Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 64-71

قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡـئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ​ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿3:64﴾ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ وَمَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰٮةُ وَالۡاِنۡجِيۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِهٖؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿3:65﴾ هٰۤاَنۡـتُمۡ هٰٓؤُلَآءِ حٰجَجۡتُمۡ فِيۡمَا لَـكُمۡ بِهٖ عِلۡمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِيۡمَا لَـيۡسَ لَـكُمۡ بِهٖ عِلۡمٌ​ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿3:66﴾ مَا كَانَ اِبۡرٰهِيۡمُ يَهُوۡدِيًّا وَّلَا نَصۡرَانِيًّا وَّ لٰكِنۡ كَانَ حَنِيۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿3:67﴾ اِنَّ اَوۡلَى النَّاسِ بِاِبۡرٰهِيۡمَ لَـلَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ وَهٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ​ؕ وَاللّٰهُ وَلِىُّ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿3:68﴾ وَدَّتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ لَوۡ يُضِلُّوۡنَكُمؕۡ وَمَا يُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿3:69﴾ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لِمَ تَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَاَنۡـتُمۡ تَشۡهَدُوۡنَ‏  ﴿3:70﴾ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لِمَ تَلۡبِسُوۡنَ الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوۡنَ الۡحَـقَّ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿3:71﴾

64 - کہو، 56”اے اہل کتاب! آؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔57 یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی  نہ کریں، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے“۔۔۔۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف  کہہ دو کہ گواہ رہو۔ ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی  و اطاعت کرنے والے ) ہیں۔ 65 - اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑا کرتے ہو؟  تورات اور انجیل  تو ابراہیم کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں۔پھر کیا تم  اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ 66 - تم58 لوگ  جن چیزوں کا علم  رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرےچلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ 67 - ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی ، بلکہ وہ تو ایک مسلم ِ یکسُو تھا59 اور وہ ہر گز مشرکوں میں سے نہ تھا“۔ 68 - ابراہیمؑ  سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنھوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اِس  نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ صرف اُنہی کا حامی و مدد گا ر ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔ 69 - (اے ایما ن  لانے والو)اہل کتاب میں سے ایک  گروہ  چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹادے، حالانکہ  درحقیقت وہ اپنے سوا کسی کو گمراہی میں نہیں ڈال رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ 70 - اے اہل کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ  تم خود  ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟60 71 - اے اہل کتاب !کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ  بناتے ہو؟ کیوں جانتے بُوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟ ؏۷ 72-80


Notes

56. یہاں سے ایک تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جس کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگِ بدر اور جنگِ اُحد کے درمیانی دَور کی ہے۔ لیکن ان تینوں تقریروں کے درمیان مطالب کی ایسی قریبی مناسبت پائی جاتی ہے کہ شروع سُورت سے لے کر یہاں تک کسی جگہ ربطِ کلام ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ اسی بنا پر بعض مفسّرین کو شبہہ ہوا ہے کہ یہ بعد کی آیات بھی وفدِ نجران والی تقریر ہی کے سلسلہ کی ہیں۔ مگر یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کا اندازہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب یہُودی ہیں۔

57. یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کر لو جس پر ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔ تمہارے اپنے انبیا سے یہی عقیدہ منقول ہے۔ تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں اس کی تعلیم موجود ہے۔

58. یعنی تمہاری یہ یہُودیت اور یہ نصرانیت بہر حال تورات اور انجیل کے نزُول کے بعد پیدا ہوئی ہیں، اور ابراہیم علیہ السّلام جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا۔ پھر اگر حضرت ابراہیم ؑ راہِ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہِ راست پر ہونا اور نجات پانا یہُودیّت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے ۔ (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۳۵ و ۱۴۱)

59. اصل میں لفظ حَنیف استعمال ہوا ہےجس سے مراد ایسا شخص ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک خاص راستہ پر چلے۔ اسی مفہوم کو ہم نے ”مسلمِ یک سُو“ سے ادا کیا ہے۔

60. :دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”تم خود گواہی دیتے ہو“۔ دونوں صُورتوں میں نفسِ معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی، اور صحابہٴ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات ، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قران میں ارشاد ہورہے تھے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتبِ آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوّت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہلِ کتاب(خصُوصاً ان کے اہلِ علم) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیا سے سابقین نے کیا تھا ، حتٰی کہ کبھی کبھی حق کی زبر دست طاقت سے مجبُور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں۔اسی وجہ سے قرآن باربار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو۔