Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 81-91

وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيۡتُكُمۡ مِّنۡ كِتٰبٍ وَّحِكۡمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمۡ لَـتُؤۡمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنۡصُرُنَّهٗ ​ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَاَخَذۡتُمۡ عَلٰى ذٰ لِكُمۡ اِصۡرِىۡ​ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ​ؕ قَالَ فَاشۡهَدُوۡا وَاَنَا مَعَكُمۡ مِّنَ الشّٰهِدِيۡنَ‏  ﴿3:81﴾ فَمَنۡ تَوَلّٰى بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏ ﴿3:82﴾ اَفَغَيۡرَ دِيۡنِ اللّٰهِ يَبۡغُوۡنَ وَلَهٗۤ اَسۡلَمَ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّكَرۡهًا وَّاِلَيۡهِ يُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿3:83﴾ قُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَ وَ اِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَمَاۤ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى وَ عِيۡسٰى وَالنَّبِيُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّهِمۡ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ وَنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿3:84﴾ وَمَنۡ يَّبۡتَغِ غَيۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِيۡنًا فَلَنۡ يُّقۡبَلَ مِنۡهُ​ ۚ وَهُوَ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ﴿3:85﴾ كَيۡفَ يَهۡدِى اللّٰهُ قَوۡمًا كَفَرُوۡا بَعۡدَ اِيۡمَانِهِمۡ وَشَهِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿3:86﴾ اُولٰٓـئِكَ جَزَآؤُهُمۡ اَنَّ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةَ اللّٰهِ وَالۡمَلٰٓـئِكَةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿3:87﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ​ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمُ الۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ يُنۡظَرُوۡنَۙ‏  ﴿3:88﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ وَاَصۡلَحُوۡا  فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿3:89﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بَعۡدَ اِيۡمَانِهِمۡ ثُمَّ ازۡدَادُوۡا كُفۡرًا لَّنۡ تُقۡبَلَ تَوۡبَتُهُمۡ​ۚ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الضَّآ لُّوۡنَ‏ ﴿3:90﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَمَاتُوۡا وَهُمۡ كُفَّارٌ فَلَنۡ يُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِهِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افۡتَدٰى بِهٖ ؕ اُولٰٓـئِكَ لَـهُمۡ عَذَابٌ اَلِـيۡمٌۙ وَّمَا لَـهُمۡ مِّـنۡ نّٰصِـرِيۡنَ‏ ﴿3:91﴾

81 - یاد کرو ، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ” آج ہم نے تمہیں کتاب اور  حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر  کوئی  دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کر تا ہو ا آئےجو  پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی  مدد کرنی ہو گی“۔69 یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا” کیا تم اس کا اقرا ر کرتے ہو  اور اس پر میری  طرف سے عہد کی بھاری ذمّہ داری اٹھاتے ہو؟“ انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ”اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ  ہوں، 82 - اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔70 83 - اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطا عت  کے طریقہ (دینُُ اللہ)کوچھوڑ کر  کوئی  اور طریقہ  چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چارو ناچاراللہ ہی کے تابع فرمان(مسلم) ہیں71 اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ 84 - اے نبی ؐ!کہو کہ اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراھیم ؑ،اسماعیل  ؑ، اسحاق ؑ، یعقوب   ؑ اور اولاد یعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰؑ اور عیسٰیؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان  کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں  کرتے 72اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم) ہیں۔ 85 - اس فرماں برداری (اسلام)کے سوا جو شخص  کوئی  اور طریقہ اختیار کرے گا وہ   ہرگز  قبول نہ کیا جا ئے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد گا۔ 86 - کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمتِ ایمان پا لینے  کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ  وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی  آچکی ہیں۔73 اللہ ظالموں کو تو ہدایت  نہیں دیا کرتا۔ 87 - ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے ، 88 - اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ا ن کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ  انھیں مہلت دی جائے گی۔ 89 - البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اس کے بعد توبہ کر کے اپنے طرزِ عمل کی اصلاح  کر لیں، اللہ بخشنے  والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 90 - مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر  اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے74 ان کی توبہ بھی قبو ل نہ ہو گی، ایسے لوگ تو پکّے گمراہ ہیں۔ 91 - یقین رکھو، جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی  ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے رُوئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اُسے قبول نہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگا ر نہ پائیں گے۔  ؏۹


Notes

69. مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اُس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامُور ہوئے ہو ، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا۔ اُس کے ساتھ تعصّب نہ برتنا، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا، حق کی مخالفت نہ کرنا، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اُٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا۔

یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمّت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں ، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی اُمّت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔

70. اِس ارشاد سے مقصُود اہلِ کتاب کو متنبہ کرنا ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ رہے ہو ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور ان کی مخالفت کر کے اُس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہو، جو تمہارے انبیاء سے لیا گیا تھا، لہٰذا اب تم فاسق ہو چکے ہو، یعنی اللہ کی اطاعت سے نِکل گئے ہو۔

71. یعنی تمام کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا دین تو یہی اسلام ، یعنی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے ، اب تم اس کائنات کے اندر رہتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر کونسا طریقہ ٴ زندگی تلاش کر رہے ہو؟

72. یعنی ہمارا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی نبی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں، کسی کو جھُوٹا کہیں اور کسی کو سچّا۔ ہم تعصّب اور حمیّتِ جاہلیّہ سے پاک ہیں۔ دُنیا میں جہاں ، جو اللہ کا بندہ بھی اللہ کی طرف سے حق لے کر آیا ہے ، ہم اس کے بر حق ہونے پر شہادت دیتے ہیں۔

73. یہاں پھر اُسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سےاس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی ِ برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصّب، ضد اور دُشمنیِ حق کی اُس پُرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرام چلے آرہے تھے۔

74. یعنی صرف انکار ہی پر بس نہ کی بلکہ عملاً مخالفت و مزاحمت بھی کی، لوگوں کو خدا کے راستہ سے روکنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا ، شبہات پیدا کیے، بدگمانیاں پھیلائیں ، دلوں میں وسوسے ڈالے، اور بدترین سازشیں اور ریشہ دوانیاں کیں تا کہ نبی کا مِشن کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔