Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 173-180

اَلَّذِيۡنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَـكُمۡ فَاخۡشَوۡهُمۡ فَزَادَهُمۡ اِيۡمَانًا  ۖ وَّقَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰهُ وَنِعۡمَ الۡوَكِيۡلُ‏ ﴿3:173﴾ فَانْقَلَبُوۡا بِنِعۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضۡلٍ لَّمۡ يَمۡسَسۡهُمۡ سُوۡٓءٌ ۙ وَّاتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰهِ ​ؕ وَاللّٰهُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿3:174﴾ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيۡطٰنُ يُخَوِّفُ اَوۡلِيَآءَهٗ فَلَا تَخَافُوۡهُمۡ وَخَافُوۡنِ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿3:175﴾ وَلَا يَحۡزُنۡكَ الَّذِيۡنَ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡكُفۡرِ​ۚ اِنَّهُمۡ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡـئًا ​ؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَلَّا يَجۡعَلَ لَهُمۡ حَظًّا فِىۡ الۡاٰخِرَةِ ​ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿3:176﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اشۡتَرَوُا الۡكُفۡرَ بِالۡاِيۡمَانِ لَنۡ يَّضُرُّوا اللّٰهَ شَيۡـئًا ​ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿3:177﴾ وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِىۡ لَهُمۡ خَيۡرٌ لِّاَنۡفُسِهِمۡ​ؕ اِنَّمَا نُمۡلِىۡ لَهُمۡ لِيَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا​ ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏  ﴿3:178﴾ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ​ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطۡلِعَكُمۡ عَلَى الۡغَيۡبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجۡتَبِىۡ مِنۡ رُّسُلِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ​ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ​ۚ وَاِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَـكُمۡ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ‏  ﴿3:179﴾ وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡ​ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ​ؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ​ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿3:180﴾

173 - اور وہ جن 123سے لوگوں نے کہاکہ”تمہارے  خلاف  بڑی فوج جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو“  تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ  ہمارے لیے اللہ کافی ہے او ر وہی بہترین کارساز ہے۔ 174 - آخر کار وہ اللہ تعالیٰ  کی نعمت اور فضل  کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کاضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔ 175 - اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان  تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرارہاتھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں  سے نہ ڈرنا، مجھ سےڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو۔124 176 - (اے پیغمبر ؐ ) جو لوگ  آج  کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ  کا ارادہ  یہ ہے کہ  ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے۔ 177 - جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں وہ یقیناً اللہ کا کوئی  نقصان نہیں  کر رہے ہیں ، ان کے لیے درد ناک عذاب تیار ہے، 178 - یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیں  اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں، پھر ان کےلیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔ 179 - اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو ۔125 وہ پاک  لوگوں کو ناپاک لوگوں  سے الگ  کرکے رہے گا۔ مگر  اللہ کا یہ طریقہ  نہیں ہے کہ تم کو  غیب پر مطلع کردے۔126 غیب کی باتیں بتانے کے لیے تووہ  اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا( اُمورِ غیب کے بارے میں)اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی  کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ 180 - جن لوگوں کو اللہ نے  اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر  وہ بخل  سے کام لیتےہیں وہ اس خیال  میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ا ن کےلیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع  کررہے ہیں وہی قیامت  کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے127 اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔  ؏١۸


Notes

123. یہ چند آیات جنگِ اُحد کے ایک سال بعد نازل ہوئی تھیں مگر چونکہ ان کا تعلق اُحد ہی کے سلسلہٴ واقعات سے تھا اس لیے ان کو بھی اس خطبہ میں شامل کر دیا گیا۔

124. اُحد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہوگا۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمّت نے جواب دے دیا کیونکہ اُس سال مکّہ میں قحط تھا۔ لہٰذا اُس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کر نی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کر سکے گا۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری اُنہی پر رہے۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہو اکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمّت افزا جواب نہ ملا ۔ آخر کار اللہ کے رسول ؐ نے بھرے مجمع میں اعلان کر دیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جا ؤ ں گا ۔ اس پر ١۵ سو فدا کار آپ ؐ کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ ؐ انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے۔ اُدھر سے ابوسفیان دوہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ، آئندہ سال آئیں گے چنانچہ وہ اور اس کے ساتھی واپس ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ روز تک بدر کےمقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دَوران میں آپ ؐ کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اُٹھایا۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ ؐ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

125. یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہلِ ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں۔

126. یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھُل جائے گا۔

127. یعنی زمین و آسمان کی جو چیز بھی کوئی مخلوق استعمال کر رہی ہے وہ دراصل اللہ کی مِلک ہے اور اس پر مخلوق کا قبضہ و تصّرف عارضی ہے ۔ ہر ایک اپنے مقبوضات سے بہر حال بے دخل ہونا ہے اور آخر کار سب کچھ اللہ ہی کے پاس رہ جانے والا ہے۔ لہٰذا عقل مند ہے وہ جو اس عارضی قبضہ کے دَوران میں اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر صرف کرتا ہے۔ اور سخت بیوقوف ہے وہ جو اسے بچا بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔