Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 156-172

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَقَالُوۡا لِاِخۡوَانِهِمۡ اِذَا ضَرَبُوۡا فِى الۡاَرۡضِ اَوۡ كَانُوۡا غُزًّى لَّوۡ كَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَمَا قُتِلُوۡا ۚ لِيَجۡعَلَ اللّٰهُ ذٰ لِكَ حَسۡرَةً فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ​ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏  ﴿3:156﴾ وَلَـئِنۡ قُتِلۡتُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَوۡ مُتُّمۡ لَمَغۡفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَحۡمَةٌ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ‏ ﴿3:157﴾ وَلَـئِنۡ مُّتُّمۡ اَوۡ قُتِلۡتُمۡ لَا اِلَى اللّٰهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿3:158﴾ فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡ​ۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ​ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ​ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ‏ ﴿3:159﴾ اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمۡ​ۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖ ​ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿3:160﴾ وَمَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّغُلَّ​ؕ وَمَنۡ يَّغۡلُلۡ يَاۡتِ بِمَا غَلَّ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ​ ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفۡسٍ مَّا كَسَبَتۡ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏  ﴿3:161﴾ اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَ اللّٰهِ كَمَنۡۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاۡوٰٮهُ جَهَنَّمُ​ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿3:162﴾ هُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللّٰهِ ​ؕ وَاللّٰهُ بَصِيۡرٌۢ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿3:163﴾ لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ  ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏  ﴿3:164﴾ اَوَلَمَّاۤ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَيۡهَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰى هٰذَا​ؕ قُلۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِكُمۡ ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿3:165﴾ وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰهِ وَلِيَعۡلَمَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ‏ ﴿3:166﴾ ​وَلِيَعۡلَمَ الَّذِيۡنَ نَافَقُوۡا  ۖۚ وَقِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ​ۚ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰكُمۡ​ؕ هُمۡ لِلۡكُفۡرِ يَوۡمَـئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡهُمۡ لِلۡاِيۡمَانِ​ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاهِهِمۡ مَّا لَيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا يَكۡتُمُوۡنَ​ۚ‏ ﴿3:167﴾ اَلَّذِيۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِهِمۡ وَقَعَدُوۡا لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ​ؕ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِكُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿3:168﴾ وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ قُتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتًا ​ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُوۡنَۙ‏ ﴿3:169﴾ فَرِحِيۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ ۙ وَيَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِيۡنَ لَمۡ يَلۡحَقُوۡا بِهِمۡ مِّنۡ خَلۡفِهِمۡۙ اَ لَّا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ​ۘ‏  ﴿3:170﴾ يَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضۡلٍۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ  ۛۚ‏ ﴿3:171﴾ اَلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الۡقَرۡحُ  ۛؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡهُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ​ۚ‏ ﴿3:172﴾

156 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز و اقارب اگر کبھی  سفر پر جاتے ہیں یا جنگ  میں شریک ہوتے ہیں(اور وہاں کسی حادثہ سے دو چار ہو جاتے ہیں)تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل  ہوتے۔ اللہ اس قوم کی باتوں  کو ان کے دلوں میں حسرت  واندوہ کا سبب بنا دیتا  ہے ،113 ورنہ  دراصل  مارنے  اور جِلانے والا تو اللہ ہی ہے اور تمہاری تمام حرکات پر وہی نگراں ہے۔ 157 - اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ  یا مر جاؤ تو اللہ کی جو رحمت اور بخشش تمہارے حصہ  میں آئے گی وہ ان ساری چیزوں  سے زیادہ بہتر ہے جنھیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔ 158 - اور  خوا ہ تم  مرو یا مارے جاؤ بہر حال تم سب کو سمٹ کر جا نا  اللہ ہی کی طرف ہے۔ 159 - (اے پیغمبر ؐ )یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ  اگر کہیں تم  تُند خواور سنگ دل ہوتے تو یہ سب  تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے، ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں  ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو، پھر  جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ 160 - اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب  آنے والی نہیں ، اور وہ تمہیں چھوڑ دے ، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہوِ؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ 161 - کسی نبی کا یہ کام  نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کر جائے۔114 اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی  خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا، پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی  کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم  نہ ہو گا۔ 162 - بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے  غضب میں گھر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانا جہنم ہو جو بد ترین ٹھکانہ ہے؟ 163 - اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں بدرجہا فرق ہے اور اللہ سب کے اعمال پر نظر رکھتا ہے۔ 164 - درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نےیہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی  میں سے ایک ایسا  پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات  انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو  کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ  اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ 165 - اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت  آپڑی  تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟115 حالانکہ(جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں(فریق مخالف  پر ) پڑ چکی ہے۔116 اے نبی ؐ! ان سے کہو، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے،117 اللہ ہر چیز پر   قادر ہے۔118 166 - جو نقصان  لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں 167 - اور منافق کون۔ وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا  آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم ازکم(اپنے شہر کی)مدافعت ہی کرو، تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ 119یہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اس وقت وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ  قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ اسےخوب جانتا ہے۔ 168 - یہ وہی لوگ ہیں جو خود بیٹھے رہےاور ان  کے جو بھائی  بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نےکہہ دیا کہ اگر وہ ہماری  بات مان لیتے تو نہ  مارے جاتے، ان سے کہو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اسے ٹال کر دکھادینا۔ 169 - جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں،120 اپنے رب کے پاس  رزق پا رہے ہیں، 170 - جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں  دیا ہے اُس پر خوش وخُرم  ہیں ،121 اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج  کاموقع  نہیں ہے۔ 171 - وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل  پر شاداں و فرحاں  ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ؏١۷ 172 - جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی  اللہ اور رسول  کی پکار پر لبیک کہا 122 ان میں جو  اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔


Notes

113. یعنی یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قضاء الہٰی کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی ۔ مگر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور سب کچھ تدبیروں ہی پر موقوف سمجھتے ہیں ان کے لیے اس قسم کے قیاسات بس داغِ حسرت بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ کاش یوں ہوتا تو یہ ہو جاتا۔

114. جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کےلیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دُشمن کا لشکر لوٹا جارہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مِل جائے جواسے لوٹ رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے اُن لوگوں کو بُلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے ۔ اس پر حضور نے فرمایا بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم۔”اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصّہ نہیں دیں گے۔“ اس آیت کا اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے۔ ارشادِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہوگا۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت، امانت اور انصاف کے سوا کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے؟

115. اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے ، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسُول ؐ ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ اس لیے جب اُحد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے، اس کا وعدہٴ نصرت ہمارے ساتھ تھا، اُس کا رسُول خود میدانِ جنگ میں موجود تھا، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے؟ اور شکست بھی اُن سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے؟ یہ آیات اِسی حیرانی کو دُور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں۔

116. جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے۔ بخلاف اس کے جنگِ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے۔

117. یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے، حکم کی خلاف ورزی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے ، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر کیوں پُوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟

118. یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔

119. عبداللہ بن اُبَی جب تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر راستہ سے پلٹنے لگا تو بعض مسلمانوں نے جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنا چاہا۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آج جنگ نہیں ہو گی، اس لیے ہم جا رہے ہیں ، ورنہ اگر ہمیں توقع ہوتی کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔

120. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۱۵۔

121. مسند احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص نیک عمل لے کر دُنیا سے جاتا ہے اُسے اللہ کے ہاں اس قدر پُر لُطف اور پُر کیف زندگی میسّر آتی ہے جس کے بعد وہ کبھی دُنیا میں واپس آنے کی تمنا نہیں کرتا۔ مگر شہید اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ تمناکرتا ہے کہ پھر دُنیا میں بھیجا جائے اور پھر اُس لذّت ، اس سرُور اور اس نشے سے لُطف اندوز ہو جو راہِ خدا میں جان دیتے وقت حاصل ہوتا ہے۔

122. جنگِ اُحُد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دُور چلے گئے تو انھیں ہوش آیا اور انہوں نے آپس میں کہا یہ ہم نے کیا حرکت کی کہ محمد ؐ کی طاقت کو توڑ دینے کا جو بیش قیمت موقع ملا تھا اُسے کھو کر چلے آئے۔ چنانچہ ایک جگہ ٹھیر کر اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر فوراً ہی دُوسرا حملہ کر دیا جائے۔ لیکن پھر ہمّت نہ پڑی اور مکّہ واپس چلے گئے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر نہ پلٹ آئیں۔ اس لیے جنگِ اُحد کے دوسرے ہی دن آپ ؐ نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا کہ کفار کے تعاقب میں چلنا چاہیے۔ یہ اگرچہ نہایت نازک موقع تھا ، مگر پھر بھی جو سچّے مومن تھے وہ جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس آیت کا اشارہ انہی فدا کاروں کی طرف ہے۔