98. اُحُد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لُوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیمِ مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سُود خواری سے باز آ ؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
99. (سُود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سُود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سُود لینے والوں میں حرص و طمع ، بُخل اور خود غرضی ۔ اور سُود دینے والوں میں نفرت، غصّہ اور بُغض و حسد۔ اُحُد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصّہ شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سُود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالک برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دُوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دُوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۳۲۰)
100. اشارہ ہے جنگِ بدر کی طرف۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اُس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمّت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمّت ہارو۔
101. اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزّت بخشنا چاہتا تھا۔ اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اِس وقت مشتمل ہو، اُن لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ ء عَلَی النَّاس ہیں، یعنی اُس منصب ِ جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمّتِ مسلمہ کو سرفراز کیا ہے۔
102. اشارہ ہے شہادت کے اُن تمنائیوں کی طرف جن کے اصرار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔