Tafheem ul Quran

Surah 29 Al-'Ankabut, Ayat 1-13

الٓمّٓ​ ۚ‏ ﴿29:1﴾ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ‏ ﴿29:2﴾ وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿29:3﴾ اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ اَنۡ يَّسۡبِقُوۡنَا​ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿29:4﴾ مَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ​ؕ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿29:5﴾ وَمَنۡ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفۡسِهٖؕ اِنَّ اللّٰهَ لَـغَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿29:6﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـنُكَفِّرَنَّ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَلَـنَجۡزِيَنَّهُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِىۡ كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿29:7﴾ وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ حُسۡنًا​ ؕ وَاِنۡ جَاهَدٰكَ لِتُشۡرِكَ بِىۡ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡهُمَا ؕ اِلَىَّ مَرۡجِعُكُمۡ فَاُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿29:8﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـنُدۡخِلَـنَّهُمۡ فِى الصّٰلِحِيۡنَ‏  ﴿29:9﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوۡذِىَ فِى اللّٰهِ جَعَلَ فِتۡنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ وَلَـئِنۡ جَآءَ نَـصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّكَ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمۡ​ؕ اَوَلَـيۡسَ اللّٰهُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِىۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿29:10﴾ وَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَيَـعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ‏  ﴿29:11﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِيۡلَـنَا وَلۡـنَحۡمِلۡ خَطٰيٰكُمۡ ؕ وَمَا هُمۡ بِحٰمِلِيۡنَ مِنۡ خَطٰيٰهُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ​ؕ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿29:12﴾ وَلَيَحۡمِلُنَّ اَ ثۡقَالَهُمۡ وَاَ ثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِهِمۡ​ وَلَـيُسۡـئَـلُنَّ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿29:13﴾

1 - الف۔ ل۔ م۔ 2 - کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟1 3 - حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔2 اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے3 کہ سچے کون ہیں اور جھُوٹے کون۔ 4 - اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں4 یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟5 بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔ 5 - جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ)اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے،6 اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔7 6 - جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا،8 اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے۔9 7 - اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔10 8 - ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود)کو شریک ٹھہرا ئے جسے تُو (میرے شریک کی حیثیت سے )نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔11 میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔12 9 - اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے اُن کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔ 10 - لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔13 مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔14 اب اگر تیرے ربّ کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ” ہم تو تمہارے ساتھ تھے“15 کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ 11 - اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون۔16 12 - یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاوٴں کو ہم اپنے اُوپر لے لیں گے۔17 حالانکہ اُن کی خطاوٴں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اُوپر لینے والے نہیں ہیں،18 وہ قطعاً جھُوٹ کہتے ہیں۔ 13 - ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔19 اور قیامت کے روز یقیناً ان سے اِن افترا پردازیوں کی باز پرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں۔20 ؏۱


Notes

1. جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ ٔ معظمہ میں جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا ۔ کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں۔ کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کر دیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی۔ کوئی کسی با اثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اَجیرن کر دیتے تھے۔ ان حالات نے مکّے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو جانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دوچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئِی تزلزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خَبّاب بن اَرَت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سُن کر آپ کا چہرہ جو ش اور جذبے سے سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تا کہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم، یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صَنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جس کا وہ خوف کرے۔

اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص مجرّد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہو سکتا ، بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہو گا تا کہ وہ اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اِتنی سستی نہیں ہے ، اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے۔ ہماری خاطر مشقتیں اُٹھانی ہوں گی۔ جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہو گا۔ طر ح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی ۔ خطرات ، مصائب اورمشکلات کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ خوف سے بھی آزمائے جاؤگے اور لالچ سے بھی۔ ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا، اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے ، ہمارے لیے برداشت کرنا ہو گی۔ تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعویٰ تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اُس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہُوا ہے۔ ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات، بیرونی خطرات ، اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہلِ ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا، اس وقت فرمایا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْ ا مِنْ قَبْلِکُمْ ، مَّسَّتْہُمُ الْبَاْ سَآ ءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِ لُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْب ٌo

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہلِ ایمان) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اور اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی(تب انہیں مژدہ سنایا گیا) کہ خبر دار رہو ، اللہ کی مدد قریب ہے۔

اِسی طرح جنگِ اُحُد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جَا ھَدُوْ ا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پا مردی دکھانے والے کون ہیں؟

قریب قریب یہی مضمون سورۂ آلِ عمران ، آیت ۱۷۹۔ سورۂ توبہ آیت۱۶ اور سورۂ محمدؐ ، آیت ۳۱ میں بھی بیان ہُوا ہے ۔ ان ارشادات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے ، کھوٹا خود بخود اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے ، اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے تا کہ اللہ کے اُن انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صاد ق الایمان لوگوں کا ہی حصّہ ہیں۔

2. یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے۔ اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری کیا خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔

3. اصل الفاظ ہیں فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ ، جن کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا ”ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے۔ اس پر ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے ، عملاً اس کا ظہور نہیں ہو جاتا ، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلاً ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت۔ ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملاً ظہور نہ ہو جائے ، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علمِ غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علمِ سابق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال سے پہلے اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اور اِن کے آئندہ طرزِ عمل کے بارے میں حاصل ہے ، انصاف کے اغراض کے لیے کافی نہیں ہے ۔ اللہ کے ہاں انصاف اِس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رحجان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے، بلکہ اِس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اِس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلیٰ درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اِس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کر دیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر د کھا دی ہے۔ اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ ”اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے“ کیا ہے۔

4. اس سے مراد اگرچہ تمام وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر روئے سخن قریش کے اُن ظالم سرداروں کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں اور اسلام قبول کرنے والوں کو اذیتیں دینے میں اُس وقت پیش پیش تھے۔ مثلاً وَلِید بن مُغِیرہ، ابو جہل، عُتبَہ، شَیبہ، عُقْبہ بن ابی مُعَیط، اور حَنظلہ بن وائِل وغیرہ ۔سِیاق و سباق خود یہاں تقاضا کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو آزمائشوں کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد ایک کلمۂ زجر و توبیخ اُن لوگوں کو خطاب کر کے بھی فرمایا جائے جو ان حق پرستوں پر ظلم ڈھا رہے تھے۔

5. یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ”ہماری گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ سکیں گے۔“ اصل الفاظ ہیں یَسْبِقُوْنَا یعنی ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں (یعنی اپنے رسول کے مشن کی کامیا بی) وہ تو نہ ہو سکے اور جو کچھ یہ چاہتے ہیں( یعنی ہمارے رسول کو نیچا دکھانا ) وہ ہو جائے ۔ دوسرا یہ کہ ہم ان کی زیادتیوں پر انہیں پکڑنا چاہتے ہوں اور یہ بھاگ کر ہماری دست رس سے دور نکل جائیں۔

6. یعنی جو شخص حیاتِ اخروی کا قائل ہی نہ ہو اوور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامۂ زندگی کا محاسبہ کیا جائے ، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بے فکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے۔ اپنا نتیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے، انہیں اِس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہی آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتی ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کر سکتے ہوں کر لیں۔ طولِ حیات کے بے بنیاد بھروسے پر اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیِں۔

7. یعنی اُن کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شہ بے خبر سے ہے۔ جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ بے خبر نہیں بلکہ سمیع و علیم خدا ہے، ان کی کوئی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

8. ”مجاھدہ“ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کشمکش اور جدو جہد کرنے کے ہیں، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقًا مجاھدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے۔ مومن کو اِس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے اُن تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات، رُحْجانات ، اُصُولِ اخلاق، رسم و رواج، طرز تمدّن اور قوانینِ معیشت و معاشرت دینِ حق سے متصادم ہوں۔ اور اُس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا ، اور چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی، کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان الرجل لیجاھد و ما ضرب یو ما من الدھر بسیف۔ ”آدمی جہاد کرتا ہے خوا ہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔“

9. یعنی اللہ تعالیٰ اِ س مجاہدہ کا مطالبہ تم سے اس لیے نہیں کر رہا ہے کہ اپنی خدائی قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری اس لڑائی کے بغیر اس کی خدائی نہ چلے گی۔ بلکہ وہ اس لیے تمہیں اس کش مکش میں پڑنے کی ہدایت کرتا ہے کہ یہی تمہاری ترقی کا راستہ ہے۔ اسی ذریعہ سے تم بدی اور گمراہی کے چکر سے نکل کر نیکی اور صداقت کی راہ پر بڑھ سکتے ہو۔ اسی سے تم میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں خیر و صلاح کے علمبردار اور آخرت میں خدا کی جنت کے حق دار بنو۔ تم یہ لڑائی لڑ کر خدا پر کوئی احسان نہ کرو گے ، اپنا ہی بھلا کر و گے۔

10. ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عملِ صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں ۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور اعضا و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں ، اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہو۔ اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں:

ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں اس سے دور کر دی جائیں گی۔

دوسرا یہ کہ اس کے بہترین اعمال کی، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی۔

برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے اُن سے در گزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہو گی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہو جائیں گی۔

ایمان و عمل صالح کی جزاء کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے لَنَجْزِ یَنَّھُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزاء کا مستحق ہو گا، اس سے زیادہ اچھی جزاء اُسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ انعام میں فرمایا مَنْ جَآءَ بِا الْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَا لِھَا (آیت۱۶۰) ۔ ” جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا۔“ اور سورۂ قَصص میں فرمایا مَنْ جَآءَ بِا الْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْھَا (آیت ۸۴)۔ ” جو شخص نیکی لے کر آئیگا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا۔“ اور سورۂ نساء میں فرمایا اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَّاِنْ تَکُ حَسَنَۃٌ یُّضَا عِفْھَا (آیت ۴۰)۔ ”اللہ ظلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا ، اور اگر نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے۔“

11. اس آیت کے متعلق مسلم ، ترمذی، احمد، ابو داؤد، اور نَسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وَقَّاص ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ ۱۹-۱۸ سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی ماں حَمْنَہ بنت سُفیان بن اُمَیَّہ (ابو سفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہُوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تُو محمدؐ کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، نہ سائے میں بیٹھوں گی ۔ ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حُکم ہے۔ تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے ہوں جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی لیے اس مضمون کو سورۂ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے (ملاحظہ ہو آیت ۱۵)۔

آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں، لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے ، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے۔ پھر الفاظ یہ ہیں کہ وَاِنْ جَاھَدَ اکَ۔ ” اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگادیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اَولیٰ رد کر دینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ  عِلْمٌ (جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا) کا فقرہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس میں اُن کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تو بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ، ان کا ادب و احترام کرے، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے۔

12. یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور اِن کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے ، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے۔ اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی ۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے۔

13. کہنے والا ایک شخص ہے، مگر ”میں ایمان لایا“ کہنے کے بجائے کہہ رہا ہے ”ہم ایمان لائے۔“ امام رازی نے اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ منافق اپنے آپ کو ہمیشہ زمرۂ اہل ایمان میں شامل کرنے کی کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ایمان کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ بھی ویسا ہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بزدل اگر کسی فوج کے ساتھ گیا ہے اور اس فوج کے بہادر سپاہیوں نے لڑ کر دشمنوں کو مار بھگا دیا ہے ، تو چاہے اس نے خود کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو ، مگر وہ آکر یوں کہے گا کہ ہم گئے اور ہم خوب لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست فاش دے دی۔ گویا آپ بھی انہی بہادروں میں سے ہیں جنہوں نے داد شجاعت دی ہے۔

14. یعنی جس طرح اللہ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آنا چاہیے ، یہ شخص بندوں کی دی ہوئی تکلیفوں سے ڈر کر ایمان اور نیکی سے باز آگیا۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی دھمکیوں اور مار پیٹ اور قید و بند سے جب اسے سابقہ پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ اللہ کی وہ دوزخ بھی بس اتنی ہی کچھ ہو گی جس سے مرنے کے بعد کفر کی پاداش میں سابقہ پیش آنا ہے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عذاب تو بعد میں بھگت لوں گا، یہ نقد عذاب جو اَب مل رہا ہے اِس سے بچنے کے لیے مجھے ایمان چھوڑ کر پھر زمرۂ کفار میں جا ملنا چاہیے تا کہ دنیا کی زندگی تو خیریت سے گزر جائے۔

15. یعنی آج تو وہ اپنی کھال بچانے کےلیے کفاروں میں جا ملا ہے اور اہلِ ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ دینِ حق کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی نکسیر تک پُھڑوانے کو تیار نہیں ہے ۔ مگر جب اِس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصّہ بٹانے کے لیے آموجود ہو گا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم تمہارے ہی ساتھ تھے، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی۔

یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابلِ برداشت اذیت یا نقصان ، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمۂ کفر کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعًا جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اُس مخلص مسلمان میں جو بحالتِ مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے ، اور اُس مصلحت پر ست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ مگر در حقیقت جو چیز ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے، بلکہ عملاً بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہل ِ دین کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی کامیابی سے وہ خوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتا ہے ، اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہلِ دین کے ساتھ جا ملے۔ اس کے بر عکس مصلحت پر ست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے ، اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دینِ حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں، تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہلِ دین سے منہ موڑ لیتا ہے ، کفاروں سے رشتہ ٔ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا جو دین کے سخت خلاف اور اہلِ دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اِس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کر لیتا کہ شاید کسی وقت دینِ حق ہی کا بول بالا ہو جائے۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہِ حق میں ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین ادا کرنے میں ذرّہ برابر بُخل نہیں کرتا، تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یَتَرَ بَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوْآ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَاِنْ کَانَ لِلْکَافِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْآ اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ o (النساء۔ آیت۱۴۱)

”یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کررہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) ۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانو ں سے بچایا؟“

16. یعنی اللہ آزمائش کے مواقع اسی لیے بار بار لاتا ہے تا کہ مومنوں کے ایمان اور منافقوں کے نفاق کا حال کھل جائے اور جس کے اندر جو کچھ بھی چھپا ہو ا ہے وہ سامنے آجائے۔ یہی بات سورۂ آل ِ عمران میں فرمائی گئی ہے کہ مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْ مِنِیْنَ عَلیٰ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہ  حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ (آیت ۱۷۹)۔ ”اللہ مومنوں کو ہر گز اس حالت میں رہنے دینے والا نہیں ہے جس میں تم اِس وقت ہو (کہ صادق الایمان اور منافق سب ملے جلے ہیں)۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ نمایاں کر کے رہے گا۔“

17. ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا ء کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہونی ہے ، تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب ثواب اپنی گردن پر لے لیں گے۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ۔ روایات میں متعدد سردارانِ قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتداءً جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن اُمیّہ بن خَلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا۔

18. یعنی اول تو یہی ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے۔ لَا تَزِرُوَ ازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہ دے کہ حضور، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ کر ارتداد کی راہ اختیار کی تھی، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔

19. یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے ، لیکن دوہرا بوجھ اُٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں۔ ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا، اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑدے گی کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی اور کسی اصولِ انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہو گا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس سے پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اِس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لِیَحْمِلُوْآ اَوْزَادَھُمْ کَا مِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْ نَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ (النحل۔ آیت ۲۵)۔ ” تا کہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور اُن لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصّہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔“ اور اسی قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الیٰ ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اجورھم شیًٔا و من دعا الیٰ ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اٰثامھم شیًٔا۔ (مسلم) ”جس شخص نے راہِ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہِ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ اُن کے اجروں میں کوئی کمی ہو۔ اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ اُن کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔“

20. ”افترا پردازیوں“ سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جو کفار کے اِس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ ”تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔“ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے۔ ایک یہ کہ جس مذہبِ شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ بر حق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہبِ توحید غلط ہے، اس لیے اُس سے کفر کرنے میں کوئی خطا نہیں ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں ہونا ہے اور یہ حیاتِ اُخروی کا تخیّل ، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے، بالکل بے اصل ہے۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے ، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اِس خطا پر تم سے باز پرس ہو گی ، تو چلو تمہاری اس خطا کو ہم اپنے سر لیتے ہیں، تم ہماری ذمہ داری پر دینِ محمدؐ کو چھوڑ کر دینِ آبائی میں واپس آجاؤ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں۔ ایک ان کا یہ خیا ل کہ جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کرے وہ اپنے جرم کی ذمہ داری سے بَری ہو سکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اُٹھا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا وعدہ کہ قیامت کے روز وہ اُن لوگوں کی ذمہ داری واقعی اُٹھا لیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم ہو جائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنّم ان کی آنکھوں کے سامنے ہو گی اُس وقت وہ ہر گز تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ اُن لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے۔