Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 149-155

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَرُدُّوۡكُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ فَتَـنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِيۡنَ‏ ﴿3:149﴾ بَلِ اللّٰهُ مَوۡلٰٮكُمۡ​ۚ وَهُوَ خَيۡرُ النّٰصِرِيۡنَ‏ ﴿3:150﴾ سَنُلۡقِىۡ فِىۡ قُلُوۡبِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا الرُّعۡبَ بِمَاۤ اَشۡرَكُوۡا بِاللّٰهِ مَا لَمۡ يُنَزِّلۡ بِهٖ سُلۡطٰنًا ​​ۚ وَمَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ​ؕ وَ بِئۡسَ مَثۡوَى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿3:151﴾ وَلَقَدۡ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعۡدَهٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَهُمۡ بِاِذۡنِهٖ​ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَـنَازَعۡتُمۡ فِى الۡاَمۡرِ وَعَصَيۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰٮكُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ​ؕ مِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرِيۡدُ الدُّنۡيَا وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ  ​​​ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمۡ عَنۡهُمۡ لِيَبۡتَلِيَكُمۡ​ۚ وَلَقَدۡ عَفَا عَنۡكُمۡ​ؕ وَ اللّٰهُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿3:152﴾ اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَلَا تَلۡوٗنَ عَلٰٓى اَحَدٍ وَّالرَّسُوۡلُ يَدۡعُوۡكُمۡ فِىۡۤ اُخۡرٰٮكُمۡ فَاَثَابَكُمۡ غَمًّا ۢ بِغَمٍّ لِّـكَيۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿3:153﴾ ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغۡشٰى طَآئِفَةً مِّنۡكُمۡ​ۙ وَطَآئِفَةٌ قَدۡ اَهَمَّتۡهُمۡ اَنۡفُسُهُمۡ يَظُنُّوۡنَ بِاللّٰهِ غَيۡرَ الۡحَـقِّ ظَنَّ الۡجَـاهِلِيَّةِ​ؕ يَقُوۡلُوۡنَ هَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَىۡءٍ​ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ​ؕ يُخۡفُوۡنَ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ مَّا لَا يُبۡدُوۡنَ لَكَ​ؕ يَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ كَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَىۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا هٰهُنَا ​ؕ قُلۡ لَّوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ لَبَرَزَ الَّذِيۡنَ كُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمۡ​ۚ وَلِيَبۡتَلِىَ اللّٰهُ مَا فِىۡ صُدُوۡرِكُمۡ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿3:154﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡكُمۡ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّهُمُ الشَّيۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا كَسَبُوۡا ​ۚ وَلَقَدۡ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهُمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿3:155﴾

149 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنھوں نے کفر کی راہ اختیار  کی ہے تو وہ تم کو  الٹا  پھیر  لے جائیں گے108 اور تم نامراد ہو جا ؤ گے۔ 150 - (ان کی باتیں  غلط ہیں) حقیقت یہ ہےکہ  اللہ تمہارا  حامی  و مدد گا رہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ 151 - عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین  حق کے دلوں  میں رعب بٹھا دیں گے، اس لیے کہ انہوں  نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی  میں شریک ٹھہرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی  سند نازل نہیں کی۔ ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے اور بہت ہی بری ہے وہ قیام گاہ جو ان ظالموں کو نصیب ہو گی۔ 152 - اللہ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کر دیا ۔ ابتدا میں اس کے حکم  سے تم ہی ان کو قتل  کر رہےتھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت  میں تم گرفتار تھے( یعنی مالِ غنیمت) تم اپنے  سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے۔اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے  اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔ تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ  میں پسپا کردیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے کہ  اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا109 کیونکہ  مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔ 153 - یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش  تمہیں نہ تھا ، اور رسول ؐ تمہارے پیچھے تم کو پکار رہاتھا۔ 110اس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم  کو رنج پر رنج دیے111 تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل  ہو اس پر ملول نہ ہو ۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔ 154 - اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں  سے کچھ  لوگوں پر ایسی اطمینان  کی سی حالت طاری کردی کہ وہ اونگھنے لگے۔112 مگر  ایک دوسرا گروہ  ، جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنے مفادہی کی تھی، اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے  لگا جو سراسر خلافِ حق تھے، یہ لوگ اب کہتےہیں کہ”اس کام  کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی  حصہ ہے؟“  ان سے کہو” (کسی کا کوئی حصہ نہیں)اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں“۔ دراصل  یہ لوگ اپنے دلوں  میں جو بات چھپاتےہوئے ہیں اسے تم پر ظاہر  نہیں کرتے، ان کا  اصل مطلب یہ ہے کہ ” اگر(قیادت کے)اختیارات میں  ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو  یہاں  ہم نہ مارے جاتے ۔“ ان سے کہہ دو کہ”اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں  کی موت لکھی ہوئی  تھی وہ خود اپنی  قتل  گاہوں کی طرف نکل آتے“۔  اور یہ معاملہ جو پیش آیا ، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اسے آزمالے اور جو کھوٹ تمارے دلوں میں ہے اسےچھانٹ دے، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ 155 - تم میں سے جو لوگ مقابلہ  کے دن پیٹھ پھیر  گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں  کی وجہ سے شیطان  نے ان کے قدم ڈگمگا دیے تھے۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور برد بار ہے۔ ؏١٦ 156-171


Notes

108. )یعنی جس کفر کی حالت سے تم نِکل کر آئے ہو اُسی میں تمہیں پھر واپس لے جائیں گے ۔ منافقین اور یہودی اُحد کی شکست کے بعد مسلمانوں میں یہ خیال پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ محمد ؐ اگر واقعی نبی ہوتے تو شکست کیوں کھاتے۔ یہ تو ایک معمولی آدمی ہیں۔ ان کا معاملہ بھی دوسرے آدمیوں کی طرح ہے ۔ آج فتح ہے تو کل شکست ۔ خدا کی جس حمایت و نصرت کا انہوں نے تم کو یقین دلا رکھا ہے وہ محض ایک ڈھونگ ہے۔

109. یعنی تم نے غلطی تو ایسی کی تھی کہ اگر اللہ تمہیں معاف نہ کردیتا تو اس وقت تمہارا استیصال ہو جاتا۔ یہ اللہ کا فضل تھا اور اس کی تائید و حمایت تھی جس کی بدولت تمہارے دشمن تم پر قابو پالینے کے بعد ہوش گم کر بیٹھے اور بلاوجہ خود پسپا ہوکر چلے گئے۔

110. جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے بیک وقت حملہ ہوا اور ان کی صفحوں میں ابتری پھیل گئی تو کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے اور کچھ اُحد پر چڑھ گئے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ دُشمنوں کا چاروں طرف ہجوم تھا، دس بارہ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت پاس رہ گئی تھی، مگر اللہ کا رسُول اس نازک موقع پر بھی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما ہوا تھا اور بھاگنے والوں کو پکار رہا تھا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ اِلَیَّ عِبَادَاللہِ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ ۔

111. رنج ہزیمت کا، رنج اس خبر کا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، رنج اپنے کثیر التعداد مقتولوں اور مجرُوحوں کا، رنج اس بات کا کہ اب گھروں کی بھی خبر نہیں ، تین ہزار دشمن، جن کی تعداد مدینہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، شکست خوردہ فوج کو روندتے ہوئے قصبہ میں آگھُسیں گے اور سب کو تباہ کر دیں گے۔

112. یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکرِ اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہؓ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اُونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھُوٹی پڑتی تھیں۔