123. یہ چند آیات جنگِ اُحد کے ایک سال بعد نازل ہوئی تھیں مگر چونکہ ان کا تعلق اُحد ہی کے سلسلہٴ واقعات سے تھا اس لیے ان کو بھی اس خطبہ میں شامل کر دیا گیا۔
124. اُحد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہوگا۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمّت نے جواب دے دیا کیونکہ اُس سال مکّہ میں قحط تھا۔ لہٰذا اُس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کر نی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کر سکے گا۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری اُنہی پر رہے۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہو اکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمّت افزا جواب نہ ملا ۔ آخر کار اللہ کے رسول ؐ نے بھرے مجمع میں اعلان کر دیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جا ؤ ں گا ۔ اس پر ١۵ سو فدا کار آپ ؐ کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ ؐ انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے۔ اُدھر سے ابوسفیان دوہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ، آئندہ سال آئیں گے چنانچہ وہ اور اس کے ساتھی واپس ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ روز تک بدر کےمقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دَوران میں آپ ؐ کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اُٹھایا۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ ؐ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔
125. یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہلِ ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں۔
126. یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھُل جائے گا۔
127. یعنی زمین و آسمان کی جو چیز بھی کوئی مخلوق استعمال کر رہی ہے وہ دراصل اللہ کی مِلک ہے اور اس پر مخلوق کا قبضہ و تصّرف عارضی ہے ۔ ہر ایک اپنے مقبوضات سے بہر حال بے دخل ہونا ہے اور آخر کار سب کچھ اللہ ہی کے پاس رہ جانے والا ہے۔ لہٰذا عقل مند ہے وہ جو اس عارضی قبضہ کے دَوران میں اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر صرف کرتا ہے۔ اور سخت بیوقوف ہے وہ جو اسے بچا بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔