77. خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اُس وقت توڑے جا رہے تھے ، اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا ، ان کا مقابلہ کرنے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر و ثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں ، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبر دست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے ، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے۔ نماز کے وصفِ مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کر رہا ہے۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یَقْرَ أُ وْنَ القراٰن ولا یجاوز حنا جر ھم، یمرقون من الدین مروق السہم من الر مِیّۃ ۔ ”وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ دین سے اِس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نِکل جاتا ہے۔“(بخاری، مسلم، مؤطّا)۔ درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کر تا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ ا س کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ ما اٰمن بالقراٰن من استحل محارمہ، ”قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لیا۔“ (ترمذی بروایت صُہَیب رومی رضی اللہ عنہ)۔ ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیرکٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایات دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ”قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف“(مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو ، تو اپنی صفائی میں قرآن پیش کر سکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہُوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیٔ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہو گی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو ، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کر لیا ہو کہ تیر ا ربّ تجھ سے کیا چاہتا ہے ، کس چیز کو تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تُو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔ یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کر دے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔
78. یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مکّہ کے اُس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادّی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشوونما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی۔ ایک تلاوتِ قرآن۔ دوسرے اقامتِ صلوٰۃ۔ اس کے بعد اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ اُن برائیوں سے پاک ہو سکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردوپیش اہلِ عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اِس وقت مبتلا ہے۔
غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود اُن لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے اُن کو اُن سب لوگو ں پر زبردست برتری حاصل ہو جاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اُس ناپاک نظام کو، جو اُن برائیوں کو پرورش کرتا ہے، برقرار رکھنے کے لیے اِن پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہوں۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت بُرا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ، خواہ وہ عملًا کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اصولًا ان کو بُرا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنیٰ نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخص ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بُری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اُٹھنا جس سے وابستہ ہو تے ہی اُسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہو جائیں ، لا محالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر اُن لوگوں کا ساتھ دیے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہیت کے اُس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے جو اُن برائیوں کو صدیوں سے پرورش کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تا کہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کر لیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر و تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دیدے۔
نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا وصفِ لازم ہے ، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے ، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب ہے ، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور مُنکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے ، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے ۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو بُرائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگا نے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہو سکتی ہے۔ آخر ا سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تُو اِس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس خدا کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کر نی ہو گی۔ پھر اس یاددہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہر نماز کے وقت اِس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھُپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔ نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہو چکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہو جائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکارِ نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہو سکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے ، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدا کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جا رہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور عَلانیہ ہر حال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریقِ تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملہ میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکا لتا چلا جائے تو اس طرح کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لا کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیۂ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے با وجود سوکھتا چلا جا رہا ہے ،اسی طرح بد عمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بد عمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کر دینے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت کھانا نہیں کھاتا۔
ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عِمْران بن حُصَین کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء و المنکر فلا صلاۃ لہُ، ” جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے۔“ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباس حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لم تنھہ صلوٰتہ عن الفحشاء و المنکر لم یزددبھا من اللہ الّا بعد ا، ”جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا۔“ (ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضورؐ سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر۔ بیہقی)۔ ابن مسعود ؓ سے حضورؐ کا یہ ارشاد مروی ہے: لا صلوٰۃ لمن لم یطع الصلوۃ وطاعۃ الصلوٰۃ ان تنہی عن الفحشاء و المنکر، ” اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نےنماز کی اطاعت نہ کی ، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے“(ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، حسن بصری، قتادہ اور اَعْمَش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں ، جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے ( رُوح المعانی)۔
79. اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کا ذکر (یعنی نماز) اِس سے بزرگ تر ہے۔ اُس کی تاثیر صرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے، بلکہ اِس سے بڑھ کر وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز بھی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے ۔ خیر الاعمال ہے۔ انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اُس کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ فَا ذْ کُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ، آیت ۱۵۲)۔ ”تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔“ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے، اِس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے۔ ان تین مطالب کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابوالدَّرداء رضی اللہ عنہ کی اہلیۂ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ جب آدمی روزے رکھتا ہے ، یا زکوٰۃ دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لامحالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے یادِ الہٰی ایک مومن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔
80. واضح رہے کہ آگے چل کر اِسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جارہی ہے۔ اُس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جا سکتے تھے۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے اِن آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ اہلِ کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں۔
81. یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے ، تا کہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلا ح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ ِ خاطر رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہلِ کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے ، مگر یہ اہلِ کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے مثلاً:
اُدْعُ اِلیٰ سِبِیْلِ رَبِّکَ بِا لْحِکْمَۃِ وَالْمَوْ عِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَا دِلْہُمْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (النحل۔ آیت ۱۲۵)۔
”دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پند و نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔“
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیَِّٔۃُ اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِ ذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَ نَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo (حم السجدہ ۔ آیت ۳۴)
”بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو ، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔“
اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون۔ آیت ۹۶)
”تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں۔“
خُذِ الْعَفْوَ و َأْ مُرْ بِا لْعُرْ فِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَا ھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَا سْتَعِذْ بِاللہِ۔ (الاعراف۔ آیات ۱۹۹-۲۰۰)
”درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو ، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔“
82. یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِٔ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظاہر کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔
83. اِن فقروں میں اللہ تعالیٰ نے خود اُس عُمدہ طریقِ بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغِ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہو اُس کی گمراہی کو بحث کا نقطۂ آغاز نہ بناؤ، بلکہ بات اِس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونسے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں۔ یعنی آغازِ کلام نکاتِ اختلاف سے نہیں بلکہ نکاتِ اتفاق سے ہونا چاہیے، پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور ا کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔
اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہلِ کتاب مشرکینِ عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح اِن سب حقیقتوں کو مانتے تھے۔ اِن بُنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑی چیز بنیادِ اختلاف ہو سکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہو ئی کتاب پر ایمان لانے کی اُنہیں دعوت دیتے اور ان کے نہ ماننے پر انہیں کافر قرار دیتے۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی۔ لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ تمام اُن کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہلِ کتاب کے پاس موجود تھیں اور پھر اُس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بتانا اہلِ کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہلِ کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر ِتسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں ہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اُسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصًا اہلِ کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۴ – ۱۳۶ – ۱۷۷ – ۲۸۵۔ آلِ عمران ، آیت ۸۴۔ النساء، ۱۳۶ – ۱۵۰ تا ۱۵۲- ۱۶۲ تا ۱۶۴، الشوریٰ ۱۳۔
84. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے کتابیں نازل کی تھیں اُسی طرح اب یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے اِسی تعلیم کے ساتھ یہ کتاب نازل کی ہے کہ ہماری پچھلی کتابوں کا انکار کر کے نہیں بلکہ اُن سب کا اقرار کرتے ہوئے اِسے مانا جائے۔
85. سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اِس سے مراد تمام اہلِ کتاب نہیں ہیں بلکہ وہ اہلِ کتاب ہیں جن کو کتبِ الہٰیہ کا صحیح علم و فہم نصیب ہوا تھا، جو ”چارپائے بروکتا بے چند“ کے مصداق محض کتاب بردار قسم کے اہلِ کتاب نہیں تھے، بلکہ حقیقی معنی میں اہلِ کتاب تھے۔ اِن کےسامنے جب اللہ تعالی کی طرف سے اس کی پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہوئی یہ آخری کتاب آئی تو انہوں نے کسی ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہ لیا اور اسے بھی ویسے ہی اخلاص کے ساتھ تسلیم کر لیا جس طرح پچھلی کتابوں کو تسلیم کر تے تھے۔
86. ”اِن لوگوں “ کا اشارہ اہلِ عرب کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق پسند لوگ ہر جگہ اس پر ایمان لا رہے ہیں خواہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہوں یا غیر اہلِ کتاب میں سے۔
87. یہاں کافر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے تعصبات کو چھوڑ کر حق بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، یا وہ جو اپنی خواہشات ِ نفس اور اپنی بے لگام آزادیوں پر پابندیاں قبول کرنے سے جی چراتے ہیں اور اِس بنا پر حق کا انکار کرتے ہیں۔
88. یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورۂ یونسؑ میں اور سورۂ قصص میں گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ یونس حاشیہ نمبر ۲۱ و تفسیر سورۂ قصص، حاشیہ نمبر ۶۴ و نمبر ۱۰۹۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۰۷ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۱۰۵، المومنون، حاشیہ نمبر ۶۶، الفرقان، حاشیہ نمبر ۱۲ اور الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۸۴ کا مطالعہ بھی مفید ہو گا)۔
اس آیت میں استدلال کی بنیا د یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اَن پڑھ تھے۔ آپ کے اہلِ وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سنِ کہولت تک پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھُلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب و ادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ، اور تمدّن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اِس اُمّی کی زبان سے ہو رہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن اُس کی اُمّیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی نبوت کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کہا جا سکتا ہو۔
89. یعنی ایک اُمّی کا قرآن جیسی کتاب پیش کرنا اور یکایک اُن غیر معمولی کمالات کا مظاہرہ کرنا جن کے لیے کسی سابقہ تیاری کے آثار کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آئے، یہی دانش و بینش رکھنے والوں کی نگاہ میں اس کی پیغمبری پر دلالت کرنے والی روشن ترین نشانیاں ہیں۔ دنیا کی تاریخی ہستیوں میں سے جس کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے ، آدمی اُس کے اپنے ماحول میں اُن اسباب کا پتہ چلا سکتا ہے کہ جو اُس کی شخصیت بنانے اور اس سے ظاہر ہونے والے کمالات کے لیے اس کو تیار کرنے میں کار فرما تھے۔ اُس کے ماحول اور اس کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ایک کھلی مناسبت پائی جاتی ہے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جن حیرت انگیز کمالات کی مَظہَر تھی اُن کا کوئی ماخذ آپؐ کے ماحول میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں نہ اس وقت کے عربی معاشرے میں، اور نہ گردوپیش کے جن ممالک سے عرب کے تعلقات تھے اُن کے معاشرے میں، کہیں دور دراز سے بھی وہ عناصر ڈھونڈ کر نہیں نکالے جا سکتے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے کوئی مناسبت رکھتے ہوں۔ یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک نشانی نہیں بلکہ بہت سی روشن نشانیوں کا مجموعہ ہے۔ جاہل آدمی کو اس میں کوئی نشانی نظر نہ آتی ہو تو نہ نظر آئے، مگر جو لوگ علم رکھنے والے ہیں وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں قائل ہو گئے ہیں کہ یہ شان ایک پیغمبر ہی کی ہو سکتی ہے۔
90. یعنی معجزات جنہیں دیکھ کر یقین آئے کہ واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے نبی ہیں۔
91. یعنی اُمّی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا ، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ا ن کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے۔ تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے ۔ تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔
قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد اُن لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضورؐ کے نا خواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کررہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضورؐ لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپؐ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کر دینے کے لیے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اِتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استد لال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ایک ، بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفارِ مکّہ کے نمائندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضورؐ نے کاتب( یعنی حضرت علی ؓ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمدؐ بن عبد اللہ لکھ دو۔ حضرت علیؓ نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضورؐ نے ان کے ہاتھ سے لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمدؐ بن عبد اللہ لکھ دیا۔
لیکن یہ روایت بَراء بن عازِب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں:
(۱) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔
(۲) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ علیہ محمد بن عبد اللہ ۔ پھر علی ؓ سے کہا”رسول اللہ “کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضورؐ نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔
(۳) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے: وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدًا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ۔ حضورؐ خود نہ لکھ سکتے تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہر گز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔
(۴) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکتاب ولیس یحسن یکتب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ محمد بن عبد اللہ۔ پس حضورؐ نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔
(۵) انہی براء بن عازِب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے انکار کرنے پر حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے”رسول اللہ“کے الفاظ مٹا دیے۔
(۶) دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے، حضرت علی ؓ نے آپ کو جگہ بتائی، اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبد اللہ لکھ دیا۔
روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیچ کے رایوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ حضورؐ نے ”محمدؐ بن عبد اللہ“ کے الفاظ اپنے دستِ مبارک ہی سے لکھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے ”رسول اللہ“ کا لفظ مٹانے سے انکار کر دیا تو آپؐ نے اس کی جگہ اُن سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبد اللہ کے الفاظ لکھوادیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علیؓ ، دوسرے محمد بن مَسْلَمَہ (فتح الباری، جلد ۵، ص ۲۱۷)۔ اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو ۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضورؐ نے اپنا نام اپنے ہی دستِ مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔
دوسری روایت جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شَیبَہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ: ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کتب وقرأ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفات سے پہلے لِکھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے)۔ لیکن اوّل تو یہ سند اً بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضورؐ نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہو جاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ حضورؐ نے کس شخص یا کن اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عَون بن عبد اللہ کے ، جن سے مجاہد نے یہ بات سُنی، اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعًا یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہو سکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو۔
92. یعنی بلا شبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پند و نصیحت پر مشتمل ہے، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں۔