88. یہ وہی مضمون جو سورہ ٴ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے ۔ نبی ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دُنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئی ہیں جو امامتِ عادلہ کے لیے ضروری ہیں ، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور ربّ تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو اور اُن غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۲۳ و نمبر ۱۴۴)۔
89. یہاں اہلِ کتاب سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔
90. یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن چین نصیب بھی ہوا ہے تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن و چین نہیں ہے بلکہ دُوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے ۔ کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی، اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انھیں اپنی حمایت میں لے لیا۔ اسی طرح بسا اوقات انھیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے ، لیکن وہ بھی اپنے زورِ بازو سے نہیں بلکہ محض”بپائے مردی ہمسایہ“۔
91. اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے ۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جزبہٴ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں ۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطہٴ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تمثیل سے یہ بتا نا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ کر ڈالتی ہے ، اسی طرح خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعہٴ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے ، مگر جب اس کے اند رکفر کا زہر ملا ہو ا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مہلک بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے ، اور اُس مال کا مالک بھی اللہ ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے ، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اند ر رہ کر انسان کام کر رہا ہے ۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتا، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اَور کی ناجائز بندگی بھی شریک کرتا ہے ، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا ، تو اس کے یہ تمام تصرفات ازسر تا پا جُرم بن جاتے ہیں۔ اجر ملنا کیسا وہ تواِس کا مستحق ہے کہ اِن تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اُ س کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے۔
92. مدینہ کے اطراف میں جو یہودی آباد تھے ان کے ساتھ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں کی قدیم زمانہ سے دوستی چلی آتی تھی۔ انفرادی طور پر بھی اِن قبیلوں کے افراد اُن کے افراد سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور قبائلی حیثیت سے بھی یہ اور وہ ایک دُوسرے کے ہمسایہ اور حلیف تھے۔ جب اَوس اور خَزرَج کے قبیلے مسلمان ہو گئے تو اس ل بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پُرانے تعلقات نباہتے رہے اور ان کے افراد اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی محبت و خلوص کے ساتھ ملتے رہے۔ لیکن یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مِشن سے جو عداوت ہوگئی تھی اس کی بنا پر وہ کسی ایسے شخص سے مخلصانہ محبت رکھنے کے لیے تیار نہ تھے جو اس نئی تحریک میں شامل ہوگیا ہو۔ انہوں نے انصار کے ساتھ ظاہر میں تو وہی تعلقات رکھے جو پہلے سے چلے آتے تھے ، مگر دل میں وہ اب ان کے سخت دُشمن ہو چکے تھے اور اس ظاہری دوستی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کی جماعت میں اندرونی فتنہ و فساد برپا کر دیں، اور ان کے جماعتی راز معلوم کر کے ان کے دشمنوں تک پہنچائیں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کی اسی منافقانہ روش سے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔
93. یعنی یہ عجیب ماجرا ہے کہ شکایت بجائے اِس کے کہ تمہیں اُن سے ہوتی، اُن کو تم سے ہے۔ تم تو قرآن کے ساتھ توراة کو بھی مانتے ہو اس لیے اُن کو تم سے شکایت ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی ۔ البتہ شکایت اگر ہو سکتی تھی تو تمہیں اُن سے ہو سکتی تھی کیونکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے۔