69. مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اُس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامُور ہوئے ہو ، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا۔ اُس کے ساتھ تعصّب نہ برتنا، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا، حق کی مخالفت نہ کرنا، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اُٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمّت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں ، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی اُمّت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔
70. اِس ارشاد سے مقصُود اہلِ کتاب کو متنبہ کرنا ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ رہے ہو ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور ان کی مخالفت کر کے اُس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہو، جو تمہارے انبیاء سے لیا گیا تھا، لہٰذا اب تم فاسق ہو چکے ہو، یعنی اللہ کی اطاعت سے نِکل گئے ہو۔
71. یعنی تمام کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا دین تو یہی اسلام ، یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے ، اب تم اس کائنات کے اندر رہتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر کونسا طریقہ ٴ زندگی تلاش کر رہے ہو؟
72. یعنی ہمارا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی نبی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں، کسی کو جھُوٹا کہیں اور کسی کو سچّا۔ ہم تعصّب اور حمیّتِ جاہلیّہ سے پاک ہیں۔ دُنیا میں جہاں ، جو اللہ کا بندہ بھی اللہ کی طرف سے حق لے کر آیا ہے ، ہم اس کے بر حق ہونے پر شہادت دیتے ہیں۔
73. یہاں پھر اُسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سےاس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی ِ برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصّب، ضد اور دُشمنیِ حق کی اُس پُرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرام چلے آرہے تھے۔
74. یعنی صرف انکار ہی پر بس نہ کی بلکہ عملاً مخالفت و مزاحمت بھی کی، لوگوں کو خدا کے راستہ سے روکنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا ، شبہات پیدا کیے، بدگمانیاں پھیلائیں ، دلوں میں وسوسے ڈالے، اور بدترین سازشیں اور ریشہ دوانیاں کیں تا کہ نبی کا مِشن کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔