8. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ٴ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۶۱۔
9. اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا ، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسُوس کیے بغیر تو نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دو گنا ہے۔
10. جنگِ بدر کا واقعہ اُس وقت قریبی زمانے ہی میں پیش آچکا تھا، اس لیے اس کے مشاہدات و نتائج کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں:
ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دُوسرے کے بالمقابل آئے تھے، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دَور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب دادِ عیش دی جارہی تھی۔ دُوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیز گاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے ، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دُعائیں اور التجائیں کی جارہی تھیں۔ دونوں لشکر وں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔
دُوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلتِ تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہتر اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے، اس سے صاف معلوم ہو گیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی۔
تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہو کر جولوگ اپنے سروسامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھُولے ہوئے تھے ، ان کے لیے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مُفلس و قَلّانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مُٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلوا سکتا ہے، جو تمام عرب کا سرتاج تھا۔
11. تشریح کےلیے ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۷۔
12. یعنی اللہ غلط بخش نہیں ہےاور نہ سرسری اور سطحی طور پر فیصلہ کرنے والا ہے۔ وہ بندوں کے اعمال و افعال اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو خوب جانتا ہے ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ بندوں میں سے کون اُس کے انعام کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔
13. یعنی راہِ حق پر پُوری استقامت دکھانے والے ہیں۔ کسی نقصان یا مصیبت سے ہمت نہیں ہارتے، کسی ناکامی سے دل شکستہ نہیں ہوتے، کسی لالچ سے پھِسل نہیں جاتے اور ایسی حالت میں بھی حق کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے رہتے ہیں ، جبکہ بظاہر اُس کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہ آتا ہو۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۶۰ )۔
14. یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہِ راست علم رکھتا ہے، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے، جس کی نگا ہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اُس کی شہادت ہے۔۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی۔۔۔۔ کہ پورے عالمِ وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو۔
15. اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے، کیونکہ وہ سلطنتِ کائنات کے انتظامی اہلِ کار ہیں اور وہ براہِ راست اپنے ذاتی عِلم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رُجوع کرتے ہوں۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مُدبّر ہے۔
16. یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظامِ زندگی اور ایک ہی طریقہٴ حیات صحیح و درست ہے، اوروہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبُود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپر د کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے، بلکہ اُس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے۔ اسی طرزِ فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اِس اسلام کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کو جائز تسلیم نہ کرے۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بُت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نِری بغاوت ہے۔
17. مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دُنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دُنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوعِ انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصِل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اُصُول اور احکام میں ردّو بدل کر ڈالا۔
18. دُوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ”میں اور میرے پیرو تو اس ٹھیٹھ اسلام کے قائل ہو چکے ہیں جو خدا کا اصل دین ہے۔ اب تم بتا ؤ کہ کیا تم اپنے اور اپنے اسلاف کے بڑھائے ہوئے حاشیوں کو چھوڑ کر اس اصلی و حقیقی دین کی طرف آتے ہو“۔