡنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الۡاَرۡضَ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنۡ فِئَةٍ يَّـنۡصُرُوۡنَهٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُنۡتَصِرِيۡنَ‏ ﴿28:81﴾ وَاَصۡبَحَ الَّذِيۡنَ تَمَـنَّوۡا مَكَانَهٗ بِالۡاَمۡسِ يَقُوۡلُوۡنَ وَيۡكَاَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ​ۚ لَوۡلَاۤ اَنۡ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيۡنَا لَخَسَفَ بِنَا​ ؕ وَيۡكَاَنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الۡكٰفِرُوۡنَ‏  ﴿28:82﴾

76 - یہ ایک واقعہ ہے94 کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا۔95 اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔96 ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ”پھُول نہ جا، اللہ پھُولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 77 - جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔“ 78 - تو اُس نے کہا ”یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے“97 ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟98 مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پُوچھے جاتے۔99 79 - ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نِکلا۔ جو لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے ”کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے۔“ 80 - مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے ”افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو۔“100 81 - آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا۔ 82 - اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے ”افسوس، ہم بھُول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا دیتا ہے۔101 اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے۔“102؏۸


Notes

94. یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اُسی عذر کے جواب میں بیان کیا جا رہا ہے جس پر یہ آیت۵۷ سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیاتھا وہ در اصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ، ساہو کار اور سرمایہ دار تھے جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارونِ وقت بنا رکھا تھا۔ یہ لوگ اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہےکہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹو۔ اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزؤوں بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہو جائے۔ اس زر پرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جا رہی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس توحید و آخرت کی، اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آ رہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑ جائیں گے۔

95. قارون، جس کا نام بائیبل اور تلمود میں قورح (Korah ) بیان کیا گیا ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ بائیبل کی کتاب خروج (باب۶۔ آیت ۲۱-۱۸) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسیٰؑ اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے مقابلے میں فرعون کے بعد مخالفت کے جو دو سب سے بڑے سرغنے تھے ان میں سے ایک یہی قارون تھا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ بِاٰ یٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ، اِلیٰ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ کَذَّابٌ o (المومن۔ آیت ۲۴-۲۳)

ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا ، مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادو گر ہے سخت جھوٹا۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہو کر اُس دشمن طاقت کا پٹھو بن گیا تھا جو بنی اسرائیل کو جڑ بنیاد سے ختم کر د ینے پر تُلی ہوئی تھی۔ اور اس قومی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میں یہ مرتبہ حاصل کر لیا تھا کہ حضرت موسیٰؑ فرعون کے علاوہ مصر کی جن دو بڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دو ہی تھیں، ایک فرعون کا وزیر ہامان، اور دوسرا یہ اسرائیلی سیٹھ۔ باقی سب اعیان سلطنت اور درباری ان سے کم تر درجے میں تھے جن کا خاص طور پر نام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ قارون کی یہی پوزیشن سورۂ عنکبوت کی آیت نمبر ۳۹ میں بھی بیان کی گئی ہے۔

96. بائیبل (گنتی، باب۱۶) میں اس کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں اس شخص کی دولت کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کا مالک تھا حتیٰ کہ اس کےخزانوں کی کنجیاں اُٹھانے کے لیے تین سو خچر درکار ہوتے تھے(جیوش انسائیکلو پیڈیا، ج۷،ص۵۵۶) یہ بیان اگر چہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے، لیکن اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اسرائیلی روایات کی رو سے بھی قارون اپنے وقت کا بہت بڑا دولت مند آدمی تھا۔

97. اصل الفاظ ہیں اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلیٰ عِلْمٍ عِنْدِیْ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ میں نے جو کچھ پایا ہے اپنی قابلیت سے پایا ہے ، یہ کوئی فضل نہیں ہے جو استحقاق کے بجائے احسان کے طور پر کسی نے مجھ کو دیا ہو اور اب مجھے اس کا شکریہ اس طرح ادا کرنا ہو کہ جن نا اہل لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا ہے انہیں میں فضل و احسان کے طورپر اس میں سے کچھ دوں ، یا کوئی خیر خیرات اس غرض کے لیے کر وں کہ یہ فضل مجھ سے چھین نہ لیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میرے نزدیک تو خدا نے یہ دولت جو مجھے دی ہےمیرے اوصاف کو جانتے ہوئے دی ہے۔ اگر میں اس کی نگاہ میں ایک پسندیدہ انسان نہ ہوتا تو یہ کچھ مجھے کیوں دیتا۔ مجھ پر اس کی نعمتوں کی بارش ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کا محبوب ہوں اور میری روش اس کو پسند ہے۔

98. یعنی یہ شخص جو بڑا عالم و فاضل اور دانا و باخبر بنا پھر رہا تھا اور اپنی قابلیت کا یہ کچھ غَرَّہ رکھتا تھا ، اس کے علم میں کیا یہ بات کبھی نہ آئی تھی کہ اُس سے زیادہ دولت و حشمت اور قوت و شوکت والے اس سے پہلے دنیا میں گزر چکے ہیں اور اللہ نے انہیں آخر کار تباہ و برباد کر کے رکھ دیا؟ اگر قابلیت اور ہنر مندی ہی دنیوی عروج کے لیے کوئی ضمانت ہے تو ان کی یہ صلاحیتیں اُ س وقت کہاں چلی گئی تھیں جب وہ تباہ ہوئے؟ اور اگر کسی کو دنیوی عروج نصیب ہونا لازماً اسی بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے خوش ہے اور اس کے اعمال و اوصاف کو پسند کرتا ہے تو پھر اُن لوگوں کی شامت کیوں آئی؟

99. یعنی مجرم تو یہی دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے لوگ ہیں ۔ وہ کب مانا کرتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی برائی ہے ۔ مگر ان کی سزا ان کے اپنے اعتراف پر منحصر نہیں ہوتی۔ انہیں جب پکڑا جاتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑا جاتا کہ بتاؤ تمہارے گناہ کیا ہیں۔

100. یعنی یہ سیرت، یہ انداز فکر اور یہ ثوابِ الہٰی کی بخشش صرف انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جن میں اتنا تحمل اور اتنی ثابت قدمی موجود ہو کہ حلال طریقے ہی اختیار کرنے پر مضبوطی کےساتھ جمےرہیں ، خواہ ان سے صرف چٹنی روٹی میسر ہو کہ کروڑ پتی بن جانا نصیب ہو جائے، اور حرام طریقوں کی طرف قطعاً مائل نہ ہوں خواہ ان سے دنیا بھر کے فائدے سمیٹ لینے کا موقع مل رہا ہو۔ اس آیت میں اللہ کےثواب سے مراد ہے وہ رزقِ کریم جو حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے محنت و کوشش کرنے کے نتیجے میں انسان کو دنیا اور آخرت میں نصیب ہو۔ اور صبر سے مراد ہے اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھنا، لالچ اور حرص وآز کے مقابلے میں ایمانداری اور راستبازی پر ثابت قدم رہنا، صداقت و دیانت سے جو نقصان بھی ہوتا ہو یا جو فائدہ بھی ہاتھ سے جاتا ہو اسے برداشت کرلینا، نا جائز تدبیروں سے جو منفعت بھی حاصل ہو سکتی ہو اسے ٹھوکر مار دینا ، حلال کی روزی خواہ بقدر سدِّر مق ہی ہو اس پر قانع و مطمئن رہنا، حرام خوروں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر رشک و تمنا کے جذبات سے بے چین ہونے کے بجائے اس پر ایک نگاہِ غلط انداز بھی نہ ڈالنا اور ٹھنڈے دل سے یہ سمجھ لینا کہ ایک ایماندارآدمی کےلیے اِس چمکدار گندگی کی بہ نسبت وہ بے رونق طہارت ہی بہتر ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے اس کو بخشی ہے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو “تو اس دولت سے مراد اللہ کا ثواب بھی ہے اور وہ پاکیزہ ذہنیت بھی جس کی بنا پر آدمی ایمان و عمل صالح کے ساتھ فاقہ کشی کر لینے کو اس سے بہتر سمجھتا ہے کہ بے ایمانی اختیار کر کے ارب پتی بن جائے۔

101. یعنی اللہ کی طرف سے رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے ۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے ۔ مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آخر کار یہی دولت اس کےاوپر اللہ کا سخت عذاب لے آتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے ۔ اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے با وجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کےلیے خدا کی رحمت ہوتی ہے ۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے ہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اُن لوگوں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل خدا کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں۔

102. یعنی ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ دنیوی خوشحالی اور دولت مندی ہی فلاح ہے ۔ اسی وجہ سے ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پا رہا ہے ۔ مگر اب پتہ چلا کہ حقیقی فلاح کسی اور ہی چیزکا نام ہے اور وہ کافروں کو نصیب نہیں ہوتی۔

قارون کے قصے کا یہ سبق آموز پہلو صرف قرآن ہی میں بیا ن ہوا ہے ۔ بائیبل اور تلمود دونوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ البتہ دونوں کتابوں میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو یہ شخص بھی اپنی پارٹی سمیت ان کےساتھ نکلا، اور پھر اس نےحضرت موسیٰؑ و ہارون کےخلاف ایک سازش کی جس میں ڈھائی سو آدمی شامل تھے۔ آخر کار اللہ کا غضب اس پر نازل ہوا اور یہ اپنے گھر بار اور مال اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔