Tafheem ul Quran

Surah 29 Al-'Ankabut, Ayat 64-69

وَمَا هٰذِهِ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا لَهۡوٌ وَّلَعِبٌ​ؕ وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ لَهِىَ الۡحَـيَوَانُ​ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿29:64﴾ فَاِذَا رَكِبُوۡا فِى الۡفُلۡكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَ ۚ فَلَمَّا نَجّٰٮهُمۡ اِلَى الۡبَـرِّ اِذَا هُمۡ يُشۡرِكُوۡنَۙ‏ ﴿29:65﴾ لِيَكۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَيۡنٰهُمۡ ۙۚ وَلِيَتَمَتَّعُوۡا​فَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿29:66﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنۡ حَوۡلِهِمۡ​ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ يُؤۡمِنُوۡنَ وَبِنِعۡمَةِ اللّٰهِ يَكۡفُرُوۡنَ‏  ﴿29:67﴾ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ كَذَّبَ بِالۡحَـقِّ لَـمَّا جَآءَهٗ​ؕ اَلَيۡسَ فِىۡ جَهَـنَّمَ مَثۡوًى لِّلۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿29:68﴾ وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا ​ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿29:69﴾

64 - اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔102 اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔103 65 - جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں 66 - تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کا کفران نعمت کریں اور(حیات دنیا کے) مزے لوٹیں۔104 اچھا، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا ۔ 67 - کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پُر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں؟105 کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں؟ 68 - اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آچکا ہو؟106 کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم ہی نہیں ہے؟ 69 - جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے،107 اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔ ؏۷


Notes

102. یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھار یں۔ یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور اسی بے سرو سامانی کے ساتھ وہ تخت ِ شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدا ر نہیں ہے ۔ جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے۔ اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مر ے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر و ایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھا ٹھ فراہم کر لیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلا وے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اِن کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اُس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے درماں ثابت ہو تو آخر اِس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟

103. یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلتِ امتحان ہے، اور انسان کے لیے اصل زندگی ، جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، آخرت کی زندگی ہے ، تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اِس لہو ولعب میں ضائع کرنے کے بجائے اس کا ایک ایک لمحہ اُن کاموں میں استعمال کرتے جو اُس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کر نے والے ہوں۔

104. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۹ اور نمبر ۴۱، سورۂ یونس حاشیہ نمبر ۲۹ اور نمبر ۳۱، سورۂ بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۸۴۔

105. یعنی کیا اِن کے شہر مکہ کو ، جس کے دامن میں انہیں کمال درجے کا امن میسّر ہے، کِسی لات یا ہُبل نے حرم بنایا ہے؟ کیا کسی دیوی یا دیوتا کی یہ قدرت تھی کہ ڈھائی ہزار سال سے عرب کی انتہائی بد امنی کے ماحول میں اس جگہ کو تمام فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رکھتا؟ اس کی حرمت کو برقرار رکھنے والے ہم نہ تھے تو اور کون تھا؟

106. یعنی نبی نے دعوائے رسالت کیا ہے اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے۔ اب معاملہ دو حال سے خالی نہیں۔ اگر نبی نے اللہ کا نام لے کر جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو اُس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر تم نے سچے نبی کی تکذیب کی ہے تو پھر تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔

107. ”مجاھدہ“ کی تشریح اِسی سُورۂ عنکبوت کے حاشیہ نمبر ۸ میں گزر چکی ہے۔ وہاں یہ فرمایا گیا تھا کہ جو شخص مجاھدہ کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا (آیت نمبر ۶)۔ یہاں یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کش مکش کا خطرہ مول لے لیتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ ان کی دستگیری و رہنمائی فرماتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے ۔ وہ قدم قدم پر انہیں بتاتا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کر سکتے ہو۔ ہر ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہِ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں۔ جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی ان کے ساتھ رہتی ہے۔