1. تشریح کے لیے ملاحضہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۷۸۔
2. عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائیبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں لے لیتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اُلجھن پیش آتی ہے کہ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلامِ الٰہی ہیں؟ اور کیا واقعی قرآن اُن سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جوا ن میں درج ہیں؟ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اُن کے اندر مندرج ہے ، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے۔
دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں ، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تن تقریباً چالیس سال کے دَوران میں اُن پر نازل ہوئے۔ اُن میں سے دس احکام تو وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انہیں دیے تھے۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ نے لکھوا کر اس کی ١۲ نقلیں بنی اسرائیل کے ١۲ قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوِی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں۔ اسی کتاب کا نام ” تورات“ تھا۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی۔ اس کی ایک کاپی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی، پتھروں کی لوحوں سمیت، عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو ”توریت“ ہی کے نام سے جانتے تھے۔ لیکن اُس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکلِ سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن (یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا) خِلقیاہ کو ایک جگہ توریت رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا، جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے(ملاحظہ ہو ۲-سلاطین، باب ۲۲-آیت ۸ تا ١۳)۔ یہی وجہ ہے کہ جب بخت نَصَّر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے ، جو ان کے ہاں طاقِ نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے، ہمیشہ کے لیے گم کر دیے۔ پھر جب عَزر اکاہن (عُزیر ) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھُچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المَقدِس تعمیر ہوا، تو عَزرا نے اپنی قوم کے چند دُوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی، جو اب بائیبل کی پہلی ١۷ کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے چار باب، یعنی خروج ، اَحبار، گَنتی اور اَستثنا ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ َ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کر دی گئی ہیں، جو عَزر ا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں۔ پس دراصل اب تورات اُن منتشر اجزا کا نام ہے ، جو سیرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں صرف اِس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اِس تاریخی بیان کے دَوران میں جہاں کہیں سیرت ِ موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے یہ فرمایا، یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے ، وہاں سے تورات کا ایک جُز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہو جاتی ہے، وہاں وہ جُز ختم ہوجاتا ہے۔ بیچ میں جہاں کہیں کوئی چیز بائیبل کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے ، وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ایا یہ اصل تورات کا حصّہ ہے، یا شرح و تفسیر۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں، وہ ایک حد تک صِحت کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ان اجزا میں کہاں کہاں تفسیر ی و تشریحی اضافے ملحق کر دیے گئے ہیں۔
قرآن انھیں منتشر اجزا کو ”تورات“کہتا ہے، اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزا کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے ، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جُزوی احکام میں اختلاف ہے، اُصُولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان ایک سرِ مو فرق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر صریح طور پر محسُوس کر سکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں۔
اسی طرح انجیل دراصل نام ہے اُسن الہامی خطبات اور اقوال کا ، جو مسیح علیہ السّلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت ِ نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیّبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں، اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہٴ معلومات نہیں ہے۔ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کر لیا ہو، اور ممکن ہے کہ سُننے والے معتقدین نے ان کو زبانی یاد رکھا ہو۔ بہر حال ایک مدّت کے بعد جب آنجناب کی سیرتِ پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے ، تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسبِ موقع درج کر دیے گئے ، جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یُوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں، بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں ، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفین ِ سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں۔ قرآن انہیں اجزا کے مجمُوعے کو ”انجیل“ کہتا ہے اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے ۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے ، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسُوس ہوگا، وہ بھی غیر معتصبانہ غور و تامّل کے بعد بآ سانی حل کی جا سکے گا۔
3. عنی وہ کائنات کی تمام حقیقتوں کا جاننے والا ہے۔ لہٰذا جو کتاب اس نے نازل کی ہو، وہ سراسر حق ہی ہونی چاہیے۔ بلکہ خالص حق صرف اسی کتاب میں انسان کو میسر آسکتا ہے، جو اُس علیم و دانا کی طرف سے نازل ہو۔
4. اس میں دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک یہ کہ تمہاری فطرت کو جیسا وہ جانتا ہے، نہ کوئی دوسرا جان سکتا ہے، نہ تم خود جان سکتے ہو۔ لہٰذا اس کی رہنمائی پر اعتماد کیے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس نے تمہارے استقرارِ حمل سے لے کر بعد کے مراحل تک ہر موقع پر تمہاری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں تک کو پورا کرنے کا اہتمام کیا، کس طرح ممکن تھا کہ وہ دُنیا میں تمہاری ہدایت و رہنمائی کا انتظا م نہ کرتا، حالانکہ تم سب سے بڑھ کر اگر کسی چیز کے محتاج ہو، تو وہ یہی ہے۔
5. ُحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ”آیاتِ محکمات“ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہٴ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اُس غرض کو یہی آیتیں پُورا کرتی ہیں۔ اُنہی میں اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے، اُنہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، اُنہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ اُنہی میں دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔ اُنہی میں عقائد ، عبادات، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں مشغول رہے گا۔
6. متشابہات ، یعنی وہ آیات جن کے مفہُوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دُوسرے بُنیادی اُمور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں ، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں ، نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھُوا ، نہ چکھا، اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اُنہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیبِ بیان مِل سکتے ہیں ، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھِنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیبِ بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسُوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں ، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔
لیکن اِس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دُھندلا سا تصوّر پیدا کردے۔ ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی ، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالبِ حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دُھندلے تصوّر پر قناعت کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بُوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، اُن کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔
7. یہاں کسی کو یہ شبہہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہُوم جانتے ہی نہیں، تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات ِ محکمات میں غور و فکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے، تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہُوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے ، اس کو وہ لے لیتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے، وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔