93. یعنی بار بار چیلنج کے انداز میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم رسول ہو اور ہم واقعی حق کو جھٹلا رہے ہیں تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کے ڈراوے تم ہمیں دیا کرتے ہو۔
94. یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مکے میں خدا کی بندگی کرنی مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ، خدا کی زمین تنگ نہیں ہے۔ جہاں بھی تم خدا کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ۔ تم کو قوم و وطن کی نہیں بلکہ اپنے خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز قوم، وطن اور ملک نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی ہے۔ اگر کسی وقت قوم و وطن اور ملک کی محبت کے تقاضے اللہ کی بندگی کے تقاضوں سے ٹکرا جائیں تو وہی وقت مومن کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے۔ جو سچا مومن ہے وہ اللہ کی بندگی کرے گا اور قوم ، وطن اور ملک کو لات مار دیگا۔ جو جھوٹا مدعی ایمان ہے وہ ایمان کو چھوڑ دیگا اور اپنی قوم اور اپنے ملک و وطن سے چمٹا رہے گا۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے کہ ایک سچا خدا پرست انسان محبّ قوم و وطن تو ہو سکتا ہے مگر قوم پرست اور وطن پرست نہیں ہو سکتا ۔ اُس کے لیے خدا کی بندگی ہر چیز سے عزیز تر ہے جس پر دنیا کی ہر چیز کو وہ قربان کر دے گا مگر اسے دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہ کرے گا۔
95. یعنی جان کی فکر نہ کرو۔ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے ، بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں۔ آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہو گا، اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہو گا۔ پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے، جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟
96. یعنی اگر ایمان اور نیکی کے راستہ پر چل کر بالفرض تم دنیا کی ساری نعمتوں سے محروم بھی رہ گئے اور دنیوی نقطۂ نظر سے سراسر ناکام بھی مرے تو یقین رکھو کہ اس کی تلافی بہر حال ہو گی اور نِری تلافی ہی نہ ہو گی بلکہ بہترین اجر نصیب ہو گا۔
97. یعنی جو ہر طرح سے مشکلات اور مصائب اور نقصانات اور اذیتوں کے مقابلے میں ایمان پر قائم رہے ہیں۔ جنہوں نے ایمان لانے کے خطرات کو اپنی جان پر جھیلا ہے اور منہ نہیں موڑا ہے۔ ترکِ ایمان کے فائدوں اور منفعتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان کی طرف ذرّہ برابر التفات نہیں کیا ہے۔ کفار و فسّاق کو اپنے سامنے پھلتے پھولتے دیکھا ہے اور ان کی دولت و حشمت پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالی ہے۔
98. یعنی جنہوں نے بھروسہ اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار اور اپنے کنبے قبیلے پر نہیں بلکہ اپنے ربّ پر کیا۔ جو اسباب ِ دنیوی سے قطع نظر کر کے محض اپنے ربّ کے بھروسے پر ایمان کی خاطر ہر خطرہ سہنے اور ہر طاقت سے ٹکرا جانے کے لیے تیار ہو گئے، اور وقت آیا تو گھر بار چھوڑ کر نِکل کھڑے ہوئے۔ جنہوں نے اپنے ربّ پر یہ اعتماد کیا کہ ایمان اور نیکی پر قائم رہنے کا اجر اس کے ہاں کبھی ضائع نہ ہو گا اور یقین رکھا کہ وہ اپنے مومن و صالح بندوں کی اِس دنیا میں بھی دستگیری فرمائے گا اور آخرت میں بھی ان کے عمل کا بہترین بدلہ دے گا۔
99. یعنی ہجرت کرنے میں تمہیں فِکر جان کی طرح فِکر روزگار سے بھی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا اور خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں ، ان میں سے کون اپنا رزق اُٹھائے پھرتا ہے؟ اللہ ہی تو اِن سب کو پال رہا ہے۔ جہاں جاتے ہیں اللہ کے فضل سے اِن کو کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لہٰذا تم یہ سوچ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نِکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی بے شمار مخلوق کو رزق دے رہا ہے ، تمہیں بھی دے گا۔
ٹھیک یہی بات ہے جو سیّدنا حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی۔ انہوں نے فرمایا:
” کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا ور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ ا س لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ، اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں، پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند لمّبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا۔ اس لیے فکر مند نہ ہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے۔ ان سب چیزوں کی تلاش میں تو غیر قومیں رہتی ہیں۔ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو۔ یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔ کل کے لیے فکر نہ کرو۔ کل کا دن اپنی فکر آ پ کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔“(متی۔ باب ۶۔ آیات ۲۴ تا ۳۴)
قرآن اور انجیل کے اِن ارشادات کا پس منظر ایک ہی ہے۔ دعوتِ حق کی راہ میں ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے جس میں ایک حق پرست آدمی کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ عالمِ اسباب کے تمام سہاروں سے قطع نظر کر کے محض اللہ کے بھروسے پر جان جوکھوں کی بازی لگا دے۔ ان حالات میں وہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے جو حساب لگا لگا کر مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور قدم اٹھانے سے پہلے جان کے تحفظ اور رزق کے حصول کی ضمانتیں تلاش کرتے ہیں۔ در حقیقت اِس طرح کے حالات بدلتے ہی اُن لوگوں کی طاقت سے ہیں جو سر ہتھیلی پر لے کر اُٹھ کھڑے ہوں اور ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے بے دھڑک تیار ہو جائیں۔ انہی کی قربانیاں آخر کار وہ وقت لاتی ہیں جب اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں سارے کلمے پست ہو کر رہ جاتے ہیں۔
100. یہاں سے پھر کلام کا رُخ کفار مکہ کی طرف مڑتا ہے۔
101. اس مقام پر اَلْحَمْدُاﷲ کا لفظ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو پھر حمد کا مستحق بھی صرف وہی ہے ، دوسروں کو حمد کا استحقاق کہاں سے پہنچ گیا؟ دوسرے یہ کہ خدا کا شکر ہے ، اس بات کا اعتراف تم خود بھی کرتے ہو۔