36. یعنی ان کا کوئی حصّہ میری رحمت میں نہیں ہے ۔ ان کے لیے کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ وہ میری رحمت میں سے حصہ پانے کی امید رکھ سکیں ۔ ظاہر بات ہے کہ حب انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا تو خود بخود اُن وعدوں سے فائدہ اُٹھانے کے حق سے بھی وہ دست بر دار ہو گئے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں سے کیے ہیں۔ پھر جب انہوں نے آخر ت کا انکار کیا اور یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ انہیں کبھی اپنے خدا کے حضور پیش ہونا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے خداکی بخشش و مغفرت کے ساتھ کوئی رشتۂ امید سرے سے وابستہ ہی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد جب اپنی توقعات کے خلاف وہ عالمِ آخرت میں آنکھیں کھولیں گے اور اللہ کی اُن آیات کو بھی اپنی آنکھوں سے سچا اور برحق دیکھ لیں گے جنہیں وہ جھٹلا چکے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ رحمتِ الہٰی میں سے کوئی حصّہ پانے کے امید وار ہو سکیں۔
37. یہاں سے پھر سلسلۂ کلام حضرت ابراہیمؑ کے قصّے کی طرف مُڑتا ہے۔
38. یعنی حضرت ابراہیمؑ کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اُس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے۔ ”قتل کر دو یا جلا ڈالو“ کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر تو متفق تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کو ہلاک کر دیا جائے، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے ، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تا کہ ہر اُس شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو۔
39. اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دئے گئے تھے ۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ سے بچا لیا۔ لیکن سورۃ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی اورغیر مضر ہو گئی، قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَا مًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ (آیت ۶۹)۔ ” ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔“ ظاہر ہے کہ اگر اُن کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئِی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاءکی خاصیتیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر مبنی ہیں، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے ۔ معمول کے مطابق اگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور ہر آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کر دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے۔ کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلا نے کا عمل چھوڑ دے۔ کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی خَرقِ عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے۔ کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن معمولات کو ، جنہیں روز مرّہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں، اس بات کے لیے ہر گز دلیل نہیں ٹھیرایا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اُن سے بندھ گئی ہے اور خلافِ معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہو سکتا۔
40. یعنی اہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں اس بات میں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خاندان، قوم اور ملک کے مذہب کی پیروی کرنے کے بجائے اس علمِ حق کی پیروی کی جس کی رو سے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حقیقت ہے۔ اور اِس بات میں کہ وہ قوم کی ہٹ دھرمی اور اس کے شدید تعصب کی پروا کیے بغیر اس کو باطل سے باز آجانے اور حق قبول کر لینے کے لیے پیہم تبلیغ کرتے رہے۔ اور اس بات میں کہ وہ آگ کی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے مگر حق و صداقت سے منہ موڑنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اور اِس بات میں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام تک کو آزمائشوں سے گزارے بغیر نہ چھوڑا۔ اور اس بات میں کہ جب حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے ڈالے ہوئے امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزرے گئے تب اللہ کی مدد ان کے لیے آئی اور ایسے معجزانہ طریقہ سے آئی کہ آگ کا الاؤ ان کے لیے ٹھنڈا کر دیا گیا۔
41. سلسلۂ کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بات آگ سے بسلامت نِکل آنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں سے فرمائی ہو گی۔
42. یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بُت پرستی کی بنیا د پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کر لی ہے جو دنیوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے ۔ ا س لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہو سکتے ہیں ، خواہ حق ہو یا باطل۔ اور ہر اتفاق و اجتماع ، چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو، باہم دوستیوں، رشتہ داریوں، برادریوں، اور دوسرے تمام مذہبی، معاشرتی و تمدنی اور معاشی و سیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
43. یعنی عقیدۂ باطلہ پر تمہاری یہ ہیئتِ اجتماعی آخرت میں بنی نہیں رہ سکتی۔ وہاں آپس کی محبت، دوستی، تعاون، رشتہ داری، اور عقیدت و ارادت کے صرف وہی تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں جو دنیا میں خدائے واحد کی بندگی اور نیکی و تقویٰ پر قائم ہوئے ہوں ۔ کفر و شرک اور گمراہی و بدراہی پر جُڑے ہوئے سارے رشتے وہاں کٹ جائیں گے ، ساری محبتیں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی ، ساری عقیدتیں نفرت میں بدل جائیں گی، بیٹے اور باپ، شوہر اور بیوی، پیر اور مرید تک ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ہر ایک اپنی گمراہی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر پکارے گا کہ اِس ظالم نے مجھے خراب کیا اس لیے اسے دوہرا عذاب دیا جائے۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ زُخرف میں فرمایا اَلْاَ خِلَّآ ءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لَبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (آیت ۶۷)۔ ” دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے ا، سوائے متقین کے ۔“ سورۂ اعراف میں فرمایا: کُلَّمَا دَخَلْتَ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا حَتّٰیٓ اِذَا ادَّا رَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُ و لٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُ لَآءِ اَضَلُّوْ نَا فَاٰ تِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ (آیت ۳۸)۔” ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پاس والے گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا حتٰی کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے والے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ہمارے ربّ، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا، لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔“ اور سُورۂ احزاب میں فرمایا وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآ ءَ نَا فَاَ ضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا o (آیات ۶۸-۶۷)۔ ”اور وہ کہیں گے اے ہمارے ربّ، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو راہ سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے ربّ تو انہیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما۔“
44. ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر اُن کو ماننے اور اُن کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیمؑ کی صداقت کے قائل ہو گئے ہوں۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیمؑ کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اُس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اُسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرأت نہ کر سکا۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصّے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آخرکار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی (حضرت سارہ) کا ساتھ دیا۔
یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کردینا ضروری ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوطؑ کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیمؑ کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمتِ ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہو سکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوطؑ خداوندِ عالم کو نہ مانتے ہوں، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں۔ بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کر لی۔ ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت لوطؑ اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شانِ رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو۔
45. یعنی اپنے ربّ کی خاطر ملک چھوڑ کر نکلتا ہوں، اب جہاں میرا ربّ لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا۔
46. یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور میرے حق میں اس کا جو فیصلہ بھی ہو گا حکمت پر مبنی ہو گا۔
47. حضرت اسحاقؑ بیٹے تھے اور حضرت یعقوبؑ پوتے۔ یہاں حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اولادِ ابراہیمؑ کی مدیانی شاخ میں صرف حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے، اور اسماعیلی شاخ میں سرکار رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ڈھائی ہزار سال کی مدت میں کوئی نبی نہیں آیا۔ اس کے برعکس نبوت اور کتاب کی نعمت حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک مسلسل اُس شاخ کو عطا ہوتی رہی جو حضرت اسحاق علیہ السلام سے چلی تھی۔
48. اس میں وہ تمام انبیاء آگئے جو نسلِ ابراہیمی کی سب شاخوں میں مبعوث ہوئے ہیں۔
49. مقصود بیان یہ ہے کہ بابِل کے وہ حکمراں اور پنڈت اور پروہت جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو نیچا دکھانا چاہا تھا ، اور اس کے وہ مشرک باشندے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے ان ظالموں کی پیروی کی تھی، وہ تو دنیا سے مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج دنیا میں کہیں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں ۔ مگر وہ شخص جسے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے جرم میں ان لوگوں نے جلا کر خاک کر دینا چاہا تھا ، اور جسے آخر کار بے سروسامانی کے عالم میں وطن سے نِکل جانا پڑا تھا، اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ سرفرازی عطا فرمائی کہ چار ہزار برس سے دنیا میں اس کا نام روشن ہے اور قیامت تک رہے گا۔ دنیا کے تمام مسلمان ، عیسائی اور یہودی اُس خلیل ِ ربّ العالمین کو بالاتفاق اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ دنیا کو ان چالیس صدیوں میں جو کچھ بھی ہدایت کی روشنی میسر آئی ہے اسی ایک انسان اور اس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسّر آئی ہے۔ آخر ت میں جو اجر ِ عظیم اس کو ملے گا وہ تو ملے گا ہی ، مگر اِس دنیا میں بھی اس نے وہ عزّت پائی جو حصُولِ دنیا کے پیچھے جان کھپانے والوں میں سے کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی۔
50. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، رکوع ۱۰۔ ہود، ۷۔ الحجر، ۵-۴۔ الانبیاء، ۵۔ الشعراء، ۹۔ النمل، ۴۔ الصافات، ۴۔ القمر، ۲۔
51. یعنی ان سے شہوت رانی کرتے ہو، جیسا کہ سورۂ اعراف میں ہے اِنَّکُمْ لَتَاْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَ ۃً مِنْ دُوْنِ النِّسَآ ءِ۔ ”تم خواہش ِ نفس پوری کر نے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔“
52. یعنی فحش کام چھپ کر بھی نہیں کرتے بلکہ عَلانیہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کے سامنے اس کا ارتکاب کرتے ہو۔ یہی بات سورۂ نمل میں فرمائی ہے اَتَاْ تُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔”کیا تم ایسے بگڑ گئے ہو کہ دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے فحش کاری کرتے ہو۔“