Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 130-143

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَةً ​ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ​ۚ‏ ﴿3:130﴾ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىۡۤ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿3:131﴾ وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ​ۚ‏ ﴿3:132﴾ وَسَارِعُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿3:133﴾ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ​ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ​ۚ‏ ﴿3:134﴾ وَالَّذِيۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِهِمۡ وَمَنۡ يَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰهُ  وَلَمۡ يُصِرُّوۡا عَلٰى مَا فَعَلُوۡا وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿3:135﴾ اُولٰٓـئِكَ جَزَآؤُهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ وَنِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِيۡنَؕ‏  ﴿3:136﴾ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿3:137﴾ هٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّمَوۡعِظَةٌ لِّلۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿3:138﴾ وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿3:139﴾ اِنۡ يَّمۡسَسۡكُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُهٗ ​ؕ وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَتَّخِذَ مِنۡكُمۡ شُهَدَآءَ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ ﴿3:140﴾ وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَمۡحَقَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿3:141﴾ اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَلَمَّا يَعۡلَمِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا مِنۡكُمۡ وَيَعۡلَمَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿3:142﴾ وَلَقَدۡ كُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡهُ فَقَدۡ رَاَيۡتُمُوۡهُ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ‏ ﴿3:143﴾

130 - اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ، یہ بڑھتا اور چڑھتا سُود کھانا چھوڑ دو98 اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ 131 - اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے مہیا کی گئی ہے 132 - اور اللہ اور رسول  کا حکم مان لو ، توقع ہے کہ تم پر  رحم کیا جائے گا۔ 133 - دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے 134 - جو ہر حال میں  اپنے مال  خرچ کر تے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔99 135 - اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جا تا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کہ معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔اور وہ دیدہ ود انستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ 136 - ایسے لوگوں کی جزاء ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔ 137 - تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین  میں چل پھر کر  دیکھ لو کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنھوں نے(اللہ کے احکام و ہدایت کو ) جھٹلایا۔ 138 - یہ لوگوں کےلیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہو ں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت۔ 139 - دل شکستہ نہ ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ 140 - اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہےتو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔100  یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں  ۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا  چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کو ن ہیں، اور ان لوگوں  کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی(راستی کے)گواہ ہوں۔101  کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ 141 - اور وہ آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کا فروں  کی سر کوبی کر دینا چا ہتا تھا۔ 142 - کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت  میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ 143 - تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی ، لو اب وہ تمہارے سامنے  آگئی اور تم نے اسے آنکھوں دیکھ لیا۔102 ؏١۴


Notes

98. اُحُد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لُوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیمِ مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سُود خواری سے باز آ ؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے۔

99. (سُود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سُود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سُود لینے والوں میں حرص و طمع ، بُخل اور خود غرضی ۔ اور سُود دینے والوں میں نفرت، غصّہ اور بُغض و حسد۔ اُحُد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصّہ شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سُود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالک برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دُوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دُوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۳۲۰)

100. اشارہ ہے جنگِ بدر کی طرف۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اُس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمّت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمّت ہارو۔

101. اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزّت بخشنا چاہتا تھا۔ اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اِس وقت مشتمل ہو، اُن لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ ء عَلَی النَّاس ہیں، یعنی اُس منصب ِ جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمّتِ مسلمہ کو سرفراز کیا ہے۔

102. اشارہ ہے شہادت کے اُن تمنائیوں کی طرف جن کے اصرار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔