Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 102-109

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿3:102﴾ وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا​ وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ​ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿3:103﴾ وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ​ؕ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿3:104﴾ وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُ​ؕ وَاُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌۙ‏ ﴿3:105﴾ يَّوۡمَ تَبۡيَضُّ وُجُوۡهٌ وَّتَسۡوَدُّ وُجُوۡهٌ  ؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اسۡوَدَّتۡ وُجُوۡهُهُمۡ اَكَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿3:106﴾ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ ابۡيَـضَّتۡ وُجُوۡهُهُمۡ فَفِىۡ رَحۡمَةِ اللّٰهِ ؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿3:107﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَـتۡلُوۡهَا عَلَيۡكَ بِالۡحَـقِّ​ؕ وَمَا اللّٰهُ يُرِيۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿3:108﴾ وَلِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ‏ ﴿3:109﴾

102 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت  نہ آئے مگر  اس حال میں  کہ تم مسلم ہو۔82 103 - سب مل کر اللہ کی رسی 83کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،  اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس  کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔84 اس طرح  اللہ اپنی نشانیاں تمہارےسامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔85 104 - تم میں کچھ لوگ ایسے ضرو رہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ 105 - کہیں تم ان لوگوں کی طرح  نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایا ت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔86 جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں  گے 106 - جبکہ کچھ لوگ سرخرُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہو گا، جن کا منہ کالا ہوگا(ان سے کہا جا ئے گا کہ )نعمتِ ایمان  پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویّہ اختیار  کیا؟ اچھا تو اب اس  کفرانِ نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔ 107 - رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامن ِ رحمت  میں  جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حا لت میں رہیں گے۔ 108 - یہ اللہ کے ارشادات ہیں  جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں کیو نکہ اللہ دنیا والوں پر ظلم  کرنے کا کوئی  ارادہ  نہیں رکھتا۔87 109 - زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضُور پیش ہوتے ہیں۔  ؏١١


Notes

82. یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو۔

83. اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دُوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رُونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔

84. یہ اشارہ ہے اُس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہلِ عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انھیں بچایا تو وہ یہی نعمتِ اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اَوس اور خَزرَج کے وہ قبیلے ، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکّہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتا ؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے۔

85. یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خُود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اِس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اِسے چھوڑ کر پھر اُسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسُول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالتِ سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

86. یہ اشارہ اُن اُمّتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دینِ حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مُدّت گزر جانے کے بعد اساسِ دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضِمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے، پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ اُنہیں اُس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے اُن بنیادی اُصُولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر در حقیقت انسان کی فلاح و سعادت کا مدار ہے۔

87. یعنی چونکہ اللہ دُنیا والوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ ان کو سیدھا راستہ بھی بتا رہا ہے اور اِس بات سے بھی انہیں قبل از وقت آگاہ کیے دیتا ہے کہ آخر کار وہ کن اُمور پر اُن سے باز پرس کرنے والا ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کج روی اختیار کریں اور اپنے غلط طرزِ عمل سے باز نہ آئیں وہ اپنے اُوپر آپ ظلم کریں گے۔