56. یہاں سے ایک تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جس کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ بدر اور جنگِ اُحد کے درمیانی دَور کی ہے۔ لیکن ان تینوں تقریروں کے درمیان مطالب کی ایسی قریبی مناسبت پائی جاتی ہے کہ شروع سُورت سے لے کر یہاں تک کسی جگہ ربطِ کلام ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ اسی بنا پر بعض مفسّرین کو شبہہ ہوا ہے کہ یہ بعد کی آیات بھی وفدِ نجران والی تقریر ہی کے سلسلہ کی ہیں۔ مگر یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کا اندازہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب یہُودی ہیں۔
57. یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کر لو جس پر ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔ تمہارے اپنے انبیا سے یہی عقیدہ منقول ہے۔ تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں اس کی تعلیم موجود ہے۔
58. یعنی تمہاری یہ یہُودیت اور یہ نصرانیت بہر حال تورات اور انجیل کے نزُول کے بعد پیدا ہوئی ہیں، اور ابراہیم علیہ السّلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا۔ پھر اگر حضرت ابراہیم ؑ راہِ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہِ راست پر ہونا اور نجات پانا یہُودیّت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے ۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۳۵ و ۱۴۱)
59. اصل میں لفظ حَنیف استعمال ہوا ہےجس سے مراد ایسا شخص ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک خاص راستہ پر چلے۔ اسی مفہوم کو ہم نے ”مسلمِ یک سُو“ سے ادا کیا ہے۔
60. :دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”تم خود گواہی دیتے ہو“۔ دونوں صُورتوں میں نفسِ معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی، اور صحابہٴ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات ، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قران میں ارشاد ہورہے تھے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتبِ آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوّت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہلِ کتاب(خصُوصاً ان کے اہلِ علم) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیا سے سابقین نے کیا تھا ، حتٰی کہ کبھی کبھی حق کی زبر دست طاقت سے مجبُور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں۔اسی وجہ سے قرآن باربار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو۔