Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 83-88

تِلۡكَ الدَّارُ الۡاٰخِرَةُ نَجۡعَلُهَا لِلَّذِيۡنَ لَا يُرِيۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فَسَادًا​ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿28:83﴾ مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيۡرٌ مِّنۡهَا​ ۚ وَمَنۡ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجۡزَى الَّذِيۡنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿28:84﴾ اِنَّ الَّذِىۡ فَرَضَ عَلَيۡكَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ​ ؕ قُلْ رَّبِّىۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡهُدٰى وَمَنۡ هُوَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿28:85﴾ وَمَا كُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ يُّلۡقٰٓى اِلَيۡكَ الۡكِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ​ فَلَا تَكُوۡنَنَّ ظَهِيۡرًا لِّـلۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿28:86﴾ وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعۡدَ اِذۡ اُنۡزِلَتۡ اِلَيۡكَ​ وَادۡعُ اِلٰى رَبِّكَ​ وَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ​ۚ‏ ﴿28:87﴾ وَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ​ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ كُلُّ شَىۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ​ؕ لَـهُ الۡحُكۡمُ وَاِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿28:88﴾

83 - وہ آخرت کا گھر103 تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصُوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے104 اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔105 اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔106 84 - جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے، اور جو بُرائی لے کر آئے تو برائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔ 85 - اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے107 وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے۔108 اِن لوگوں سے کہہ دو کہ ”میرا ربّ خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے۔“ 86 - تم اس بات کے ہرگز اُمیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے ربّ کی مہربانی سے (تم پر نازل ہوئی ہے)،109 پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو۔110 87 - اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کُفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں۔111 اپنے ربّ کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو 88 - اور اللہ کے سوا کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو۔ اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔ فرماں روائی اسی کی ہے112 اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ ؏۹


Notes

103. مراد ہے جنت جو حقیقی فلاح کا مقام ہے۔

104. یعنی جو خدا کی زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ جو سرکش وجبار اور متکبر بن کر نہیں رہتے بلکہ بندے بن کر رہتے ہیں اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا کر رکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

105. فساد سے مراد انسانی زندگی کےنظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں لازماً رونما ہوتا ہے ۔ خدا کی بندگی اور اس کے قوانین کی اطاعت سے نکل کر آدمی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سراسر فساد ہی فسا د ہے۔ اسی کا ایک جُز وہ فساد بھی ہے جو حرام طریقوں سے دولت سمیٹنے اور حرام راستوں میں خرچ کرنے سے برپا ہوتا ہے۔

106. یعنی ان لوگوں کے لیے جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔

107. یعنی اس قرآن کو خلقِ خدا تک پہنچانے اورا س کی تعلیم دینے اوراس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔

108. اصل الفاظ ہیں لَرَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ۔ ”تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے۔“ معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو۔ اور اسے نکرہ استعمال کرنے سے اس میں خود بخود یہ مفہوم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اور عظمت کا مقام ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے۔ لیکن اسے صرف جنت کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ، تا کہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہو جائے۔ سیاق عبارت کا اقتضاء بھی یہ ہے کہ اسے آخرت ہی میں نہیں اِس دنیا میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے ۔ کفار ِ مکہ کے جس قول پر آیت نمبر ۵۷ سے لے کر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے، اُس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبنا چاہتے ہو۔ اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور اس دین کو اختیار کر لیں تو عرب کی سر زمین میں ہمارا جینا مشکل ہو جائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ سے فرماتا ہے کہ اے نبیؐ، جس خدا نے اس قرآن کی علم برداری کا بار تم پر ڈالا ہے وہ تمہیں برباد کرنے والا نہیں ہے، بلکہ تم کو اُس مرتبے پر پہنچانے والا ہے جس کا تصور بھی یہ لوگ آج نہیں کر سکتے۔ اور فی الواقع اللہ تعالیٰ نے چند ہی سال بعد حضورؐ کو اِس دنیا میں ، اُنہی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تمام ملک عرب پر ایسا مکمل اقتدار عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھیر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لیے وہاں گنجائش نہ رہی۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجود نہ تھی کہ پورے جزیرۃ العرب پر کسی ایک شخص کی ایسی بے غل و غش بادشاہی قائم ہو گئی ہو کہ ملک بھر میں کوئی اس کا مد مقابل باقی نہ رہا ہو، کسی میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو، اور لوگ صرف سیاسی طور پر ہی اس کے حلقہ بگوش نہ ہوئے ہوں بلکہ سارے دینوں کو مٹا کر اسی ایک شخص نے سب کو اپنے دین کا پیرو بھی بنا لیا ہو۔

بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۂ قصص کی یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا ۔ لیکن اوّل تو اس کے الفاظ میں کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ ”معاد“ سے”مکّہ“ مراد لیا جائے ۔ دوسرے ، یہ سورۃ روایات کی رو سے بھی اور اپنے مضمون کی داخلی شہادت کے اعتبار سے بھی ہجرت حبشہ کے قریب زمانہ کی ہے اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت ِ مدینہ کے راستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اسے کس مناسبت سے یہاں اِس سیاق و سباق میں لا کر رکھ دیا گیا۔ تیسرے ، اِس سیاق و سباق کے اندر مکہ کی طرف حضورؐ کی واپسی کا ذکر بالکل بے محل نظر آتا ہے۔ آیت کے یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ کفارِ مکّہ کی بات کا جواب نہیں بلکہ اُن کے عذر کو اور تقویّت پہنچانے والا ہو گا۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بے شک اے اہلِ مکہ ، تم ٹھیک کہتے ہو، محمدؐ اس شہر سے نکال دیے جائیں گے ، لیکن وہ مستقل طور پر جلا وطن نہیں رہیں گے، بلکہ آخر کار ہم انہیں اسی جگہ واپس لے آئیں گے۔ یہ روایت اگرچہ بخاری، نسائی، ابن جریر اور دوسرے محدثین نے ابن عباسؓ سے نقل کی ہے ، لیکن یہ ہے ابن عباس کی اپنی ہی رائے۔ کوئی حدیث ِمرفوع نہیں ہے کہ اسے ماننا لازم ہو۔

109. یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جا رہی ہے ۔ جس طرح موسیٰ علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنا یا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ،اُن کے حاشیہ، خیال میں بھی اِس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا۔ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غارِ حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اُس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی، آپ کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی۔ آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے، آپ کی دلچسپیاں اور سر گرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی۔ اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاسِ عہد، ادائے حقوق اور خدمتِ خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایا ں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بند ہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے۔ آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے اُن مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غارِ حرا ء کی اُس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرنے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑےنہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اُٹھے تھے۔ بلکہ کبھی آپ کی کسی سر گرمی سے یہ گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں۔ اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیےخلوت میں جا بیٹھتا ہے ۔ ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظامِ فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا، اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہر حال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل اُن لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا اُن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔

پھر یہ بات کہ آپ خود بھی نبوت کے خواہش مند ، یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے، بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا، اس کا ثبوت اُس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے۔ جبریلؑ سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ غارحرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ”مجھے اُڑھاؤ، مجھے اڑھاؤ“۔ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ ”مجھ اپنی جان کا ڈر ہے “۔ وہ فوراً جواب دیتی ہیں”ہرگز نہیں۔ آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا۔ آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں۔ بے کس کو سہارا دیتے ہیں ۔ بے زر کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں“۔ پھر وہ آپ کو لے کر وَرَقہ بن نَوفَل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچا زاد بھائی اور اہلِ کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے کہ ” یہ جو آپ کے پاس آیا تھا وہی ناموس(کار خاص پر مامور فرشتہ) ہے جو موسیٰؑ کے پاس آتا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی“ آپ پوچھتے ہیں ”کیا یہ لوگ مجھے نکا ل دیں گے“؟ وہ جواب دیتے ہیں”ہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جوآپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ وہ گئے ہوں“۔

یہ پورا واقعہ اُس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلافِ توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہو سکتی ہے ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے ، اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے، اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنی ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ، تو غارِ حرا ء والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے ، اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے ۔ لیکن اس کے بر عکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں، کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں، لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں، ذرا دل ٹھیرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ، معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امید وار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ۔

پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے ؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امید وار ہیں ا ور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں، تو ان کا جواب ہر گز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہؓ نے دیا۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو۔ جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ، چلو، اب پیری کی دکان چمکاؤ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔ لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا ، نہ اللہ اس کو کسی بُری آزمائش میں ڈال سکتا ہے ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔

اور یہی معاملہ وَرَ قہ میں نَوفَل کا بھی ہے ۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی برادری کے آدمی اور قریب کے رشتے سے برادرِ نسبتی تھے۔ پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کی بناوٹ اور تصنع سے مُمیَّز کر سکتے تھے۔ عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی بچپن سے اُس وقت تک ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے بھی آپ کی زبان سے حراء کی سرگز شت سنتے ہی فوراً کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلا م کے ساتھ پیش آئی تھی کہ انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے ، نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار، اس کے حصول کا تصور تک اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے ۔ اور اچانک وہ پورے ہوش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی چیز نے اُن کو دو اور چار کی طرح بلاادنیٰ تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا شیطانی کرشمہ نہیں ہے ، بلکہ اِس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے ۔

یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ایسا بینِ ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کر سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیلِ نبوت کی حیثیت سےپیش کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ یونس میں فرمایا:

قُلْ لَّو شَآءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہٗعَلَیْکُمْ وَّ لَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖٓ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo (آیت ۱۶)

اے نبیؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک وہ تم کو نہ دیتا۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟

اور سورۂ شوریٰ میں فرمایا:

مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآ ءُ مِنْ عِبَادِنَا۔ (آیت ۵۶)

اے نبیؐ، تم تو جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نُور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۱۔ جلد سوم، عنکبوت حواشی ۸۸ تا ۹۲، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۸۴۔

110. یعنی جب اللہ نے یہ نعمت تمہیں بے مانگے عطا فرمائی ہے تو اس کا حق اب تم پر یہ ہے کہ تمہاری ساری قوتیں اور محنتیں اس کی علمبرداری پر، اس کی تبلیغ پر اور اسے فروغ دینے پر صرف ہوں اس میں کوتاہی کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے حق کے بجائے منکرینِ حق کی مدد کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کسی کوتاہی کا اندیشہ تھا ۔ بلکہ دراصل اس طرح اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوئے اپنے نبی کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ تم اِن کے شور و غوغا اور ان کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کرو اور اس کی کوئی پروا نہ کرو کہ دشمنانِ حق اس دعوت سے اپنے قومی مفاد پر ضرب لگنے کے کیا اندیشے ظا ہر کرتے ہیں۔

111. یعنی اُن کی تبلیغ و اشاعت سے اور ان کے مطابق عمل کرنے سے ۔

112. یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ فرمانروائی اسی کے لیے ہے، یعنی وہی اس کا حق رکھتا ہے۔