Tafheem ul Quran

Surah 3 Ali 'Imran, Ayat 92-101

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ  وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ‏ ﴿3:92﴾ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِيۡلُ عَلٰى نَفۡسِهٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰٮةُ ​ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿3:93﴾ فَمَنِ افۡتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿3:94﴾ قُلۡ صَدَقَ اللّٰهُ​ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿3:95﴾ اِنَّ اَوَّلَ بَيۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَـلَّذِىۡ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّلۡعٰلَمِيۡنَ​​ۚ‏ ﴿3:96﴾ فِيۡهِ اٰيٰتٌ ۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰهِيۡمَۚ  وَمَنۡ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ​ؕ وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ​ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿3:97﴾ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لِمَ تَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۖ وَاللّٰهُ شَهِيۡدٌ عَلٰى مَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿3:98﴾ قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ تَبۡغُوۡنَهَا عِوَجًا وَّاَنۡتُمۡ شُهَدَآءُ ​ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿3:99﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوۡا فَرِيۡقًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ يَرُدُّوۡكُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ كٰفِرِيۡنَ‏ ﴿3:100﴾ وَكَيۡفَ تَكۡفُرُوۡنَ وَاَنۡـتُمۡ تُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَفِيۡكُمۡ رَسُوۡلُهٗ ​ؕ وَمَنۡ يَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ هُدِىَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏  ﴿3:101﴾

92 - تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے  جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کر دو جنہیں تم عزیز  رکھتے ہو،75  اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا- 93 - کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعتِ محمد ؐ ی میں حلال ہیں) بنی اسرئیل کے لیے بھی حلال تھیں،76 البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں تورات  کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل77 نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو، اگر تم (اپنے اعتراض میں) سچّے ہو تو لاؤ تورات  اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت۔ 94 - اس کے بعد بھی جو لوگ اپنی جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں اللہ کی طرف منسوب کرتے رہیں وہی درحقیقت ظالم ہیں۔ 95 - کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے،تم کو یکسُو  ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی  کرنی چاہیے، اور ابراہیم ؑ  شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔78 96 - بے شک سب سے پہلی عبادت گا ہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی  ہے جو مکّہ میں  واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ 79 97 - اس میں کھلی ہوئی  نشانیاں ہیں،80 ابراہیم ؑ  کا مقام عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون 81ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیر وی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جا نا چاہیے کہ اللہ تما م دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ 98 - کہو، اے اہل کتاب! تم کیوں اللہ کی باتیں ماننے سے انکار کرتے ہو؟ جو حرکتیں تم کر رہے ہو اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ 99 - کہو ، اے اہل کتاب! یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے، حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر )گواہ ہو۔ تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں ہے۔ 100 - اے لوگوجو ایمان لائے ہو،  اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف  پھیرلے جائیں گے۔ 101 - تمہارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے جب کہ تم کو اللہ کی آیا ت  سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول ؐ موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پالےگا۔ ؏١۰


Notes

75. اس سے مقصُود اُن کی اس غلط فہمی کو دُور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصوّر بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اُتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اُوپری سطح سے نیچے بالعمُوم یہُودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیُوب چھّپائے ہوئے تھے اور رائے عام اُن کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے اُنھیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام اُن چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل رُوح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بُت ہے اور جب تک اُ س بُت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اُس پر بند ہیں۔ اس رُوح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اُس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھُن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا۔

76. قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب علماءیہُود کوئی اُصُولی اعتراض نہ کر سکے(کیونکہ اساسِ دین جن اُموُر پر ہے اُن میں انبیاء سابقین کی تعلیمات اور نبی ِ عربی ؐ کی تعلیم میں یک سر مُو فرق نہ تھا) تو اُنہوں نے فقہی اعتراضات شروع کیے۔ اس سلسلہ میں ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے کھانے پینے کی بعض ایسی چیزوں کو حلا ل قرار دیا ہے جو پچھلے انبیاء کے زمانہ سے حرام چلی آرہی ہیں۔ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جا رہا ہے۔

77. ”اسرائیل“ سے مُراد اگر بنی اسرائیل لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ نزولِ توراة سے قبل بعض چیزیں بنی اسرائیل نے محض رسماً حرام قرار دے لی تھیں۔ اور اگر اس سے مراد حضرت یعقوب ؑ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنجناب نے بعض چیزوں سے طبعی کراہت کی بنا پر یا کسی مرض کی بنا پر احتراز فرمایا تھا اور ان کی اولاد نے بعد میں اُنہیں ممنوع سمجھ لیا۔ یہی موخر الذکر روایت زیادہ مشہور ہے۔ اور بعد والی آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اُونٹ اور خرگوش وغیرہ کی حُرمت کا جو حکم بائیبل میں لکھا ہے وہ اصل توراة کا حکم نہیں ہے بلکہ یہودی علماء نے بعد میں اسے داخل ِ کتاب کر دیا ہے۔(مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سورہٴ انعام حاشیہ نمبر ۱۲۲)۔

78. مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو ۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہوگئے۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملّتِ ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔

79. یہودیوں کا دُوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدِس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا، حالانکہ پچھلے انبیا کا قبلہ بیت المقدِس ہی تھا۔ اس کا جواب سُورہ بقرہ میں دیا جا چکا ہے ۔ لیکن یہُودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مُصِر رہے۔ لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیاہے۔ بیت المقدِس کے متعلق خود بائیبل ہی کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ نے اس کو تعمیر کیا (١۔سلاطین، باب ٦۔آیت ١)۔ اور حضرت سلیمان ؑ ہی کے زمانہ میں وہ قبلہٴ اہلِ توحید قرار دیا گیا(کتاب مذکور، باب ۸، آیت ۲۹۔۳۰)۔ برعکس اس کے یہ تمام عرب کی متواتر اور متفق علیہ روایات سے ثابت ہے کہ کعبہ کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا ، اور وہ حضرت موسیٰ ؑ سے آٹھ نو سو برس پہلے گزرے ہیں ۔ لہٰذا کعبہ کی اوّلیت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں۔

80. یعنی اس گھر میں ایسی صریح علامات پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جناب میں مقبول ہوا ہے اور اسے اللہ نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہے۔ لق و دق بیابان میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس کے جوار میں رہنے والوں کی رزق رسانی کا بہتر سے بہتر انتظام کر دیا۔ ڈھائی ہزار برس تک جاہلیّت کے سبب سے سارا ملکِ عرب انتہائی بد امنی کی حالت میں رہا ، مگرا س فساد بھری سر زمین میں کعبہ اور اطرافِ کعبہ ہی کا ایک خِطّہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا۔ بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسّر آ جاتا تھا۔ پھرابھی نصف صدی پہلے ہی سب دیکھ چکے ہیں کہ اَبرَہہ نے جب کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج کس طرح قہر الہٰی کی شکار ہوئی۔ اس واقعہ سے اُس وقت عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اور اس کے چشم دید شاہد اِن آیات کے نزول کے وقت موجود تھے۔

81. جاہلیّت کے تاریک دَور میں بھی اس گھر کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دُشمن ایک دُوسرے کو وہاں دیکھتے تھے اور ایک کو دُوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جراٴ ت نہ ہوتی تھی۔

82. یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو۔