19. یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔
20. یعنی انہوں نے اپنی قوتیں اور کوششیں ایسی راہ میں صرف کی ہیں جس کا نتیجہ دُنیا میں بھی خراب ہے اور آخرت میں بھی خراب۔
21. یعنی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو ان کی اس غلط سعی و عمل کو سُپھل بنا سکے، یا کم از کم بد انجامی ہی سے بچا سکے۔ جِن جِن قوتوں پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ دُنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ ان کے کام آئیں گی، ان میں سے فی الواقع کوئی بھی ان کی مددگار ثابت نہ ہوگی۔
22. یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائی کتاب کو آخری سند مان لو، اس کے فیصلے کے آگے سر جھکا دو اور جو کچھ اس کی رُو سے حق ثابت ہو، اسے حق اور جو اس کی رُوسے باطل ثابت ہو، اسے باطل تسلیم کر لو۔ واضح رہے کہ اس مقام پر خدا کی کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے اور ”کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ پانے والوں“ سے مراد یہود و نصاریٰ کے علما ہیں۔
23. یعنی یہ لوگ اپنے آپ کو خدا کا چَہیتا سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ اس خیال ِ خام میں مبتلا ہیں کہ ہم خواہ کچھ کریں بہرحال جنت ہماری ہے ۔ ہم اہلِ ایمان ہیں، ہم فلاں کی اولاد اور فلاں کی اُمّت اور فلاں کے مریداور فلاں کے دامن گرفتہ ہیں ، بھلا دوزخ کی کیا مجال کہ ہمیں چھُو جائے۔ اور بالفرض اگر ہم دوزخ میں ڈالے بھی گئے تو بس چند روز وہاں رکھے جائیں گے تاکہ گناہوں کی جو آلائش لگ گئی ہے وہ صاف ہو جائے، پھر سیدھے جنت میں پہنچا دیے جائے گے۔ اسی قسم کے خیالات نے ان کو اتنا جری و بے باک بنا دیا ہے کہ وہ سخت سے سخت جرائم کا ارتکاب کر جاتے ہیں، بدترین گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں ، کُھلم کُھلا حق سے انحراف کرتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف ان کے دل میں نہیں آتا۔
24. جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتُوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کِس طرح پَھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہلِ ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور اُن مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مُبتلا تھے، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصّور نہیں کیا جا سکتا۔
25. یعنی اگر کو ئی مومن کسی دشمنِ اسلام جماعت کے چنگل میں پھنس گیا ہو اور اسے ان کے ظلم و ستم کا خوف ہو، تو اس کو اجازت ہے کہ اپنےایمان کو چھپائے رکھے اور کفار کے ساتھ بظاہر اس طرح رہے کہ گویا اُنہی میں کا ایک آدمی ہے۔ یا اگر اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہوگیا ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ کفار کے ساتھ دوستانہ رویّہ کا اظہار کر سکتا ہے، حتٰی کہ شدید خوف کی حالت میں جو شخص برداشت کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کو کلمہٴ کفر تک کہہ جانے کی رخصت ہے۔
26. یعنی کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نِکل جائے۔ انسان حد سے حد تمہاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمہیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے بچا ؤ کے لیے اگر بدرجہٴ مجبُوری کبھی کفار کے ساتھ تقیہ کرنا پڑے ، تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہیے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت کے مفاد اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کر لو۔ لیکن خبردار، کفر اور کفار کی کوئی ایس خدمت تمہارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہو نے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو یا اہلِ دین کی جماعت کو یا کسی ایک فردِ مومن کو بھی نقصان پہنچایا ، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی ، تو اللہ کے محاسبے سے ہر گز نہ بچ سکو گے۔ جانا تم کو بہرحال اسی کے پاس ہے۔
27. یعنی یہ اس کی انتہائی خیر خواہی ہے کہ وہ تمہیں قبل از وقت ایسے اعمال پر متنبہ کر رہا ہے جو تمہارے انجام کی خرابی کے موجب ہو سکتے ہیں۔