Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 31-41

قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ​ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿3:31﴾ قُلۡ اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ​​ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿3:32﴾ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰۤى اٰدَمَ وَنُوۡحًا وَّاٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿3:33﴾ ذُرِّيَّةًۢ بَعۡضُهَا مِنۡۢ بَعۡضٍ​ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ​ۚ‏ ﴿3:34﴾ اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّىۡ نَذَرۡتُ لَـكَ مَا فِىۡ بَطۡنِىۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّىۡ ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ​‏ ﴿3:35﴾ فَلَمَّا وَضَعَتۡهَا قَالَتۡ رَبِّ اِنِّىۡ وَضَعۡتُهَاۤ اُنۡثٰىؕ وَاللّٰهُ اَعۡلَمُ بِمَا وَضَعَتۡؕ وَ لَيۡسَ الذَّكَرُ كَالۡاُنۡثٰى​​ۚ وَاِنِّىۡ سَمَّيۡتُهَا مَرۡيَمَ وَاِنِّىۡۤ اُعِيۡذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيۡطٰنِ الرَّجِيۡمِ‏  ﴿3:36﴾ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوۡلٍ حَسَنٍ وَّاَنۡۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا ۙ وَّكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ​ؕ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيۡهَا زَكَرِيَّا الۡمِحۡرَابَۙ وَجَدَ عِنۡدَهَا رِزۡقًا ​ۚ​ قَالَ يٰمَرۡيَمُ اَنّٰى لَـكِ هٰذَا ؕ​ قَالَتۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿3:37﴾ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ​ ​ۚ قَالَ رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً​ ​ ۚ اِنَّكَ سَمِيۡعُ الدُّعَآءِ‏ ﴿3:38﴾ فَنَادَتۡهُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ وَهُوَ قَآئِمٌ يُّصَلِّىۡ فِى الۡمِحۡرَابِۙ اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحۡيٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوۡرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿3:39﴾ قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّقَدۡ بَلَغَنِىَ الۡكِبَرُ وَامۡرَاَتِىۡ عَاقِرٌ​ؕ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفۡعَلُ مَا يَشَآءُ‏ ﴿3:40﴾ قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّىۡۤ اٰيَةً ​ؕ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ​ وَاذۡكُرْ رَّبَّكَ كَثِيۡرًا وَّسَبِّحۡ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِبۡكَارِ‏ ﴿3:41﴾

31 - اے نبی ! لوگوں سے کہ دو کہ ”اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت  کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو در گزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے“۔ 32 - اُن سے کہو کہ ”اللہ اور  رسُول کی اطاعت قبول کر لو“ پھر  اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسُول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔28 33 - اللہ29 نے آدم ؑ  اور نوح ؑ  اور آلِ ابراھیم   ؑ  اور آلِ عمران30  کو تمام دُنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا ۔ 34 - یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔31 35 - (وہ اس وقت سُن رہا تھا) جب عمران کی عورت32 کہہ رہی تھی کہ ”میرے پر ور دگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر  کرتی ہوں ، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا۔ میری اس پیشکش کو قبو ل فرما۔ تُو  سننے اور جاننے والاہے“۔33 36 - پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ”مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے۔۔۔۔حالانکہ  جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی۔۔۔۔اور لڑکا لڑکی کی طرح  نہیں ہوتا۔34 خیر ، میں نے اس کا نام مریم  رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کوشیطانِ مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“۔ 37 - آخر کار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا۔ اُسے بڑی اچھی لڑکی بناکر اُٹھایا۔ اور زکریّا کو اس کا سرپرست بنادیا۔  زکریا35 جب کبھی اس کے پاس محراب36 میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔ پوچھتا مریم ! یہ تیرے پاس کہا ں سے آیا؟  وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے۔ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب  دیتا ہے۔ 38 - یہ حال دیکھ کر زکریا نے اپنے رب کو پکارا”پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تُو ہی دُعا سننے والا ہے“۔37 39 - جواب میں فرشتوں نے آواز دی ، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہاتھا، کہ”اللہ تجھے یحی38یٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان39 کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری  و بزرگی کی شان ہو گی۔ کمال   درجہ کا ضابط ہو گا۔ نبّوت سے سرفراز ہو گا  اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔ 40 - زکریّا  نے کہا” پروردگار!میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا، میں تو بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری  بیوی بانجھ  ہے“۔ جواب ملا”ایسا ہی ہوگا،40 اللہ جو چاہتا ہےکرتا ہے“۔ 41 - عرض کیا مالک! پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے۔کہا” 41 نشانی  یہ ہے کہ تم تین دن تک  لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے(یا نہ کر سکو گے)۔ اِس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہنا“۔42  ؏۴


Notes

28. یہاں پہلی ختم ہوتی ہے ۔ اس کے مضمون ، خصُوصاً جنگِ بدر کی طرف جو اشارہ اس میں کیا گیا ہے، اس کے انداز پر غور کرنے سے غالب قیاس یہی ہوتا ہے کہ اس تقریر کے نزول کا زمانہ جنگِ بدر کے بعد اور جنگِ اُحد سے پہلے کا ہے، یعنی سن ۳ ہجری ۔ محمد بن اسحاق کی روایت سے عموماً لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ۸۰ آیتیں و فدِ نجران کی آمد کے موقع پر سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اوّل تو اس تمہیدی تقریر کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ اس سے بہت پہلے نازل ہوئی ہو گی، دُوسرے مُقاتل بن سلیمان کی روایت میں تصریح ہے کہ وفدِ نجران کی آمد پر صرف وہ آیات نازل ہوئی ہیں جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے بیان پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد ۳۰ یا اس سے کچھ زائد ہے۔

29. یہاں سے دُوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے نزول کا زمانہ سن ۹ ہجری ہے، جب کہ نجران کی عیسائی جمہُوریت کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے ۔ اُس وقت اس علاقے میں ۷۳ بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار قابلِ جنگ مرد اس میں سےنِکل سکتے تھے۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیرِ حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا، جس کی حیثیت امیرِ قوم کی تھی۔ دُوسرا سیّد کہلاتا تھا، جو ان کے تمدّنی و سیاسی اُمور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا ُسقُف(بشپ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی۔ جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ فتح کیا اور تمام اہلِ عرب کو یقین ہو گیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد ؐ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے ، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہو گئے۔ اِسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی ٦۰ آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کر تے ہیں یا ذِمّی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفدِ نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے۔

30. عمرا ن حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے والد کا نام تھا، جسے بائیبل میں ”عِمرام“ لکھا ہے۔

31. مسیحیوں کی گمراہی کا تمام تر سبب یہ ہے کہ وہ مسیح کو بندہ اور رسول ماننے کے بجائے اللہ کا بیٹا اور الوہیّت میں اس کا شریک قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کی یہ بنیادی غلطی رفع ہو جائے، تو اِسلام صحیح و خالص کی طرف ان کا پلٹنا بہت آسان ہو جائے۔ اسی لیے اس خطبے کی تمہید یُوں اُٹھائی گئی ہے کہ آدم ؑ اور نُوح ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آلِ عمران کے سب پیغمبر انسان تھے، ایک کی نسل سے دُوسرا پیدا ہوتا چلا آیا، ان میں سے کوئی بھی خدا نہ تھا، ان کی خصُوصیت بس یہ تھی کہ خد انے اپنے دین کی تبلیغ اور دُنیا کی اصلاح کے لیے ان کو منتخب فرمایا تھا۔

32. اگر عمران کی عورت سے مراد”عمران کی بیوی“ لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ عمران نہیں ہیں جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے ، بلکہ یہ حضرت مریم کے والد تھے، جن کا نام شاید عمران ہوگا۔ ( مسیحی روایات میں حضرت مریم کے والد کا نام یو آخیم Ioachim لکھا ہے) اور اگر عمران کی عورت سے مراد آلِ عمران لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ ٴ معلومات نہیں ہے جس سے ہم قطعی طور پر ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے سکیں، کیونکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور ان کی والدہ کس قبیلے کی تھیں۔ البتہ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے کہ حضرت یحییٰ ؑ کی والدہ اور حضرت مریم کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں تو پھر ”عمران کی عورت“ کے معنی قبیلہٴ عمران کی عورت ہی درست ہوں گے ، کیونکہ انجیل لوقا میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارون ؑ کی اولاد سے تھیں (لوقا۵:١)۔

33. یعنی تُو اپنے بندوں کی دعائیں سُنتا ہے اور ان کی نیتوں کے حال سے واقف ہے۔

34. یعنی لڑکا اُن بہت سی فطری کمزوریوں اور تمدّنی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے ، جو لڑکی کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہیں، لہٰذا اگر لڑکا ہوتا تو وہ مقصد زیادہ اچھی طرح حاصل ہو سکتا تھا جس کے لیے میں اپنے بچے کو تیری راہ میں نذر کرنا چاہتی تھی۔

35. اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سِن رُشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عباد ت گاہ (ہیکل) میں داخل کر دی گئیں اور ذکرِ الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پُرانے عہد نامے میں آیا ہے۔

36. لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطحِ زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں، جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدّام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے۔ اسی قسم کےکمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں۔

37. ۳۷ حضرت زکریّا اس وقت تک بے اولاد تھا۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی کو دیکھ کر فطرةً ان کے دل میں یہ تمنّا پیدا ہوئی کہ کاش ، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے، انہیں یہ اُمید ہوئی کہ اللہ چاہے، تو اس بڑھاپے میں بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے۔

38. بائیبل میں ان کا نام ”یوحنا بپتسمہ دینے والا“(John the Baptist) لکھا ہے۔ ان کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو متی باب ۳ و ١١و ١۴۔مرقس باب ١ و ٦ ۔ لوقاباب ١ و ۳ ۔

39. اللہ کے ”فرمان“ سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ چونکہ ان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی فرمان سے خَرقِ عادت کے طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کو قرآن مجید میں ”کَلِمَةٌ مِّنَ اللہ“ کہا گیا ہے۔

40. یعنی تیرے بڑھاپے اور تیری تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود اللہ تجھے بیٹا دے گا۔

41. یعنی ایسی علامت بتا دے کہ جب ایک پیرِ فرتوت اور ایک بوڑھی بانجھ کے ہاں لڑکے کی ولادت جیسا عجیب غیر معمُولی واقعہ پیش آنے والا ہو تو اس کی اطلاع مجھے پہلے سے ہو جائے۔

42. اس تقریر کا اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اِس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح علیہ السّلام کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں۔ تمہید میں حضرت یحییٰ علیہ السّلا م کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح علیہ السّلام کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اُسی طرح اُن سے چھ ہی مہینہ پہلے اُسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دُوسری طرح کے معجزے سے ہو چکی تھی۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیی ٰ ؑ کو ان کی اعجازی ولادت نے الہٰ نہیں بنایا تو مسیح ؑ محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں۔