Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 42-54

وَاِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓـئِكَةُ يٰمَرۡيَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮكِ وَطَهَّرَكِ وَاصۡطَفٰٮكِ عَلٰى نِسَآءِ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿3:42﴾ يٰمَرۡيَمُ اقۡنُتِىۡ لِرَبِّكِ وَاسۡجُدِىۡ وَارۡكَعِىۡ مَعَ الرّٰكِعِيۡنَ‏  ﴿3:43﴾ ذٰ لِكَ مِنۡ اَنۡۢـبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَ​ؕ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَهُمۡ اَيُّهُمۡ يَكۡفُلُ مَرۡيَمَ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ‏ ﴿3:44﴾ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓـئِكَةُ يٰمَرۡيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنۡهُ ۖ اسۡمُهُ الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ وَجِيۡهًا فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَمِنَ الۡمُقَرَّبِيۡنَۙ‏ ﴿3:45﴾ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الۡمَهۡدِ وَكَهۡلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿3:46﴾ قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ وَلَدٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ ​ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ​ ؕ اِذَا قَضٰٓى اَمۡرًا فَاِنَّمَا يَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ ﴿3:47﴾ وَيُعَلِّمُهُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَالتَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ​ۚ‏ ﴿3:48﴾ وَرَسُوۡلًا اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرٰٓءِيۡلَ ۙ اَنِّىۡ قَدۡ جِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ۙۚ اَنِّىۡۤ  اَخۡلُقُ لَـكُمۡ مِّنَ الطِّيۡنِ كَهَیْـئَةِ الطَّيۡرِ فَاَنۡفُخُ فِيۡهِ فَيَكُوۡنُ طَيۡرًاۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ​​ۚ وَاُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ وَاُحۡىِ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ۚ وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَۚ‏ ﴿3:49﴾ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوۡرٰٮةِ وَلِاُحِلَّ لَـكُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ حُرِّمَ عَلَيۡكُمۡ​وَجِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ فَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ‏ ﴿3:50﴾ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّىۡ وَرَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ​ ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ‏  ﴿3:51﴾ فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِيۡسٰى مِنۡهُمُ الۡكُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ​ؕ قَالَ الۡحَـوَارِيُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰهِ​ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ​ۚ وَاشۡهَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿3:52﴾ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ وَاتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿3:53﴾ وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ​ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ‏ ﴿3:54﴾

42 - پھر وہ وقت آیا جب مریم سے فرشتوں نے آکر کہا ”اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تمام دُنیا کی عورتوں پر تجھ کو تر جیح دے کر  اپنی خدمت کے لیے  چُن لیا۔ 43 - اے مریم ! اپنے  رب کی تابع فرمان بن کر رہ،  اس کے آگے سر بسجود  ہو، اور جو بندے اس کے حضور جھکنے  والے ہیں ان کے ساتھ  تو بھی  جھک جا“۔ 44 - اے محمد ؐ ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اُس وقت وہاں موجو د نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سر پرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے،43 اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب اُن کے درمیان  جھگڑا  برپا تھا۔ 45 - اور جب فرشتوں نے کہا”اے مریم ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسٰی ابن مریم ہو گا، دنیا  اور آخرت میں  معزّز ہو گا ، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا، 46 - لوگوں سے گہوار ے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی  عمر کو پہنچ کر بھی ، اور وہ ایک مرد صالح ہو گا“۔ 47 - یہ سُن کر مریم بولی”پروردگار!میرے ہا ں  بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا“۔ جواب ملا”ایسا ہی ہوگا،44 اللہ جو چاھتا ہے  پیدا کر تا ہے۔ وہ جب کسی کا م کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جا تا ہے“۔ 48 - (فرشتوں نے پھر اپنے سلسلئہ کلام میں کہا)”اور اللہ اُسے کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا، تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا 49 - اور بنی اسرئیل کی طرف اپنا رسول مقرر کرے گا“۔ (اور جب وہ بحیثیت  رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تو اس نے کہا)”میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں، وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے  اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور مُردے کو زندہ کرتا ہوں ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کرکے رکھتے ہو۔ اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو ۔45 50 - اور میں اُس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں  جو تو رات میں سے اِس وقت میرے زمانہ میں موجود ہے۔46 اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض اُن چیزوں کو حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں۔47 دیکھو ، میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں ، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 51 - اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، لہٰذا تم  اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے“۔48 52 - جب عیسٰی  نے محسوس کیا کہ بنی اسرئیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا ”کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو تا ہے“؟ حواریوں49 نے جواب دیا”ہم اللہ کے مدد گار ہیں ،50 ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم(اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکادینے والے ) ہیں ۔ 53 - مالک! جو فرمان تُو نے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی قبول کی، ہمارانام گواہی دینے والوں میں لکھ لے“۔ 54 - پھر بنی اسرئیل(مسیح کے خلاف) خفیہ تد بیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی  اور ایسی تدبیر وں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔ ؏۵ 55-63


Notes

43. یعنی قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ حضرت مریم ؑ کی والدہ نے ان کو خدا کےکام کے لیے ہیکل کی نذر کر دیا تھا۔ اور وہ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے یہ ایک نازک مسئلہ بن گیا تھا کہ ہیکل کے مجاوروں میں سے کس کی سرپرستی میں وہ رہیں۔

44. یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم ؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم ؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیح ؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریم ؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ)۔

45. یعنی یہ علامت تم کو اس امر کا اطمینان دلانے کے لیے کافی ہیں کہ میں اُس خدا کا بھیجا ہوا ہوں جو کائنات کا خالق اور حاکمِ ذی اقتدار ہے۔ بشرطیکہ تم حق کو ماننے کے لیے تیار ہو، ہٹ دھرم نہ ہو۔

46. یعنی یہ میرے فرستادہ ٴ خدا ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ اگر میں اُس کی طرف سے بھیجا ہو ا نہ ہوتا بلکہ جھوٹا مدّعی ہوتا تو خود ایک مستقل مذہب کی بنا ڈالتا اور اپنے اِن کمالات کے زور پر تمہیں سابق دین سے ہٹا کر اپنے ایجاد کردہ دین کی طرف لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن میں تو اُسی اصل دین کو مانتا ہوں اور اسی تعلیم کو صحیح قرار دے رہاہوں جو خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر مجھ سے پہلے لائے تھے۔

یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام وہی دین لے کر آئے تھے جو موسیٰ علیہ السّلام اور دُوسرے انبیا ء نے پیش کیا تھا، رائج الوقت اناجیل میں بھی واضح طور پر ہمیں ملتی ہے۔ مثلاً متی کی روایت کے مطابق پہاڑی کے وعظ میں مسیح علیہ السّلام صاف فرماتے ہیں:

”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“۔(۵ : ١۷)

ایک یہُودی عالم نے حضرت مسیح ؑ سے پوچھا کہ احکامِ دین میں اوّلین حکم کونسا ہے؟ جواب میں آپ ؑ نے فرمایا:

”خداوند اپنے خدا سے اپنےسارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دُوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اور انبیا کے صحیفوں کا مدار ہے“۔

پھر حضرت مسیح ؑ اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں:

”فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں ۔ جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو مگر ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔“(متی ۲۳:۲۔۳)

47. یعنی تمہارے جُہلا کے توہّمات ، تمہارے فقیہوں کی قانونی موشگافیوں ، تمہارے رہبانیت پسند لوگوں کے تشدّدات ، اور غیر مسلم قوموں کے غلبہ و تسلّط کی بدولت تمہارے ہاں اصل شریعتِ الہٰی پر جن قیُود کا اضافہ ہوگیا ہے، میں ان کو منسُوخ کروں گیا اور تمہارے لیے وہی چیزیں حلال اور وہی حرام قرار دوں گا جنہیں اللہ نے حلال یا حرام کیا ہے۔

48. اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا علیہم السّلام کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے:

ایک یہ کہ اقتدار ِ اعلیٰ ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویّہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدّن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے ، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ اُس مقتدرِ اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔

تیسرے کہ کہ انسانی زندگی کو حِلّت و حُرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دُوسروں کے عائد کردہ قوانین منسُوخ کر دیے جائیں۔

پس در حقیقت حضرت عیسی ٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دُوسرے انبیا کے مِشن میں یک سرِ مُو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مِشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیّت کے اعتبار سے فرق کیا ہے اُنہوں نے سخت غلطی کی ہے ۔ مالک الملک کی طرف سے اُس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہو سکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دُوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔

افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح علیہ السّلام کے مِشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اُوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے ۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بُنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اُوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اِس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے:

” تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر“(متی۴ : ١۰)

اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصُود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امرِ شرعی کی اُسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امرِ تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے:

”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو“ (متی ٦ :١۰ )

پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدّد اقوال سے معلوم ہوتی ہے ۔ انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہلِ شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا” نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا“۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ” ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو“(لوقا ١۳:۲۳ )۔ آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو خدا وند کے نام سے آتا ہے“۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح ؑ سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چُپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا”اگر یہ چُپ رہیں گے تو پتھر پکار اُٹھیں گے“(لوقا ١۹: ۳۸ ۔۴۰)ایک اور موقع پرآپ نے فرمایا:

”اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آ ؤ ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جو ا اپنے اُوپر اُٹھالو ۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا“۔(متی ١١: ۲۸۔۳۰)

پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السّلام انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اُس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھا لیتے ہیں؟ اس پر حضرت مسیح ؑ نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ”یہ اُمّت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مُجھ سے دُور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں“۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزّت کرو اور جوکوئی ماں باپ کو بُرا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آسکتی تھیں اُنہیں میں خدا کی نذر کر چکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متِی١۵:۳۔۹ ۔ مرقس۷: ۵۔١۳)

49. ”حواری“ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو ہمارے ہاں”انصار“ کا مفہُوم ہے۔ بائیبل میں بالعموم حواریوں کے بجائے ”شاگردوں“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور بعض مقامات پر انہیں رسول بھی کہا گیا ہے ۔ مگر رسول اِس معنی میں کہ مسیح علیہ السّلام ان کو تبلیغ کے لیے بھیجتے تھے، نہ اِسم معنی میں کہ خدا نے ان کو رسُول مقرر کیا تھا۔

50. دینِ اسلام کی اقامت میں حصّہ لینے کو قرآن مجید میں اکثر مقامات پر”اللہ کی مدد کرنے“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے۔ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا کی ہے، اس میں وہ انسان کو کفر یا ایمان ، بغاوت یا اطاعت میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے پر اپنی خدائی طاقت سے مجبُور نہیں کرتا۔ اس کے بجائے وہ دلیل اور نصیحت سے انسان کو اس بات کا قائل کرنا چاہتا ہے کہ انکا ر و نافرمانی اور بغاوت کی آزادی رکھنے کے باوجود اُس کے لیے حق یہی ہے اور اس کی فلاح و نجات کا راستہ بھی یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت اختیار کرے۔ اس طرح فہمائش اور نصیحت سے بندوں کو راہِ راست پر لانے کی تدبیر کرنا، یہ دراصل اللہ کا کام ہے۔ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں اُن کو اللہ اپنا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے ۔ اور یہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہو سکتی ہے۔ نماز، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض بندہ و غلام ہوتا ہے۔ مگر تبلیغِ دین اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں بندے کو خدا کی رفاقت و مددگاری کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں رُوحانی ارتقا کا سب سے او نچا مرتبہ ہے۔