108. )یعنی جس کفر کی حالت سے تم نِکل کر آئے ہو اُسی میں تمہیں پھر واپس لے جائیں گے ۔ منافقین اور یہودی اُحد کی شکست کے بعد مسلمانوں میں یہ خیال پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ محمد ؐ اگر واقعی نبی ہوتے تو شکست کیوں کھاتے۔ یہ تو ایک معمولی آدمی ہیں۔ ان کا معاملہ بھی دوسرے آدمیوں کی طرح ہے ۔ آج فتح ہے تو کل شکست ۔ خدا کی جس حمایت و نصرت کا انہوں نے تم کو یقین دلا رکھا ہے وہ محض ایک ڈھونگ ہے۔
109. یعنی تم نے غلطی تو ایسی کی تھی کہ اگر اللہ تمہیں معاف نہ کردیتا تو اس وقت تمہارا استیصال ہو جاتا۔ یہ اللہ کا فضل تھا اور اس کی تائید و حمایت تھی جس کی بدولت تمہارے دشمن تم پر قابو پالینے کے بعد ہوش گم کر بیٹھے اور بلاوجہ خود پسپا ہوکر چلے گئے۔
110. جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے بیک وقت حملہ ہوا اور ان کی صفحوں میں ابتری پھیل گئی تو کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے اور کچھ اُحد پر چڑھ گئے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ دُشمنوں کا چاروں طرف ہجوم تھا، دس بارہ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت پاس رہ گئی تھی، مگر اللہ کا رسُول اس نازک موقع پر بھی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما ہوا تھا اور بھاگنے والوں کو پکار رہا تھا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ اِلَیَّ عِبَادَاللہِ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ ، اللہ کے بندو میری طرف آ ؤ ۔
111. رنج ہزیمت کا، رنج اس خبر کا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، رنج اپنے کثیر التعداد مقتولوں اور مجرُوحوں کا، رنج اس بات کا کہ اب گھروں کی بھی خبر نہیں ، تین ہزار دشمن، جن کی تعداد مدینہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، شکست خوردہ فوج کو روندتے ہوئے قصبہ میں آگھُسیں گے اور سب کو تباہ کر دیں گے۔
112. یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکرِ اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا۔ حضرت ابو طلحہؓ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اُونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھُوٹی پڑتی تھیں۔