Tafheem ul Quran

Surah 29 Al-'Ankabut, Ayat 14-22

وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖ فَلَبِثَ فِيۡهِمۡ اَ لۡفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمۡسِيۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوۡفَانُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿29:14﴾ فَاَنۡجَيۡنٰهُ وَاَصۡحٰبَ السَّفِيۡنَةِ وَجَعَلۡنٰهَاۤ اٰيَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿29:15﴾ وَاِبۡرٰهِيۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوۡهُ​ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿29:16﴾ اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡثَانًا وَّتَخۡلُقُوۡنَ اِفۡكًا​ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿29:17﴾ وَاِنۡ تُكَذِّبُوۡا فَقَدۡ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنۡ قَبۡلِكُمۡ​ؕ وَمَا عَلَى الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿29:18﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا كَيۡفَ يُبۡدِئُ اللّٰهُ الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ‏ ﴿29:19﴾ قُلۡ سِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَانْظُرُوۡا كَيۡفَ بَدَاَ الۡخَـلۡقَ​ ثُمَّ اللّٰهُ يُنۡشِئُ النَّشۡاَةَ الۡاٰخِرَةَ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ​ۚ‏  ﴿29:20﴾ يُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَرۡحَمُ مَنۡ يَّشَآءُ ​ۚ وَاِلَيۡهِ تُقۡلَبُوۡنَ‏  ﴿29:21﴾ وَمَاۤ اَنۡـتُمۡ بِمُعۡجِزِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ​ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏ ﴿29:22﴾

14 - ہم نے نُوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا21 اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا۔22 آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔23 15 - پھر نُوحؑ کو اور کشتی والوں24 کو ہم نے بچا لیا اور اُسے دنیا والوں کے لیے ایک نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔25 16 - اور ابراہیمؑ کو بھیجا26 جبکہ اُس نے اپنی قوم سے کہا:”اللہ کی بندگی کرو اور اُس سے ڈرو۔27 یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ 17 - تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پُوج رہے ہو وہ تو محض بُت ہیں اور تم ایک جھُوٹ گھڑ رہے ہو۔28 درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔29 18 - اور اگر تم جھُٹلاتے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھُٹلا چکی ہیں،30 اور رسُولؐ پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔“ 19 - 31کیا اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو)اللہ کے لیے آسان تر ہے۔32 20 - ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے ، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔33 21 - جسے چاہے سزا دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے، اُسی کی طرف تم پھیرے جانے والے ہو۔ 22 - تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں،34 اور اللہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔35 ؏۲


Notes

21. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران، آیات ۳۴-۳۳۔ النساء، ۱۶۳۔ الانعام، ۸۴۔ الاعراف، ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ۷۳-۷۱۔ ہود، ۴۸-۲۵۔ الانبیاء، ۷۷-۷۶۔ المومنون، ۳۰-۲۳۔ الفرقان، ۳۷۔ الشعراء، ۱۰۵ تا ۱۲۳۔ الصافات، ۸۲-۷۵۔ القمر ۱۵-۹۔ الحاقہ، ۱۲-۱۱۔ نوح ،مکمل۔

یہ قصّے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگا ہ میں رکھنا چاہیے ۔ وہاں ایک طرف اہلِ ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اُن سب اہلِ ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے ۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کےلیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

22. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے ، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہل ِ ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے گزرے ہیں ۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔

حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ وہ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش ، باب ۷۔ آیت ۶۔ باب ۹۔ آیت ۲۸- ۲۹)۔ لیکن قرآن کے بیان کی روسے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔

یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ لیکن خدا کی اِس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے ۔ جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے ، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا معمولاً ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا ۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلافِ معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادرِ مطلق ہونے کا واضح تصوّر اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا اُس کے خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر خدا چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے۔

23. یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے۔ دوسرے الفاظ میں ، اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالیٰ ان پر یہ عذاب نہ بھیجتا۔

24. یعنی ان لوگوں کو جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے اور جنہیں کشتی میں سوار ہونے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی تھی۔ سُورۂ ہود میں اس کی تصریح ہے: حَتّٰیٓ اِذَا جَآ ءَ اَمْرُنَا وَفَا رَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبْقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰ مَنَ وَمَآ اٰمَنْ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ (آیت ۴۰)۔ ”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور اُبل پڑا تو ہم نے کہا کہ (اے نوحؑ) اِس کشتی میں سوار کر لے ہر قسم (کے جانوروں) میں سے ایک ایک جوڑا، اور اپنے گھر والوں کو سوائے اُن کے جنہیں ساتھ نہ لینے کا پہلے حکم دیا گیا ہے، اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، اور اُس کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔“

25. اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ہولناک عقوبت کو یا اس عظیم الشان واقعہ کو بعد والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ لیکن یہاں اور سورۂ قمر میں یہ بات جس طریقہ سے بیان فرمائی گئی ہے اس سے متبادر یہی ہو تا ہے کہ وہ نشانِ عبرت خود وہ کشتی تھی جو پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کو بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جا ٹِکی ہے۔ سورۂ قمر میں اس کے متعلق فرمایا گیا ہے: وَحَمَلْنَا ہُ عَلیٰ ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍo تَجْرِیْ بَاَ عْیُنِنَا جَزَآءٍ لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھآ اٰیَۃً فَھَلْ مِنْ مُّدَّ کِرٍo (آیات ۱۵-۱۳)۔ ” اور ہم نے نوح ؑ کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر ، وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اُس شخص کے لیے جزاء کے طور پر جس کا انکار کر دیا گیا تھا، اور ہم نے اُسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر ، پس ہے کوئی سبق لینے والا؟“ سورۂ قمر کی اِس آیت کی تفسیر میں ابن جریر نے قتادہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عہدِ صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے تو انہوں نے کوہِ جودی پر (اور ایک روایت کی رُو سے باقِرویٰ نامی بستی کے قریب) اس کشتی کو دیکھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتاً فوقتاً یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوحؑ کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انہوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۷۔ ہود ، حاشیہ ۴۶)۔

26. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، رکوع ۳۵-۱۶-۱۵۔ آل عمران ۷۔ الانعام ۹۔ ہود ۷۔ ابراہیم ۶۔ الحجر ۴۔ مریم ۳۔ الانبیاء ۵۔ الشعراء ۵۔ الصافات ۳۔ الزخرف ۳۔ الذاریات ۲۔

27. یعنی اُس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو۔

28. یعنی تم یہ بُت نہیں گھڑ رہے ہو بلکہ ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو۔ ان بتوں کا وجود خود ایک جھوٹ ہے ۔ اور پھر تمہارے یہ عقائد کہ یہ دیویاں اور دیوتا ہیں ، یا خدا کے اوتار یا اس کی اولاد ہیں، یا خدا کے مقرب اور اس کے ہاں شفیع ہیں، یا یہ کہ ان میں سے کوئی شفا دینے والا اور کوئی اولاد بخشنے والا اور کوئی روزگار دلوانے والا ہے، یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو تم لوگوں نے اپنے وہم و گمان سے تصنیف کرلی ہیں۔ حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ محض بُت ہیں بے جان ، بے اختیار اور بے اثر۔

29. ان چند فقروں میں حضرت ابراہیمؑ نے بُت پرستی کے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ہیں ۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہینِ منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق ، یعنی متاعِ زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا ۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کی حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ ” یہ محض بُت ہیں“ کہہ کر اُنہوں نے پہلی وجہ کو ختم کر دیا، کیونکہ جو نِرا بُت ہو اس کو معبود ہونے کا آخر کیا ذاتی استحقاق حاصل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہہ کر کہ ” تم ان کے خالق ہو“ دوسری وجہ بھی ختم کر دی ۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو خدا کی طرف ہے نہ کہ اِن بتوں کی طرف، اس لیے تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوار نا یا بگاڑنا بھی اِن کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال کر کے حضرت والا نے یہ بات ان پر واضح کر دی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں۔

30. یعنی اگر تم میری دعوتِ توحید کو اور اس خبر کو کہ تمہیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، جھٹلاتے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے نبی (مثلاً نوحؑ، ہودؑ، صالح علیہ السلام وغیرہ) یہی تعلیم لے کر آچکے ہیں اور ان کی قوموں نے بھی ان کو اسی طرح جھٹلایا ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ انہوں نے جھٹلا کر ان نبیوں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام خراب کیا۔

31. یہاں سے لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (ان کے لیے دردناک سزا ہے) تک ایک جملۂ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے قصّے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالیٰ نے کفار ِ مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔ اس اعتراضی تقریر کی مناسبت یہ ہے کہ کفارِ مکّہ ، جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصّہ سنایا جارہا ہے ، دو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی ۔ دوسرے انکارِ آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیمؑ کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہی کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تا کہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہو جائے۔

32. یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفتِ خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا ، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے۔ اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے ، اور پھر ایک دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مر جانے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کر سکتا ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نمل، حاشیہ نمبر ۸۰)۔

33. یعنی جب خد ا کی کاریگری سے بارِ اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بارِ دیگر بھی تخلیق ہو گی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔

34. یعنی تم کسی ایسی جگہ بھاگ کر نہیں جا سکتے جہاں اللہ کی گرفت سے بچ نکلو۔ خواہ تم زمین کی تہوں میں کہیں اتر جاؤ یا آسمان کی بلندیوں میں پہنچ جاؤ، بہر حال تمہیں ہر جگہ سے پکڑ لایا جائے گا اور اپنے ربّ کے سامنے تم حاضر کر دیے جاؤ گے ۔ یہی بات سُورۂ رحمٰن میں جِنوں اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے چیلنج کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے کہ تم خدا کی خدائی سے اگر نکل سکتے ہو تو ذرا نِکل کر دکھاؤ، اس سے نکلنے کے لیے زور چاہیے ، اور وہ زور تمہیں حاصل نہیں ہے، اس لیے تم ہرگز نہیں نِکل سکتے۔ یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْقُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَا نْفُذُوْ ا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ o (آیت ۳۳)۔

35. یعنی نہ تمہارا اپنا زور اتنا ہے کہ خد اکی پکڑ سے بچ جاؤ، اور نہ تمہارا کوئی ولی و سرپرست یا مددگار ایسا زورآور ہے کہ خدا کے مقابلے میں تمہیں پناہ دے سکے اور اس کے مواخذے سے تمہیں بچا لے۔ ساری کائنات میں کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا ہے ،جنہوں نے احکام خداوندی کے آگے جھکنے سے انکار کیا ہے، جنہوں نے جرأت و جسارت کے ساتھ خدا کی نافرمانیاں کی ہیں اور ا س کی زمین میں ظلم و فساد کے طوفان اُٹھائے ہیں ان کا حمایتی بن کر اُٹھ سکے اور خدا کے فیصلۂ عذاب کو ان پر نافذ ہونے سے روک سکے، یا خدا کی عدالت میں یہ کہنے کی ہمت کر سکے کہ یہ میرے ہیں اس لیے جو کچھ بھی انہوں نے کیا ہے اسے معاف کر دیا جائے۔