Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 181-187

لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيۡرٌ وَّنَحۡنُ اَغۡنِيَآءُ ​ۘ سَنَكۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَقَتۡلَهُمُ الۡاَنۡۢبِيَآءَ بِغَيۡرِ حَقٍّ ۙۚ وَّنَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ ﴿3:181﴾ ذٰ لِكَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَاَنَّ اللّٰهَ لَيۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِيۡدِ​ۚ‏  ﴿3:182﴾ اَلَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَيۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰى يَاۡتِيَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡكُلُهُ النَّارُ​ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَكُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِىۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَبِالَّذِىۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡهُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿3:183﴾ فَاِنۡ كَذَّبُوۡكَ فَقَدۡ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِكَ جَآءُوۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالۡكِتٰبِ الۡمُنِيۡرِ‏ ﴿3:184﴾ كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ​ؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ​ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ​ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ ﴿3:185﴾ لَـتُبۡلَوُنَّ فِىۡۤ اَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ وَلَـتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَمِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡۤا اَذًى كَثِيۡـرًا​ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ‏ ﴿3:186﴾ وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكۡتُمُوۡنَهٗ فَنَبَذُوۡهُ وَرَآءَ ظُهُوۡرِهِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيۡلًاؕ فَبِئۡسَ مَا يَشۡتَرُوۡنَ‏ ﴿3:187﴾

181 - اللہ نےان لوگوں کاقول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیرہے اور ہم غنی ہیں۔128 ان کی یہ باتیں بھی ہم لکھ لیں گے ، اور اس سے پہلے جو وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں وہ بھی ان کے نامہٴ اعمال میں ثبت ہے۔ ( جب  فیصلہ کا وقت آئےگا اس وقت)ہم ان سے کہیں گے کہ لو، اب عذاب جہنم کا مزا چکھو، 182 - یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ، اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔ 183 - جو لوگ کہتے ہیں”اللہ نےہم کو ہدایت کر دی ہے کہ ہم کسی کو رسول تسلیم نہ کریں جب تک  وہ ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ کرے  جسے(غیب سے آکر)آگ کھا لے“، ان سے کہو ”تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت رسول  آچکے ہیں جو بہت سی روشن نشانیاں لائے تھے اور وہ نشانی بھی لائے تھے جس کا تم ذکر کرتےہو ، پھر اگر (ایمان  لانے کے لیے یہ شرط پیش کرنے میں)تم سچے ہو تو ان رسولوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟“129 184 - اب اے محمد ؐ! اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو بہت سے رسول تم سے پہلے جھٹلائے  جا چکے ہیں  جو کھلی کھلی نشانیاں اور صحیفے اور روشنی بخشنے والی کتابیں لائے تھے۔ 185 - آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم  سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کےروز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہےجو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔ 130 186 - مسلمانو! تمہیں مال و جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دِہ باتیں سنو گے۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی  کی روش پر قائم رہو131 تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ 187 - ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی  یاد دلاؤ جو اللہ نے  ان سےلیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انھیں پوشیدہ رکھنا نہیں132 ہوگا۔ مگر انہوں نےکتاب کو پسِ پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا۔ کتنا بُرا کاروبار ہے جو یہ  کر رہے ہیں۔


Notes

128. یہ یہودیوں کا قول تھا ۔ قرآن مجید میں جب یہ آیت آئی کہ مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْ ضًا حَسَنًا، ”کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے “، تو اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے یہُودیوں نے کہنا شروع کیا کہ جی ہاں، اللہ میاں مفلس ہو گئے ہیں، اب وہ بندوں سے قرض مانگ رہے ہیں۔

129. بائیبل میں متعدّد مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ خدا کے ہاں کسی قربانی کے مقبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ غیب سے ایک آگ نمودار ہو کر اسے بھسم کر دیتی تھی (قضاة ٦: ۲۰۔۲١ و ١۳: ١۹۔۲۰)۔ نیز یہ ذکر بھی بائیبل میں آتا ہے کہ بعض مواقع پر کوئی نبی سو ختنی قربانی کرتا تھا اور ایک غیبی آگ آکر اسے کھالیتی تھی(احبار ۔۹ : ۲۴۔۲۔تواریخ۔۷ : ١۔۲) ۔ لیکن یہ کسی جگہ بھی نہیں لکھا کہ اس طرح کی قربانی نبوّت کی کوئی ضروری علامت ہے، یا یہ کہ جس شخص کو یہ معجزہ نہ دیا گیا ہو وہ ہرگز نبی نہیں ہو سکتا۔ یہ محض ایک من گھڑت بہانا تھا جو یہودیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا انکار کرنے کے لیے نصنیف کر لیا تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی حق دشمنی کا ثبوت یہ تھا کہ خود انبیاء ِ بنی اسرائیل میں سے بعض نبی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے آتشیں قربانی کا یہ معجزہ پیش کیا اور پھر بھی یہ جرائم پیشہ لوگ ان کے قتل سے باز نہ رہے۔ مثال کے طور پر بائیبل میں حضرت الیاس ؑ (ایلیاہ تِشبی) کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے بَعل کے پجاریوں کو چیلنج دیا کہ مجمعِ عام میں ایک بیل کی قربانی تم کرو اور ایک کی قربانی میں کرتا ہوں۔ جس کی قربانی کو غیبی آگ کھالے وہی حق پر ہے۔ چنانچہ ایک خلقِ کثیر کے سامنے یہ مقابلہ ہوا اور غیبی آگ نے حضرت الیاس ؑ کی قربانی کھائی۔ لیکن اس کا جو کچھ نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس ؑ کی دشمن ہو گئی، اور وہ زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کی خاطر ان کے قتل کے درپے ہوا اور ان کو مجبوراً ملک سے نِکل کر جزیرہ نما ئے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی( ١۔سلاطین۔باب ١۸ و ١۹)۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ حق کے دُشمنو! تم کس منہ سے آتشیں قربانی کا معجزہ مانگتے ہو ؟ جن پیغمبروں نے یہ معجزہ دکھایا تھا انہی کے قتل سے تم کب باز رہے۔

130. یعنی اس دُنیا کی زندگی میں جو نتائج رُونما ہوتے ہیں انہی کو اگر کوئی شخص اصلی اور آخری نتائج سمجھ بیٹھے اور اُنہی پر حق و باطل اور فلاح و خُسران کے فیصلے کا مدار رکھے تو درحقیقت وہ سخت دھوکہ میں مُبتلا ہو جائے گا۔ یہاں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہی حق پر بھی ہے اور اسی کو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت بھی حاصل ہے۔ اور اسی طرح یہاں کسی کا مصائب و مشکلات میں مُبتلا ہونا بھی لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ باطل پر ہے اور مرد ود ِ بارگاہِ الہٰی ہے۔ اکثر اوقات اس ابتدائی مرحلہ کے نتائج اُن آخری نتائج کے برعکس ہوتے ہیں جو حیاتِ ابدی کے مرحلہ میں پیش آنے والے ہیں۔ اور اصل اعتبار اُنہی نتائج کا ہے۔

131. یعنی اُن کے طعن و تشنیع، اُن کے الزامات ، اُن کے بیہُودہ طرزِ کلام اور اُن کی جھُوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اُتر آ ؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں۔

132. یعنی انھیں یہ تو یاد رہ گیا کہ بعض پیغمبروں کو آگ میں جلنے والی قربانی بطور نشان کے دی گئی تھی، مگر یہ یاد نہ رہا کہ اللہ نے اپنی کتاب ان کے سپرد کرتے وقت ان سے کیا عہد لیا تھا اور کس خدمتِ عظمٰی کی ذمّہ داری ان پر ڈالی تھی۔

یہاں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ذکر جگہ جگہ بائیبل میں آتا ہے۔ خصُوصاً کتاب استثناء میں حضرت موسیٰ ؑ کی جو آخری تقریر نقل کی گئی ہے اس میں تو وہ بار بار بنی اسرائیل سے عہد لیتے ہیں کہ جو احکام میں نے تم کو پہنچائے ہیں اُنھیں اپنے دل پر نقش کر نا، اپنی آئندہ نسلوں کو سکھانا ، گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے، ہر وقت ان کا چرچا کرنا، اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر ان کو لکھ دینا(٦:۴۔۹)۔ پھر اپنی آخری نصیحت میں اُنھوں نے تاکید کی کہ فلسطین کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرنا کہ کوہِ عیبال پر بڑے بڑے پتھر نصب کر کے توراة کے احکام ان پر کندہ کر دینا(۲۷:۲۔۴)۔ نیز بنی لاوِی کو توراة کا ایک نسخہ دے کر ہدایت فرمائی کہ ہر ساتویں برس عیدِ خیام کے موقع پر قوم کے مردوں ، عورتوں ، بچّوں سب کو جگہ جگہ جمع کر کے یہ پُوری کتاب لفظ بلفظ ان کو سُناتے رہنا ۔ لیکن اس پر بھی کتاب اللہ سے بنی اسرائیل کی غفلت رفتہ رفتہ یہاں تک بڑھی کہ حضرت موسیٰ ؑ کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین ، اور یروشلم کے یہُودی فرماں روا تک کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں توراة نامی بھی کوئی کتاب موجود ہے۔(۲۔سلاطین۔۲۲ :۸۔١۳)۔

133. مثلاً وہ اپنی تعریف میں یہ سُننا چاہتے ہیں کہ حضرت بڑے متقی ہیں، دیندار اور پارسا ہیں، خادمِ دین ہیں، حامیِ شرع متین ہیں، مُصلح و مزکّی ہیں، حالانکہ حضرت کچھ بھی نہیں۔ یا اپنے حق میں یہ ڈھنڈورا پٹوانا چاہتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے ایثار پیشہ اور مخلص اور دیانت دار رہنما ہیں اور انہوں نے مِلّت کی بڑی خدمت کی ہے، حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔