Tafheem ul Quran

Surah 29 Al-'Ankabut, Ayat 31-44

وَلَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ بِالۡبُشۡرٰىۙ قَالُـوۡۤا اِنَّا مُهۡلِكُوۡۤا اَهۡلِ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ ​ۚ اِنَّ اَهۡلَهَا كَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ​ ۖ ​ۚ‏ ﴿29:31﴾ قَالَ اِنَّ فِيۡهَا لُوۡطًا ​ؕ قَالُوۡا نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَنۡ فِيۡهَا​ لَـنُـنَجِّيَـنَّهٗ وَاَهۡلَهٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَهٗ كَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِيۡنَ‏  ﴿29:32﴾ وَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَتۡ رُسُلُـنَا لُوۡطًا سِىۡٓءَ بِهِمۡ وَضَاقَ بِهِمۡ ذَرۡعًا وَّقَالُوۡا لَا تَخَفۡ وَلَا تَحۡزَنۡ​ اِنَّا مُنَجُّوۡكَ وَاَهۡلَكَ اِلَّا امۡرَاَتَكَ كَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِيۡنَ‏ ﴿29:33﴾ اِنَّا مُنۡزِلُوۡنَ عَلٰٓى اَهۡلِ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ‏ ﴿29:34﴾ وَلَقَد تَّرَكۡنَا مِنۡهَاۤ اٰيَةًۢ بَيِّنَةً لِّـقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏  ﴿29:35﴾ وَاِلٰى مَدۡيَنَ اَخَاهُمۡ شُعَيۡبًا ۙ فَقَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَ ارۡجُوا الۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿29:36﴾ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَخَذَتۡهُمُ الرَّجۡفَةُ فَاَصۡبَحُوۡا فِىۡ دَارِهِمۡ جٰثِمِيۡنَ‏  ﴿29:37﴾ وَعَادًا وَّثَمُوۡدَا۟ وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَـكُمۡ مِّنۡ مَّسٰكِنِهِمۡ​ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ وَكَانُوۡا مُسۡتَـبۡصِرِيۡنَۙ‏  ﴿29:38﴾ وَقَارُوۡنَ وَفِرۡعَوۡنَ وَهَامٰنَ​ وَلَقَدۡ جَآءَهُمۡ مُّوۡسٰى بِالۡبَيِّنٰتِ فَاسۡتَكۡبَرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَمَا كَانُوۡا سٰبِقِيۡنَ ​ ۖ ​ ۚ‏ ﴿29:39﴾ فَكُلًّا اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِهٖ​ ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِ حَاصِبًا​ ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡهُ الصَّيۡحَةُ​ ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِهِ الۡاَرۡضَ​ ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا​ ۚ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَـظۡلِمَهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿29:40﴾ مَثَلُ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ كَمَثَلِ الۡعَنۡكَبُوۡتِ ​ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَيۡتًا ​ؕ وَ اِنَّ اَوۡهَنَ الۡبُيُوۡتِ لَبَيۡتُ الۡعَنۡكَبُوۡتِ​ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿29:41﴾ اِنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ شَىۡءٍ​ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿29:42﴾ وَتِلۡكَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُهَا لِلنَّاسِ​ۚ وَمَا يَعۡقِلُهَاۤ اِلَّا الۡعٰلِمُوۡنَ‏  ﴿29:43﴾ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿29:44﴾

31 - اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے53 تو انہوں نے اُس سے کہا” ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں،54 اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں۔“ 32 - ابراہیمؑ نے کہا” وہاں تو لُوطؑ موجود ہے۔“55 انہوں نے کہا” ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے۔ ہم اُسے ، اور اُس کی بیوی کے سوا اس کے باقی گھر والوں کو بچا لیں گے۔“ اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔56 33 - پھر جب ہمارے فرستادے لُوطؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا۔57 اُنہوں نے کہا” نہ ڈرو اور نہ رنج کرو۔58 ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے ، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ 34 - ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اُس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں۔“ 35 - اور ہم نے اُس بستی کی ایک کھُلی نشانی چھوڑ دی ہے59 اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔60 36 -
اور مَدیَن کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔61 اُس نے کہا” اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزِ آخر کے اُمیدوار رہو62 اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو۔“
37 - مگر انہوں نے اسے جھُٹلا دیا۔63 آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں64 پڑے کے پڑے رہ گئے۔ 38 - اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔65 اُن کے اعمال کو شیطان نے اُن کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہِ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے۔66 39 - اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا۔ موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے۔67 40 - آخر کار ہر ایک کو ہم نے اُس کے گناہ میں پکڑا، پھر اُن میں سے کسی پر ہم نے پتھراوٴ کرنے والی ہوا بھیجی،68 اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا،69 اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا،70 اور کسی کو غرق کر دیا۔71 اللہ ان پر ظلم کر نے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے۔72 41 - جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔73 42 - یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے۔74 43 - یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ 44 - اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے،75 در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لیے ۔76 ؏۴


Notes

53. سورۂ ہود اور سورۂ حِجر میں اس کی تفصیل یہ بیان ہوئی ہے کہ جو فرشتے قومِ لُوطؑ پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے وہ پہلے حضرت ابراہیمؑ کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے آنجناب کو حضرت اسحاقؑ کی اور ان کے بعد حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بشارت دی ، پھر یہ بتایا کہ ہمیں قومِ لُوط کو تباہ کر نے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

54. ”اِس بستی“ کا اشارہ قومِ لوطؑ کے علاقے کی طرف ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ اس وقت فلسطین کے شہر حَبْرون (موجودہ الخلیل) میں رہتے تھے۔ اس شہر کے جنوب مشرق میں چند میل کے فاصلے پر بحیرہ مردار (Dead Sea ) کا وہ حصّہ واقع ہے جہاں پہلے قومِ لوطؑ آباد تھی اور اب جس پر بحیرہ کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ نشیب میں واقع ہے اور حبرون کی بلند پہاڑیوں پر سے صاف نظر آتا ہے۔ اسی لیے فرشتوں نے اس کی طرف اشارہ کر کے حضرت ابراہیم ؑ سے عرض کیا کہ ” ہم اِس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں۔“(ملاحظہ ہو سورۂ شعراء حاشیہ ۱۱۴)۔

55. ”سُورۂ ہُود میں اس قصّے کا ابتدائی حصّہ یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھ کر ہی گھبرا گئے، کیونکہ اس شکل میں فرشتوں کا آنا کسی خطرناک مہم کا پیش خیمہ ہُوا کرتا ہے۔ پھر جب انہوں نے آپ کو بشارت دی اور آپ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور آپ کو معلوم ہُوا کہ یہ مہم قومِ لوطؑ کی طرف جارہی ہے تو آپ اس قوم کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ رحم کی درخواست کرنے لگے ( فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الرَّوْعُ وَجَآ ءَ تْہُ الْبُشْرٰی یُجَا دِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ)۔ مگر یہ درخواست قبول نہ ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس معاملہ میں اب کچھ نہ کہو، تمہارے رب کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہ عذاب اب ٹلنے والا نہیں ہے (یآِٰ بْرٰ ھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَآ اِنَّہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ وَاَنَّھُمْ اٰتِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ)۔ اس جواب سے جب حضرت ابراہیمؑ کو یہ امید باقی نہ رہی کہ قومِ لوطؑ کی مہلت میں کوئی اضافہ ہو سکے گا، تب انہیں حضرت لوطؑ کی فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے وہ بات عرض کی جو یہاں نقل کی گئی ہے کہ ”وہاں تو لوطؑ موجود ہے۔“ یعنی یہ عذاب اگر لوطؑ کی موجودگی میں نازل ہوا تو وہ اور اُن کے اہل و عیال اس سے کیسے محفوظ رہیں گے۔

56. اس عورت کے متعلق سورۂ تحریم (آیت ۱۰) میں بتایا گیا ہے کہ یہ حضرت لوطؑ کی وفادار نہ تھی، اِسی وجہ سے اس کے حق میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بھی، ایک نبی کی بیوی ہونے کے باوجود، عذاب میں مبتلا کر دی جائے ۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت لوطؑ ہجرت کے بعد جب اُردن کے علاقے میں آکر آباد ہوئے ہوں گے تو انہوں نے اسی قوم میں شادی کر لی ہو گی۔ لیکن ان کے صحبت میں ایک عمر گزار دینے کے بعد بھی یہ عورت ایمان نہ لائی اور اس کی ہمدردیاں اور دلچسپیاں اپنی قوم ہی کے ساتھ وابستہ رہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں رشتہ داریاں اور برادریاں کوئی چیز نہیں ہیں، ہر شخص کے ساتھ معاملہ اس کے اپنے ایمان و اخلاق کی بنیاد پر ہوتا ہے ، اس لیے پیغمبر کی بیوی ہونا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکا اور اس کا انجام اپنے شوہر کے ساتھ ہونے کے بجائے اپنی اُس قوم کے ساتھ ہُوا جس کے ساتھ اس نے اپنا دین و اخلاق وابستہ کر رکھا تھا۔

57. اس پریشانی اور دل تنگی کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے بہت خوبصورت نوخیز لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ حضرت لوطؑ اپنی قوم کے اخلاق سے واقف تھے، اس لیے ان کے آتے ہی وہ پریشان ہو گئے کہ میں اپنے اِن مہمانوں کو ٹھیراؤں تو اس بد کردار قوم سے ان کو بچانا مشکل ہے، اور نہ ٹھیراؤں تو یہ بڑی بے مروّتی ہے جسے شرافت گوارا نہیں کرتی۔ مزید برآں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اگر میں ان مسافروں کو اپنی پناہ میں نہ لوں گا تو رات انہیں کہیں اور گزارنی پڑے گی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا میں نے خود انہیں بھیڑیوں کے حوالہ کیا۔ اس کے بعد کا قصہ یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات سورۂ ہُود ، الحجر اور القمر میں بیان ہوئی ہیں کہ ان لڑکوں کی آمد کی خبر سُن کر شہر کے بہت سے لوگ حضرت لُوطؑ کے مکان پر ہجوم کر کے آگئے اور اصرار کرنے لگے کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالے کر دیں۔

58. یعنی ہمارے معاملہ میں نہ اس بات سے ڈرو کہ یہ لوگ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ ہمیں ان سے کیسے بچایا جائے۔ یہی موقع تھا جب فرشتوں نے حضرت لوطؑ پر یہ راز فاش کیا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جنہیں اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ سورۂ ہُود میں اس کی تصریح ہے کہ جب لوگ حضرت لوطؑ کے گھر میں گھسے چلے آرہے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کسی طرح بھی اپنے مہمانوں کو ان سے نہیں بچا سکتے تو آپ پریشان ہو کر چیخ اُٹھے کہ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ، ”کاش میرے پاس تمہیں ٹھیک کردینے کی طاقت ہوتی یا کسی زور آور کی حمایت میں پا سکتا۔“ اس وقت فرشتوں نے کہا یَا لُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ، ”اے لوط، ہم تمہارے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ تم تک ہر گز نہیں پہنچ سکتے۔“

59. اس کھلی نشانی سے مراد ہے بحیرۂ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفار ِ مکّہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اس ظالم قوم پر اس کے کرتوتوں کی بدولت جو عذاب آیا تھا اس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہِ عام پر موجود ہے جسے تم شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے شب و روز دیکھتے ہو۔ وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٌ (الحجر) اور وَاِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ وَ بِا لَّیْلِ (الصّافّات)۔

موجودہ زمانے میں یہ بات قریب قریب یقین کے ساتھ تسلیم کی جارہی ہے کہ بحیرۂ مردار کا جنوبی حصّہ ایک ہولناک زلزلہ کی وجہ سے زمین میں دھنس جانے کی بدولت وجود میں آیا ہے اور اسی دھنسے ہوئے حصّے میں قومِ لوط کا مرکزی شہر سدوم(Sodom ) واقع تھا۔ اس حصّے میں پانی کے نیچے کچھ ڈوبی ہوئی بستیوں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ حال میں جدید آلاتِ غوطہ زنی کی مدد سے یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ کچھ لوگ نیچے جا کر ان آثار کی جستجو کریں۔ لیکن ابھی تک ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ شعراء، حاشیہ ۱۱۴)۔

60. عملِ قوم ِ لوط کی شرعی سزا کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۶۸۔

61. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، رکوع ۱۱۔ ہود۸۔ الشعراء ۱۰۔

62. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ آخرت کے آنے کی توقع رکھو ، یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزا و سزا پانا ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کرو جس سے تم آخرت میں انجام بہتر ہونے کی امید کر سکو۔

63. یعنی اس بات کو تسلیم نہ کیا کہ حضرت شعیب ؑ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ تعلیم جو وہ دے رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اس کو نہ ماننے کا نتیجہ انہیں عذاب ِ الہٰی کی شکل میں بھگتنا ہو گا۔

64. گھر سے مراد وہ پورا علاقہ ہے جس میں یہ قوم رہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک پوری قوم کا ذکر ہو رہا ہو تو اس کا گھر اس کا ملک ہی ہو سکتا ہے۔

65. عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اَب اَحقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اور اہلِ عرب اس کو جانتے تھے۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابِغْ سے عَقَبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تَیما اور تَبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھر ا ہوا ہےاور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوں گے۔

66. یعنی جاہل و نادان نہ تھے۔ اپنے اپنے وقت کے بڑے ترقی یافتہ لوگ تھے۔ اور اپنی دنیا کے معاملات انجام دینے میں پوری ہوشیاری اور دانائی کا ثبوت دیتے تھے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شیطان ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کی عقل سلب کر کے انہیں اپنے راستے پر کھینچ لے گیا۔ نہیں، انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر آنکھوں دیکھتے شیطان کے پیش کیے ہوئے اُس راستے کو اختیار کیا جس میں انہیں بڑی لذتیں اور منفعتیں نظر آتی تھیں اور انبیاء کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو چھوڑ دیا جو انہیں خشک اور بدمزہ اور اخلاقی پابندیوں کی وجہ سے تکلیف دہ نظر آتا تھا۔

67. یعنی بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نکلنے والے نہ تھے۔ اللہ کی تدبیروں کو ناکام کردینے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔

68. یعنی عاد، جن پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک سخت ہوا کا طوفان برپا رہا۔ (سورۂ الحاقہ ، آیت ۷)۔

69. یعنی ثمود۔

70. یعنی قارون۔

71. یعنی فرعون اور ہامان۔

72. یہ تمام قصے جو یہاں تک سنائے گئے ہیں ، ان کا روئے سخن دو طرف ہے۔ ایک طرف یہ اہلِ ایمان کو سنائے گئے ہیں تا کہ وہ پست ہمت اور دل شکستہ و مایوس نہ ہوں اور مشکلات و مصائب کے سخت سے سخت طوفان میں بھی صبر و استقلال کے ساتھ حق و صداقت کا عَلم بلند کیے رکھیں ، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں کہ آخر کار اس کی مدد ضرور آئے گی اور وہ ظالموں کو نیچا دکھائے گا اور کلمہ ٔ حق کو سربلند کر دے گا۔ دوسری طرف یہ اُن ظالموں کو بھی سنائے گئے ہیں جو اپنے نزدیک تحریک ِ اسلامی کا بالکل قلع قمع کر دینے پر تلے ہوئے تھے۔ ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم خدا کے حِلم اور اس کی بردباری کا غلط مطلب لے رہے ہو ۔ تم نے خدا کی خدائی کو اندھیر نگری سمجھ لیا ہے ۔ تمہیں اگر بغاوت و سرکشی اور ظلم و ستم اور بداعمالیوں پر ابھی تک نہیں پکڑا گیا ہے اور سنبھلنے کے لیے محض ازراہِ عنایت لمبی مہلت دی گئی ہے تو تم اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہاں کوئی انصاف کر نے والی طاقت سرے سے ہے ہی نہیں اوراس زمین پر جس کا جو کچھ جی چاہے بلا نہایت کیے جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی آخر کار تمہیں جس انجام سے دوچار کر کے رہے گی وہ وہی انجام ہے جو تم سے پہلے قومِ نوحؑ اور قومِ لوطؑ اور قومِ شعیبؑ دیکھ چکی ہے، جس سے عاد و ثمود دوچار ہو چکے ہیں ، اور جسے قارون و فرعون نے دیکھا ہے۔

73. اوپر جتنی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب شرک میں مبتلا تھیں اور اپنے معبودوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ہمارے حامی و مددگار اور سرپرست (Guardians ) ہیں، ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں ، ان کی پوجا پاٹ کر کے اور انہیں نذر و نیاز دے کر جب ہم ان کی سر پرستی حاصل کر لیں گے تو یہ ہمارے کام بنائیں گے اور ہم کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھیں گے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کے تاریخی واقعات میں دکھایا گیا ہے ، ان کے یہ تمام عقائد و اوہام اُس وقت بالکل بے بنیاد ثابت ہو ئے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بربادی کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اُس وقت کوئی دیوتا، کوئی اوتار، کوئی ولی، کوئی روح اور کوئی جن یا فرشتہ ، جسے وہ پوجتے تھے، ان کی مدد کو نہ آیا اور اپنی باطل توقعات کی ناکامی پر کفِ افسوس ملتے ہوئے وہ سب پیوند خاک ہو گئے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ مشرکین کو متنبہ کر رہا ہے کہ کائنات کے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں کے اعتماد پر جو توقعات کاگھروندا تم نے بنا رکھا ہے اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح مکڑی کا جالا ایک انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا اسی طرح تمہاری توقعات کا یہ گھروندا بھی خدا کی تدبیر سے پہلا تصادم ہوتے ہی پاش پاش ہو کر رہ جائے گا۔ یہ محض جہالت کا کرشمہ ہے کہ تم اوہام کے اس چکّر میں پڑے ہوئے ہو۔ حقیقت کا کچھ بھی علم تمہیں ہوتا تو تم ان بے بنیاد سہاروں پر اپنا نظامِ حیات کبھی تعمیر نہ کرتے۔ حقیقت بس یہ ہے کہ اختیارات کا مالک اس کائنات میں ایک ربُّ العالمین کے سوا کوئی نہیں ہے اور اسی کا سہارا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بَا لطَّا غُوْتِ وَیُؤْ مِنْم بِا اللہِ فَقَدِ اسْتَمَسَکَ بِا الْعُرْ وَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ۔ آیت ۲۵۶)۔ ”جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اُس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔“

74. یعنی اللہ کو ان سب چیزوں کی حقیقت خوب معلوم ہے جنہیں یہ لوگ معبود بنائے بیٹھے ہیں اور مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ طاقت کا مالک صرف اللہ ہی ہے اور اسی کی تدبیر و حکمت اس کائنات کا نظام چلا رہی ہے۔

75. یعنی کائنات کا یہ نظام حق پر قائم ہے نہ کہ باطل پر۔ اس نظام پر جو شخص بھی صاف ذہن کے ساتھ غور کرے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ زمین و آسمان اوہام و تخیلات پر نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت پر کھڑے ہیں۔ یہاں اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ جو کچھ بھی سمجھ بیٹھے اور اپنے وہم و گمان سے جو فلسفہ بھی گھڑلے وہ ٹھیک بیٹھ جائے۔ یہاں تو صرف وہی چیز کامیاب ہو سکتی ہے اور قرار و ثبات پا سکتی ہے جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ خلاف واقعہ قیاسات اور مفروضات پر جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی وہ آخر کار حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔ یہ نظامِ کائنات صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایک خدا اس کا خالق ہے اور ایک ہی خدا اس کا مالک و مدبّر ہے۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر کوئی شخص اس مفروضے پر کام کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا یہ فرض کر کے چلتا ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہیں جو نذر و نیاز کا مال کھا کر اپنے عقید تمندوں کو یہاں سب کچھ کرنے کی آزادی اور بخیریت رہنے کی ضمانت دے دیتے ہیں ، تو حقیقت اس کے اِن مفروضات کی بدولت ذرّہ برابر بھی تبدیل نہ ہو گی بلکہ وہ خود ہی کسی وقت ایک صدمۂ عظیم سے دوچار ہو گا۔

76. یعنی زمین و آسمان کی تخلیق میں توحید کی صداقت اور شرک و دہریت کے بطلان پر ایک صاف شہادت موجود ہے، مگر اس شہادت کو صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی پیش کی ہوئی تعلیمات کو مانتے ہیں۔ ان کا انکار کردینے والوں کو سب کچھ دیکھنے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔