Tafheem ul Quran

Surah 30 Ar-Rum, Ayat 1-10

الٓمّٓ ۚ‏ ﴿30:1﴾ غُلِبَتِ الرُّوۡمُۙ‏ ﴿30:2﴾ فِىۡۤ اَدۡنَى الۡاَرۡضِ وَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِهِمۡ سَيَغۡلِبُوۡنَۙ‏ ﴿30:3﴾ فِىۡ بِضۡعِ سِنِيۡنَ ؕ لِلّٰهِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَمِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَيَوۡمَـئِذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ‏ ﴿30:4﴾ بِنَصۡرِ اللّٰهِ​ؕ يَنۡصُرُ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُۙ‏  ﴿30:5﴾ وَعۡدَ اللّٰهِ​ؕ لَا يُخۡلِفُ اللّٰهُ وَعۡدَهٗ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿30:6﴾ يَعۡلَمُوۡنَ ظَاهِرًا مِّنَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ​ۖۚ وَهُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَةِ هُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿30:7﴾ اَوَلَمۡ يَتَفَكَّرُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى​ؕ وَ اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمۡ لَـكٰفِرُوۡنَ‏ ﴿30:8﴾ اَوَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ كَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَعَمَرُوۡهَاۤ اَكۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡهَا وَجَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ​ ؕ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظۡلِمَهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ ؕ‏ ﴿30:9﴾ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيۡنَ اَسَآءُوا السُّوۡٓآٰى اَنۡ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَكَانُوۡا بِهَا يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿30:10﴾

1 - ا۔ل۔م 2 - رومی مغلوب ہو گئے ہیں، 3 - قریب کی سر زمین میں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد وہ غالب ہو جائیں گے۔1 4 - چند سال کے اندر، اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔2 اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ مسلمان خوشیاں منائیں گے۔3 5 - اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر، اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے ، اور وہ زبر دست اور رحیم ہے ۔ 6 - یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 7 - لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں4 8 - کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟5 اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔6 مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔7 9 - اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟8 وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا9 اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا ہے۔10 ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔11 پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔12 10 - آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت برا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان کا مزاق اڑاتے تھے۔ ؏۱


Notes

1. ابن عباس ؓ اور دوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روم و ایران کی اس لڑائی میں مسلمانو ں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفار کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ ایرانیوں نے اس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کر کے اسےمجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے تھے۔ بیت المَقْدِس کی فتح کے بعد خسرو پرویز نے جو خط قیصر روم کو لکھا تھا اس میں صاف طور پر وہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتا ہے۔ اُصُولی اعتبار سے مجوسیوں کا مذہب مشرکینِ مکّہ کے مذہب سے ملتا جلتا تھا، کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے، دو خداؤں کو مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔ اس لیے مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ ان کے مقابلہ میں مسیحی خواہ کتنے ہی مبتلائے شرک ہو گئے ہوں، مگر وہ خدا کی توحید کو اصلِ دین مانتے تھے، آخرت کے قائل تھے ، اور وحی و رسالت کو سر چشمۂ ہدایت تسلیم کرتے تھے۔ اس بنا پر ان کا دین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے دین سے مشابہت رکھتا تھا، اور اسی لیے مسلمان قدرتی طور پر ان سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر مشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اُصُولًا مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اس کا انکار نہ کر دیں، ان کا شمار مسلمانوں ہی میں رہتا ہے (ملاحظہ ہو سورۂ قَصص، حاشیہ ۷۳)۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر صرف پانچ چھ برس ہی گزرے تھے، اور حضورؐ کی دعوت ابھی تک باہر نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے مسلمان عیسائیوں کا شمار کافروں میں نہیں کرتے تھے۔ البتہ یہودی ان کی نگاہ میں کافر تھے، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر چکے تھے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ آغازِ اسلام میں عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ہی کا برتاؤ ہُوا تھا جیسا کہ سورۂ قصص آیات ۵۲ تا ۵۵، اور سورۂ مائدہ آیات ۸۲ تا ۸۵ میں بیان ہُوا ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے دل سے دعوت حق کو قبول کر رہے تھے۔ پھر ہجرت حبشہ کے موقع پر جس طرح حبش کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کی واپسی کے لیے کفارِ مکّہ کے مطالبے کو ٹھکرا دیا اس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ مسلمان مجوسیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کے خیر خواہ ہوں۔

2. یعنی پہلے جب ایرانی غالب آئے تو اس بنا پر نہیں کہ معاذ اللہ خداوندِ عالم ان کے مقابلے میں شکست کھا گیا، اور بعد میں جب رومی فتحیاب ہوں گے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا کھویا ہوا ملک مِل جائے گا۔ فرمانروائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے ۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ ہی نے فتح دی، اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا۔ اس کی خدائی میں کوئی اپنے زور سے غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ جسے وہ اُٹھاتا ہے وہی اُٹھتا ہے اور جسے وہ گراتا ہے وہی گرتا ہے۔

3. ابن عباسؓ ابو سعید خُدری ؓ، سفیان ثَوریؒ ، سُدِّیؒ وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پر رومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پر مسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا، اس لیے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی۔ یہ بات ایران اور روم کی تاریخوں سے بھی ثابت ہے۔ سن ۶۲۴ء ہی وہ سال ہے جس میں جنگِ بد ر ہوئی، اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصرِ روم نے زرتشت کا مؤلد تباہ کیا اور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسما ر کر دیا۔

4. یعنی اگرچہ آخرت پر دلالت کرنے والے آثار و شواہد کثرت سے موجود ہیں اور اس سے غفلت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، لیکن یہ لوگ اس سے خود ہی غفلت برت رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ، یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے کہ دنیوی زندگی کے اس ظاہری پردے پر نگاہ جما کر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے پیچھے جو کچھ آنے والا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں، ورنہ خدا کی طرف سے ان کو خبردار کر نے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔

5. یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دَوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں:

ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اِسے اپنی راہِ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان اور کفر، طاعت اور معصیت، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔ حق اور باطل ، صحیح اور غلط ، جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے ، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔

تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتا ہے ، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے ، اور بداہتًہ یہ رائے قائم کر تا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور بُرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ یہ تینوں خصوصیتیں جو انسا ن کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادیئ انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور بُرے عمل پر سزا دی جائے ۔ یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامۂ زندگی ختم اور اس کا دفترِ عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ اور یہ وقت لازماً اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفتر ِ عمل بند ہو۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک قوم کے مر جانے پر اُن اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑ ے ہیں۔ اُس کے چھوڑے ہوئے اچھے بُرے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہییں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طورپر ظاہر نہ ہو لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے، اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامۂ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔

6. اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظامِ کائنات کو بنظرِ غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی:

ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے ، جس کا ایک ایک ذرّہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدّن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کر سکا ہے۔ ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پُتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہو تا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدّن کا تصوّر تک نہ کیا جا سکتا تھا۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اِس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلیٰ درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر، اختیارات دے کر، آزادیٔ انتخاب دے کر، اخلاق کی حِس دے کر اپنی دنیا کا بے شمار سروسامان تمہارے حوالے کیا ہے، اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کر دیا ہوگا؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب، اور نیکی و بدی، اور ظلم و عدل، اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے برپا کر نے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے اور تمہارے کسی اچھے اور بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بے شمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفترِ عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا بُرد کر دیا جائے گا؟ دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ ایک وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں ، اور کسی وقت پر انہیں لامحالہ خرچ ہوجانا اور اس نظام کو ختم ہو جانا ہے۔ قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث اُن فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔ مگر موجودہ سائنس نے عالَم کے حدوث و قِدَم کی اُس بحث میں ، جو ایک مدّتِ دراز سے دہریوں اور خداپرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی، قریب قریب حتمی طور پر اپنا ووٹ خداپرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے۔ اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔ پرانی مادّہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا، صرف صورت بدلی جا سکتی ہے، مگر ہر تغیّر کے بعد مادّہ مادّہ ہی رہتاہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالَمِ مادّی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن اب جوہری توانائی (Atomic Energy ) کے انکشافات نے اس پورے تخیل کی بساط اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوّت مادّے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھر قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولیٰ۔ اب حَرکیاتِ حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermo-Dynamics ) نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ عالَم مادّی نہ ازلی ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو لازمًا ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔ اس لیے سائنس کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کِن ٹانگوں پر اُٹھ کر قیامت کا انکار کرے گا؟

7. یعنی اس بات کے منکر کہ انہیں مرنے کے بعد اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

8. یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے ، یا اس سے غافل ہو کر رہی ہیں، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایے غلط عقیدے ایجاد کر لیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکارِ آخرت جس صور ت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے ، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر شتر بے مہار بن گئے، انہوں ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کر دی، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ، جو پے در پے انسانی نسلوں کو پیش آتا رہا ہے، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کا اسی لیے تو قائل ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادّی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔ انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو مانا ہے کہ جس نے بھی زہر کھایا وہ ہلاک ہوا۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کاموجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟

9. اصل میں لفظ اَثَارُو ا الْاَرْضَ استعمال ہو ا ہے ۔ اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پر بھی ہو سکتا ہے اور زمین کھود کر زیرِ زمین پانی، نہریں، کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پر بھی۔

10. اس میں اُن لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قوم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال (Exploit ) کیا ہے، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدّن کو جنم دیا ہے ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ ان کو جہنم کا ایندھن بنا دے۔ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ ”تعمیری کام“ پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پر کیے ہیں، پھر کیا تمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن سمیت پیوند ِ خاک ہو گئیں اور ان کی ”تعمیر“ کا قصرِ فلک بوس زمین پر آرہا؟ جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ ٔ حق اور اخلاقِ صالحہ کے بغیر محض مادّی تعمیر کی یہ قدر کی ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے؟

11. یعنی ایسی نشانیاں لے کر آئے جو ان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔ اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں ، اور اس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں، اور انسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں، اور دوسری طرف پے درپے ایسے انبیاء بھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی ہیں اور انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا کہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔

12. یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پر آئی وہ ان پر خدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوں نے اپنے اوپر کیا۔ جو شخص یا گروہ نہ خود سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرے اس پر اگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔ خدا پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ خدا نے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے ، اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔ اِس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اور اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دوچار ہونا پڑتا تب بلاشبہ خدا پر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔