113. یعنی یہ باتیں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قضاء الہٰی کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی ۔ مگر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور سب کچھ تدبیروں ہی پر موقوف سمجھتے ہیں ان کے لیے اس قسم کے قیاسات بس داغِ حسرت بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ کاش یوں ہوتا تو یہ ہو جاتا۔
114. جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کےلیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دُشمن کا لشکر لوٹا جارہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مِل جائے جواسے لوٹ رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے اُن لوگوں کو بُلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے ۔ اس پر حضور نے فرمایا بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم۔”اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصّہ نہیں دیں گے۔“ اس آیت کا اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے۔ ارشادِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہوگا۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت، امانت اور انصاف کے سوا کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے؟
115. اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے ، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسُول ؐ ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ اس لیے جب اُحد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے، اس کا وعدہٴ نصرت ہمارے ساتھ تھا، اُس کا رسُول خود میدانِ جنگ میں موجود تھا، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے؟ اور شکست بھی اُن سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے؟ یہ آیات اِسی حیرانی کو دُور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں۔
116. جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے۔ بخلاف اس کے جنگِ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے۔
117. یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے، حکم کی خلاف ورزی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے ، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر کیوں پُوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟
118. یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔
119. عبداللہ بن اُبَی جب تین سو منافقوں کو اپنے ساتھ لے کر راستہ سے پلٹنے لگا تو بعض مسلمانوں نے جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ چلنے کے لیے راضی کرنا چاہا۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آج جنگ نہیں ہو گی، اس لیے ہم جا رہے ہیں ، ورنہ اگر ہمیں توقع ہوتی کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔
120. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۱۵۔
121. مسند احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مروی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جو شخص نیک عمل لے کر دُنیا سے جاتا ہے اُسے اللہ کے ہاں اس قدر پُر لُطف اور پُر کیف زندگی میسّر آتی ہے جس کے بعد وہ کبھی دُنیا میں واپس آنے کی تمنا نہیں کرتا۔ مگر شہید اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ تمناکرتا ہے کہ پھر دُنیا میں بھیجا جائے اور پھر اُس لذّت ، اس سرُور اور اس نشے سے لُطف اندوز ہو جو راہِ خدا میں جان دیتے وقت حاصل ہوتا ہے۔
122. جنگِ اُحُد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دُور چلے گئے تو انھیں ہوش آیا اور انہوں نے آپس میں کہا یہ ہم نے کیا حرکت کی کہ محمد ؐ کی طاقت کو توڑ دینے کا جو بیش قیمت موقع ملا تھا اُسے کھو کر چلے آئے۔ چنانچہ ایک جگہ ٹھیر کر اُنہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر فوراً ہی دُوسرا حملہ کر دیا جائے۔ لیکن پھر ہمّت نہ پڑی اور مکّہ واپس چلے گئے۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر نہ پلٹ آئیں۔ اس لیے جنگِ اُحد کے دوسرے ہی دن آپ ؐ نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا کہ کفار کے تعاقب میں چلنا چاہیے۔ یہ اگرچہ نہایت نازک موقع تھا ، مگر پھر بھی جو سچّے مومن تھے وہ جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس آیت کا اشارہ انہی فدا کاروں کی طرف ہے۔