Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 121-129

وَاِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَهۡلِكَ تُبَوِّئُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ​ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌۙ‏ ﴿3:121﴾ اِذۡ هَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡكُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا​ ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿3:122﴾ وَلَقَدۡ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡـتُمۡ اَذِلَّةٌ  ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿3:123﴾ اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَلَنۡ يَّكۡفِيَكُمۡ اَنۡ يُّمِدَّكُمۡ رَبُّكُمۡ بِثَلٰثَةِ اٰلَافٍ مِّنَ الۡمَلٰٓـئِكَةِ مُنۡزَلِيۡنَؕ‏ ﴿3:124﴾ بَلٰٓى ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا وَيَاۡتُوۡكُمۡ مِّنۡ فَوۡرِهِمۡ هٰذَا يُمۡدِدۡكُمۡ رَبُّكُمۡ بِخَمۡسَةِ اٰلَافٍ مِّنَ الۡمَلٰٓـئِكَةِ مُسَوِّمِيۡنَ‏ ﴿3:125﴾ وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشۡرٰى لَـكُمۡ وَلِتَطۡمَـئِنَّ قُلُوۡبُكُمۡ بِهٖ​ؕ وَمَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِۙ‏ ﴿3:126﴾ لِيَقۡطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَوۡ يَكۡبِتَهُمۡ فَيَنۡقَلِبُوۡا خَآئِبِيۡنَ‏ ﴿3:127﴾ لَيۡسَ لَكَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَىۡءٌ اَوۡ يَتُوۡبَ عَلَيۡهِمۡ اَوۡ يُعَذِّبَهُمۡ فَاِنَّهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿3:128﴾ وَلِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ؕ يَغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَ يُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿3:129﴾

121 - 94(اے پیغمبر ؐ! مسلمانوں کے سامنے اس موقع کا ذکر  کر و )جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور(اُحد کے میدان میں)مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے۔اللہ ساری باتیں سنتا ہےاور وہ نہات باخبر ہے۔ 122 - یاد کرو  جب تم میں سے دو گروہ بُزدلی دکھانے پر  آمادہ ہو گئے تھے ،95 حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ 123 - آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا  حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے  کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، اُمید  ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔ 124 - یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے”کیا تمہارے  لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار  فرزشتے اتار کر تمہاری مدد کرے“؟96 125 - بے شک  ، اگر تم  صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام  کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر  چڑھ کر آئیں  گے اُسی آن  تمہارا رب(تین ھزار نہیں) پانچ ہزار صاحب  نشان  فرشتوں سے تمہاری  مدد کرے گا۔ 126 - یہ بات  اللہ نے تمہیں اس لیے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جا ئیں۔ فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہےجو بڑی قوت والااور داناوبینا ہے۔ 127 - (اور یہ مدد وپ تمہیں اس لیے دے گا ) تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے، یا ان کو ایسی ذلہل شکست دے کہ وہ نا مرادی کے ساتھ پسپا ہو جائیں۔ 128 - (اے پیغمبر ؐ!) فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ، اللہ کو اختیا ر ہے چاہے انھیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔ 129 - زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے، جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے، وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔97 ؏١۳


Notes

94. یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ یہ جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگِ اُحُد پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اُوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔“ اب چونکہ اُحُد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں، اس لیے یہ خطبہ جس میں اُنھیں اِن کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے ، مندرجہٴ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا۔

اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگِ اُحُد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تُلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

شوال سن ۳ ہجری کی ابتدا میں کفارِ قریش تقریباً ۳ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگِ بدر کے انتقام کی شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادتت کے شوق سے بے تاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا ، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار اُن کے اصرار سے مجبُور ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ ؐ کے ساتھ نکلے، مگر مقامِ شَوط پر پہنچ کر عبداللہ ابنِ ابَیّ اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا۔ عین وقت پر اُس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا ، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارِثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر پھر اُولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہو گیا۔ اِن باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اُحُد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے ۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا ۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جُبَیر کے زیرِ قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا ۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مالِ غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لُوٹنا شروع کر دیا۔ اُدھر جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لُٹ رہی ہے ، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکید حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکرِ کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے ، بر وقت فائدہ اُٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کر دیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے ، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا ۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہو گئے ۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورتِ حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حِصّہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اُڑ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمّت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ ؐ خود زخمی ہو چکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ ؐ کے گرد جمع ہو گئے اور آپ ؐ کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معمّا ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار ِ مکّہ کو خود بخود واپس پھیر دیا ۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

95. یہ اشارہ ہے بنو سلمہ اور بنو حارثہ کی طرف جن کی ہمتیں عبداللہ بن اُبَی اور اس کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد پست ہو گئی تھیں۔

96. مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف دشمن تین ہزار ہیں اور ہمارے ایک ہزار میں سے بھی تین سو الگ ہوگئے ہیں تو ان کے دل ٹوٹنے لگے۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے یہ الفاظ کہے تھے۔

97. نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زخمی ہوئے تو آپ کے مُنہ سے کفار کے حق میں بد دُعا نکل گئی اور آپ نے فرمایا کہ ” وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کو زخمی کرے“۔ یہ آیات اسی کے جواب میں ارشاد ہوئی ہیں۔