Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 72-80

وَقَالَتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ عَلَى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَجۡهَ النَّهَارِ وَاكۡفُرُوۡۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ​​ۚ​ ۖ‏ ﴿3:72﴾ وَلَا تُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّا لِمَنۡ تَبِعَ دِيۡنَكُمۡؕ قُلۡ اِنَّ الۡهُدٰى هُدَى اللّٰهِۙ اَنۡ يُّؤۡتٰٓى اَحَدٌ مِّثۡلَ مَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ اَوۡ يُحَآجُّوۡكُمۡ عِنۡدَ رَبِّكُمۡ​ؕ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِيَدِ اللّٰهِۚ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ​ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۚۙ‏ ﴿3:73﴾ يَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ ​ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏  ﴿3:74﴾ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡهُ بِقِنۡطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيۡكَ​ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡهُ بِدِيۡنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيۡكَ اِلَّا مَا دُمۡتَ عَلَيۡهِ قَآئِمًا ​ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡا لَيۡسَ عَلَيۡنَا فِىۡ الۡاُمِّيّٖنَ سَبِيۡلٌۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ وَ هُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿3:75﴾ بَلٰى مَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ‏  ﴿3:76﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَشۡتَرُوۡنَ بِعَهۡدِ اللّٰهِ وَاَيۡمَانِهِمۡ ثَمَنًا قَلِيۡلًا اُولٰٓـئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنۡظُرُ اِلَيۡهِمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيۡهِمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿3:77﴾ وَاِنَّ مِنۡهُمۡ لَـفَرِيۡقًا يَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَهُمۡ بِالۡكِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡهُ مِنَ الۡكِتٰبِ​ وَمَا هُوَ مِنَ الۡكِتٰبِۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ وَمَا هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ​ۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ وَ هُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿3:78﴾ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّؤۡتِيَهُ اللّٰهُ الۡكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوۡلَ لِلنَّاسِ كُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّىۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ كُوۡنُوۡا رَبَّانِيّٖنَ بِمَا كُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡكِتٰبَ وَبِمَا كُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَۙ‏ ﴿3:79﴾ وَلَا يَاۡمُرَكُمۡ اَنۡ تَتَّخِذُوا الۡمَلٰٓـئِكَةَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرۡبَابًا​ ؕ اَيَاۡمُرُكُمۡ بِالۡكُفۡرِ بَعۡدَ اِذۡ اَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿3:80﴾

72 - اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہےکہ اس کےنبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صحیح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کردو،  شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں۔61 73 - نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ اے نبی! ان سے کہہ دو کہ”اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی  کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجّت مل جائے“۔ اے نبیؐ ! ان سے کہو کہ ”فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے ، جسے چاہے عطا فرمائے۔ وہ وسیع النظر ہے62 اور سب کچھ جانتا ہے،63 74 - اپنی  رحمت  کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے“۔ 75 - اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیربھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کردے گا، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا اِلّا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتےہیں  ” اُمّیوں (غیر یہودی لوگوں)کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے“۔64 اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے، 76 - آخر کیوں ان سے باز پرس نہ ہو گی؟ جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب  بنےگا، کیونکہ پر ہیز گار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ 77 - رہے  وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی  قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی  حصّہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا،65 بلکہ ان کےلیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔ 78 - ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان  کا اُلٹ پھیر  کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی،66 وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جا ن بوجھ کر  جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ 79 - کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے  کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم  اور نبوت عطا فرما ئے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گاکہ سچّےربّانی بنو67 جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقا ضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھا تےہو۔ 80 - وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کواپنا رب بنا لو، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جب کہ تم  مسلم ہو؟68  ؏۸


Notes

61. یہ اُن چالوں میں سے ایک چال تھی جو اطرافِ مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کے لیڈر اور مذہبی پیشوا اسلام کی دعوت کو کمزور کرنے کے لیے چلتے رہتے تھے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو بد دل کرنے اور ان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عامّہٴ خلائق کو بدگمان کر نے کے لیے خفیہ طور پر آدمیوں کو تیار کر کے بھیجنا شروع کیا تا کہ پہلے علانیہ اسلام قبول کریں، پھر مرتد ہو جائیں ، پھر جگہ جگہ لوگوں میں یہ مشہور کرتے پھریں کہ ہم نے اسلام میں اور مسلمانوں میں اور ان کے پیغمبر میں یہ اور یہ خرابیاں دیکھی ہیں تب ہی تو ہم ان سے الگ ہو گئے۔

62. اصل میں لفظ”واسِع“ استعمال ہوا ہے جو بالعموم قرآن میں تین مواقع پر آیا کرتا ہے۔ ایک وہ موقع جہاں انسانوں کے کسی گروہ کی تنگ خیالی و تنگ نظری کا ذکر آتا ہے اور اُسے اس حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اللہ تمہاری طرح تنگ نظر نہیں ہے ۔ دُوسرا وہ موقع جہاں کسی کے بُخل اور تنگ دلی اور کم حوصلگی پر ملامت کرتے ہوئے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ فراخ دست ہے، تمہاری طرح بخیل نہیں ہے ۔ تیسرا وہ موقع جہاں لوگ اپنے تخیّل کی تنگی کے سبب سے اللہ کی طرف کسی قسم کی محدُود یّت منسُوب کرتے ہیں اور انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ غیر محدُود ہے۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۱۶ )

63. یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ کون فضل و شرف کا مستحق ہے۔

64. یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیا ل نہ تھا ، بلکہ اُن کےہاں کی مذہبی تعلیم بھی یہی کچھ تھی، اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشوا ؤ ں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے۔ بائیبل قرض اور سُود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے (استثناء ١۵:۳۔۲۳:۲۰)۔ تَلموُد میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر ے تو اس پر تاوان ہے۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ کوئی گِری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گردو پیش آبادی کن لوگوں کی ہے۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے ، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے۔ ربّی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر اُمّی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کےپاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جِتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جِتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے۔ اور اگر اُمّیوں کے قانون کے تحت جِتوا سکتا ہو تو اُس کے تحت جِتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کر سکتا ہو کرے۔ ربّی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اُٹھانا چاہیے (تالمودِک مِسّلینی، پال آئزک ہرشون، لندن ١۸۸۰ء ، صفحات ۳۷۔۲١۰۔۲۲١)۔

65. سبب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے ایسے سخت اخلاقی جرائم کر نے کے بعد بھی اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے روز بس یہی اللہ کے مقرب بندے ہوں گے، انہی کی طرف نظر ِ عنایت ہو گی، اور جو تھوڑا بہت گناہوں کا مَیل دنیا میں ان کو لگ گیا ہے وہ بھی بزرگوں کے صدقے میں ان پر سے دھو ڈالا جائے گا، حالانکہ دراصل وہاں ان کے ساتھ بالکل برعکس معاملہ ہو گا۔

66. “اس کا مطلب اگرچہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کتابِ الٰہی کے معانی میں تحریف کرتے ہیں، یا الفاظ کا اُلٹ پھیر کر کے کچھ سے کچھ مطلب نکالتے ہیں، لیکن اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب کو پڑھتے ہوئے کسی خاص لفظ یا فقرے کو، جو اُن کے مفاد یا اُن کے خود ساختہ عقائد و نظریات کے خلاف پڑتا ہو، زبان کی گردش سے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ اس کی نظیریں قرآن کو ماننے والے اہلِ کتاب میں بھی مفقود نہیں ہیں۔ مثلاً بعض لوگ جو نبی کی بشریّت کے منکر ہیں آیت قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ میں اِنَّمَا کو اِنَّ مَا پڑھتے ہیں اور اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ”اے نبی!کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا“۔

67. یہودیوں کے ہاں جو علماء مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے اور جن کا کام مذہبی اُمُور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کے قیام اور احکامِ دین کا اجراء کرنا ہوتا تھا، ان کے لیے لفظ رَبَّانِی استعمال کیا جا تا تھا جیسا کہ خود قرآن میں ارشاد ہوا ہے لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ و َ الْاَ حْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْت (ان کے ربّانی اور ان کے علماء ان کو گناہ کی باتیں کرنے اور حرام کے مال کھانے سے کیوں نہ روکتے تھے)۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں لفظ ( Divine ) بھی ”ربّانی “ کا ہی ہم معنی ہے۔

68. یہ اُن تمام غلط باتوں کی ایک جامع تردید ہے جو دُنیا کی مختلف قوموں نے خدا کی طرف سے آئے ہوئے پیغمبروں کی طرف منسُوب کر کے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کر دی ہیں اور جن کی رُو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ کسی نہ کسی طرح خدا اور معبُود قرار پاتا ہے ۔ ان آیات میں یہ قاعدہ ٴ کلیہ بتایا گیا ہے کہ ایسی کوئی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی و پرستش سکھاتی ہو اور کسی بندے کو بندگی کی حد سے بڑھا کر خدائی کے مقام تک لے جاتی ہو ، ہر گز کسی پیغمبر کی دی ہوئی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ جہاں کسی مذہبی کتاب میں یہ چیز نظر آئے، سمجھ لو کہ یہ گمراہ کُن لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔