Tafheem ul Quran

Surah 30 Ar-Rum, Ayat 11-19

اَللّٰهُ يَـبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ ثُمَّ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ‏  ﴿30:11﴾ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يُبۡلِسُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿30:12﴾ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ مِّنۡ شُرَكَآئِهِمۡ شُفَعٰٓؤُا وَكَانُوۡا بِشُرَكَآئِهِمۡ كٰفِرِيۡنَ‏ ﴿30:13﴾ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ يَوۡمَـئِذٍ يَّتَفَرَّقُوۡنَ‏ ﴿30:14﴾ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَهُمۡ فِىۡ رَوۡضَةٍ يُّحۡبَرُوۡنَ‏ ﴿30:15﴾ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَآئِ الۡاٰخِرَةِ فَاُولٰٓـئِكَ فِى الۡعَذَابِ مُحۡضَرُوۡنَ‏ ﴿30:16﴾ فَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ حِيۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَحِيۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ‏ ﴿30:17﴾ وَلَـهُ الۡحَمۡدُ فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَعَشِيًّا وَّحِيۡنَ تُظۡهِرُوۡنَ‏  ﴿30:18﴾ يُخۡرِجُ الۡحَـىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَيُخۡرِجُ الۡمَيِّتَ مِنَ الۡحَـىِّ وَيُحۡىِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ​ؕ وَكَذٰلِكَ تُخۡرَجُوۡنَ‏ ﴿30:19﴾

11 - اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے ، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا،13 پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔ 12 - اور جب وہ ساعت14 برپا ہو گی اس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے ،15 13 - ان کے ٹھیر ائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا 16 اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے ۔17 14 - جس روز ساعت برپا ہوگی، اس دن (سب انسان)الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔18 15 - جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایک باغ میں19 شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔20 16 - اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے21 وہ عذاب میں حاضررکھے جائیں گے۔ 17 - 22 پس تسبیح کرو اللہ کی23 جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔ 18 - آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے۔ اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے۔24 19 - وہ زندہ میں سے مردے کو نکالتا ہے اور مردے میں سے زندہ کو نکال لاتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔25 اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے)نکال لیے جاؤ گے۔؏۲


Notes

13. یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگر اس میں خود دلیلِ دعویٰ بھی موجود ہے۔ صریح عقل اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہو اس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اَولیٰ ممکن ہے۔ خلق کی ابتدا تو ایک امرِ واقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے۔ اور کفار و مشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے ۔ اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نا معقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے، اس کا اعادہ نہیں کر سکتا۔

14. یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے اور اس کے حضور پیش ہونے کی ساعت۔

15. اصل میں لفظ اِبْلَاس استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بنا پر کسی شخص کا گُم سُم ہو جانا، امید کے سارے راستے بند پا کر حیران و ششدر رہ جانا، کوئی حجت نہ پا کر دم بخود رہ جانا ۔ یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے تو ذہن کے سامنے اس کی یہ تصویر آتی ہے کہ ایک شخص عین حالتِ جُرم میں بھرے ہاتھوں (Red-handed ) پکڑا گیا ہے، نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے، نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کر کے بچ نکلنے کی توقع رکھتا ہے، اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل، چوری، ڈاکے اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں، بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، آخرت کی جواب دہی کے منکر یا اس سے بے فکر رہے ہیں، اور دنیا میں خدا کے بجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتے رہے ہیں، خوا ہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتا ہے۔ مزید براں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر، اس کے رسولوں پر ایمان لا کر، آخرت کا اقرار کر کے پھر دانستہ اپنے ربّ کی نافرمانیاں کی ہیں اور آخر وقت تک اپنی اس باغیانہ روش پر ڈٹے رہے ہیں۔ یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالمِ آخرت میں یکایک جی اُٹھیں گے اور دیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دوسری زندگی پیش آگئی ہے جس کا انکار کر کے، یا جسے نظر انداز کر کے وہ دنیا میں کام کرتے رہے تھے، تو ان کے حواس باختہ ہو جائیں گے اور وہ کیفیت ان پر طاری ہو گی جس کا نقشہ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔

16. شُرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پر ہوتا ہے۔ ایک ملائکہ، انبیاء، اولیاء اور شہداء و صالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے کر ان کے آگے مراسمِ عبودیت انجام دیے ہیں۔ وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر، بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو، اس لیے ہمارا تم سے کوئی واسطہ نہیں ، ہم سے کوئی امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض و معروض کریں گے۔ دوسری قسم اُن اشیاء کی ہے جو بے شعور یا بے جان ہیں، جیسے چاند ، سورج، سیّارے ، درخت، پتھر اور حیوانات وغیرہ۔ مشرکین نے ان کو خدا بنایا اور ان کی پرستش کی اور ان سے دعائیں مانگیں، مگر وہ بے چارے بے خبر ہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیاز مندیاں ان کے لیے وقف فر ما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہو گا۔ تیسری قسم اُن اکابر مجرمین کی ہے جنہوں نے خود کوشش کر کے، مکر و فریب سے کام لے کر ، جھوٹ کے جال پھیلا کر، یا طاقت استعمال کر کے دنیا میں خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائی، مثلاً شیطان ، جھوٹے مذہبی پیشوا، اور ظالم و جابر حکمراں وغیرہ۔ یہ وہاں خود گرفتارِ بلا ہوں گے، اپنے اِن بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھنا تو درکنار، اُن کی تو اُلٹی کوشش یہ ہو گی کہ اپنے نامۂ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور داورِ محشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں، ان کی گمراہی کا وبال ہم پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرح سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی۔ -

17. یعنی اُس وقت یہ مشرکین خود اس بات کا اقرار کر یں گے کہ ہم ان کو خدا کا شریک ٹھیرانے میں غلطی پر تھے۔ ان پر یہ حقیقت کُھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصّہ نہیں ہے ، اس لیے جس شرک پر آج وہ دنیا میں اصرار کر رہے ہیں ، اسی کا وہ آخرت میں انکار کریں گے۔

18. یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم، نسل، وطن ، زبان، قبیلہ و برادری، اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ، اُس روز ٹوٹ جائیں گی، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری جگہ گروہ بندی ہوگی۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہو گا۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اِس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہو گی اور اجتماع بھی۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھے والے ایک امت ہیں، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں ، اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں ، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہو سکتاہے۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھہ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظ ِ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسری ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے ، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام ِ زندگی ہو نا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں۔ یہی تخیل ابو جہل اور ابو لہب اور سردارانِ قریش کا تھا، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آکر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کر رہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھہ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اُسی عقیدے اور نظریۂ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہونے و الی ہے جس پر اسلام دنیا کی اِس زندگی میں کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہو سکتی ہے۔

19. ”ایک باغ“ کا لفظ یہاں اُس باغ کی عظمت و شان کا تصوّر دلانے کے لیے استعمال ہو ا ہے۔ عربی زبان کی طرح اردو میں بھی یہ اندازِ بیان اس غرض کے لیے معروف ہے ۔ جیسے کوئی شخص کسی کو ایک بڑا اہم کام کرنے کو کہے اور اس کے ساتھ یہ کہے کہ تم نے یہ کام اگر کر دیا تو میں تمہیں ”ایک چیز“ دوں گا، تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز عدد کے لحاظ سے ایک ہو گی، بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے انعام میں تم کو ایک بڑی قیمتی چیز دوں گا جسے پا کر تم نہال ہو جاؤ گے۔

20. اصل میں لفظ یُحْبَرُوْنَ استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں مسرّت، لذت، شان و شوکت اور تکریم کے تصوّرات شامل ہیں۔ یعنی وہاں بڑی عزّت کے ساتھ رکھے جائیں گے، خوش و خرم رہیں گے اور ہر طرح کی لذتوں سے شاد کام ہوں گے۔

21. یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایمان کے ساتھ تو عملِ صالح کا ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ شاندار انجام نصیب ہو گا، لیکن کفر کا انجامِ بد بیان کرتے ہوئے عملِ بد کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیاہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کفر بجائے خود آدمی کے انجام کو خراب کر دینے کے لیے کافی ہے خواہ عمل کی خرابی اس کے ساتھ شامل ہو یا نہ ہو۔

22. یہ ”پس“ اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہو گیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ، اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ نیز یہ ”پس“ اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیاتِ اُخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالیٰ کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اِس کمزوری سے اُس کے پاک ہونے کا اعلان کرو۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اور آپؐ کے واسطے سے تمام اہلِ ایمان ہیں۔

23. اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد اُن تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکارِ آخرت سے اللہ کی طرف منسُوب کرتے ہیں، اُس ذاتِ بے ہمتا کے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے۔ اِس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے۔ اِسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قَتادہ، ابن زید اور دوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے ے مراد نماز پڑھنا ہے۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اِس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب ونقائص سے منزّہ ہے ، تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو، تب بھی اِن اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اُس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔

24. اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے: فجر، مغرب، عصر اور ظہر۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں، حسبِ ذیل ہیں: اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰ نَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل، آیت ۷۸)۔

نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔ وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ (ہود۔ آیت ۱۱۴)۔

اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ وَسَبِّحْ بَحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنَآ یِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ۔ (طٰہٰ۔ آیت ۱۳۰)۔

اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے، اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو، اور دن کے کناروں پر۔ ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوالِ آفتاب کے بعد سے عشاء تک ہیں، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت۔ تیسری آیت میں قبلِ طلوعِ آفتاب سے مراد فجر اور قبلِ غروب ِ آفتاب سے مراد عصر۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاء دونوں شامل ہیں۔ اور دن کے کنارے تین ہیں، ایک صبح ، دوسرے زوالِ آفتاب، تیسرے مغرب۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے اُن پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض اِن آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کر سکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلّمِ قرآن ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے۔ یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھیر کر منکرینِ حدیث کی اِس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ ”نماز پڑھنے“ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے ، اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ، ”نظامِ ربوبیت“ قائم کرنا ہے۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کونسا نرالا نظام ِ ربوبیت ہے جسے یا تو طلوعِ آفتاب سے پہلے قائم کیا جا سکتا ہے یا پھر زوالِ آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ (اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَا سْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ)۔ اور نظام ِ ربوبیت کی آخر وہ کونسی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کر لے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کر سکتا؟ (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ فَا غْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ)۔ اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالتِ جَنابت میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کر لے اسے قائم نہیں کر سکتا؟ (لَا تَقْرَبُو ا الصَّلوٰۃَ ۔۔۔۔وَلَا جُنَبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا)۔ اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظام ِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہو گا؟ (اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآ ءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَا مْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ مِّنْہُ )۔ اور یہ کیسا عجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کر لے؟ (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلوٰۃِ)۔ پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے ”نظامِ ربوبیت“ قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے”نظامِ ربوبیت قائم“ کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اُٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلا جائے ، اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس ”نظام ربوبیت“ کو قائم کرنا شروع کر دے (وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلوٰۃَ فَلْتَقُمْطَآ ئِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْ خُذُؤْ ا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآ ئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ)۔ قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں، لیکن منکرینِ حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہو جائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کر سکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں ۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کر نا چاہتا ہو۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ ۵۰ بھی ملاحظہ ہو)۔

25. یعنی جو خدا ہر آن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کر رہا ہے وہ آخر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجز کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ ہر وقت زندہ اور حیوانات میں سے فضلات ( Waste Matter ) خارج کر رہا ہے جن کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ ہر لمحہ بے جان مادے(Dead Matter ) کے اندر زندگی کی روح پھونک کر بے شمار جیتے جاگے حیوانات ، نباتات اور انسان وجود میں لا رہا ہے، حالاں کہ بجائے خود اُن مادّوں میں، جن سے اِن زندہ ہستیوں کے جسم مرکّب ہوتے ہیں قطعًا کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ ہر آن یہ منظر تمہیں دکھا رہا ہے کہ بنجر پڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسر آیا اور یکایک وہ حیوانی اور نباتی زندگی کے خزانے اُگلنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کارخانۂ ہستی کو چلانے والا خدا انسان کے مر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہے تو حقیقت میں وہ عقل کا اندھا ہے۔ اس کے سر کی آنکھیں جن ظاہری مناظر کو دیکھتی ہیں ، اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندر نظر آنے والے روشن حقائق کو نہیں دیکھتیں۔