Tafheem ul Quran

Surah 30 Ar-Rum, Ayat 20-27

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ تَنۡتَشِرُوۡنَ‏ ﴿30:20﴾ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً  ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿30:21﴾ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِكُمۡ وَاَلۡوَانِكُمۡ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلۡعٰلِمِيۡنَ‏ ﴿30:22﴾ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَابۡتِغَآؤُكُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿30:23﴾ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖ يُرِيۡكُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَيُحۡىٖ بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿30:24﴾ وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ وَالۡاَرۡضُ بِاَمۡرِهٖ​ ؕ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمۡ دَعۡوَةً  ​ۖ مِّنَ الۡاَرۡضِ ​ۖ اِذَاۤ اَنۡـتُمۡ تَخۡرُجُوۡنَ‏  ﴿30:25﴾ وَلَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوۡنَ‏ ﴿30:26﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ يَـبۡدَؤُا الۡخَـلۡقَ ثُمَّ يُعِيۡدُهٗ وَهُوَ اَهۡوَنُ عَلَيۡهِ​ؕ وَلَهُ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰى فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏  ﴿30:27﴾

20 - 26 اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں)پھیلتے چلے جا رہے ہو۔27 21 - اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں28 تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو29 اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی۔30 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔ 22 - اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش،31 اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔32 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔ 23 - اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔33 یقیناًاس میں سے بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غور سے) سنتے ہیں۔ 24 - اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی۔34 اور آسمان سے پانی بر ساتا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔35 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ 25 - اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔36 پھر جونہی کہ اس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے۔37 26 - آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اس کے بندے ہیں، سب کے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ 27 - وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔38 آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبر دست اور حکیم ہے۔ ؏۳


Notes

26. خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلۂ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں ، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق، مدبّر، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ما سبق اور تقریر مابعد ، دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔

27. یعنی انسان کا مایۂ تخلیق اِس کے سوا کیا ہے کہ چند بے جان مادّے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً کچھ کاربن، کچھ کیلسیم، کچھ سوڈیم اور ایسے ہی چند اور عناصر۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بنا کھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اور اس کے اندر احساسات، جذبات، شعور، تغفُّل اور تخیُّل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کر دی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقاً ایسا بن کھڑا ہوا ہو، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کر دی گئی جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحیتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حد و حساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہو گئی ہے؟ کیا تم بحالتِ ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حد و حساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کر دینا بہت سے خداؤں کی فکر و تدبّر کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟

28. یعنی خالق کا کمال ِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صِنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes ) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف، اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید براں وہ خالقِ حکیم اِن دونوں صنفوں کے افراد کو آغازِ آفرینش سے برابر تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جا رہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعًا کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اِس معاملہ میں اثر انداز ہو سکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنا نہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا ہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اِس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزارہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقاً بھی نہیں ہو سکتا، اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز صریحًا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالقِ حکیم، اور ایک ہی خالقِ حکیم نے اپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔

29. یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے کہ بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اِس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے ، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کر دی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو اُن کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مبدّل بسکون نہیں ہو سکتا، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی، لیکن کسی تہذیب و تمدّن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدّن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ مانگ، وہ پیاس ، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسّر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدُّن کا نشوو نما ہوا۔ اس نشو ونما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں ”گھر“ کی تاسیس پر مجبور کر دیا گیا۔ کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقًا سر زد ہو گیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کر سکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزار ہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں اور بے شمار عورتوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کر تے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک ہی حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کر سکتے ہیں۔

30. محبت سے مراد یہاں جنسی محبت (Sexual Love ) ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انہیں ایک دوسرے سے چسپاں کیے رکھتی ہے ۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ، ہمدرد و غم خوار اور شریکِ رنج و راحت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب جنسی محبت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دو مثبت طاقتیں ہیں جو خالق نے اُس ابتدائی اضطراب کی مدد کے لیے انسان کے اندر پیدا کی ہیں جس کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ وہ اضطراب تو صرف سکون چاہتا ہے اور اس کی تلاش میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کر ان کے درمیان مستقل رفاقت کا ایسا رشتہ جوڑ دیتی ہیں جو دو الگ ماحولوں میں پرورش پائے ہوئے اجنبیوں کو ملا کر کچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہے کہ عمر بھر وہ زندگی کے منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت و رحمت جس کا تجربہ کروڑوں انسانوں کو اپنی زندگی میں ہو رہا ہے، کوئی مادّی چیز نہیں ہے جو وزن اور پیمائش میں آسکے، نہ انسانی جسم کے عناصر ترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جا سکتی ہے، نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اور اس کی نشو ونما کے اسباب کا کھوج لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ ایک خالقِ حکیم نے بالارادہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کے ساتھ اسے نفسِ انسانی میں ودیعت کر دیا ہے۔

31. یعنی اُن کا عدم سے وجود میں آنا ، اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا، اور بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسُب و توازُن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے، اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ وہ ابتدائی قوت (Energy ) کہاں سے آئی جس نے مادّے کی شکل اختیار کی، پھر مادّے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظامِ عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑ ہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانونِ فطرت کی بندش میں کسا ہو ا چل رہا ہے، تو ہر غیر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری طرح اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانونِ فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اِس پوری کائنات کا خالق اور ربّ ہے۔

32. یعنی با وجود یکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں، مگر زمین کے مختلف خِطّوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرزِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی طرح تمہارا مادّہ ٔ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنار، ایک ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف دو ہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن اسی رُخ پر آگے بڑھ کر دیکھیے تو دنیا میں آپ ہر طرف اتنا تنوُّع (Variety ) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہو جائے گا۔ انسان، حیوان، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افرا د میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں، حتّٰی کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہہ نہیں ہے، حتیٰ کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز صاف بتا رہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خود کار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیدا آوری(Mass Production ) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپّہ ہو جس سے ڈھل ڈھل کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آرہی ہوں۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کر رہا ہے جو ہر ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن ، نئے نقش و نگار، نئے تناسُب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل نکال رہی ہے، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جا سویا ہے۔ یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کارِ تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے۔

33. فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا ہے۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، لیکن یہ کُلّیہ نہیں ہے۔ بہت سے انسان دن کو بھی سوتے اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو۔

یہ چیز بھی اُن نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالقِ حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے ۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کر سکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تا کہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کر دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ”نیند“ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود ، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کر دیتا ہے، اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعًا ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے ۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر و ضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے۔ مزید براں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کُن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کر ڈالتا ۔ پھر رزق کی تلاش کے لیے ”اللہ کے فضل کی تلاش“ کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کر سکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کر دیے گئے ہوتے ۔ صرف یہی نہیں، بلکہ رزق کی یہ تلاش اور اس کا اکتساب اُس صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اِس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں۔ پس آدمی کے اندر تلاشِ رزق کی قابلیت اور اُس کے وجود سے باہر وسائل ِ رزق کی موجودگی، صاف صاف ایک ربِّ رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقًا ہو گیا ہے، یا یہ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ ہے، یا کوئی بے درد اندھی قوت اِس فضل و کرم کی ذمّہ دار ہے۔

34. یعنی اس کی گرج اور چمک سے امید بھی بندھتی ہے کہ بارش ہو گی اور فصلیں تیار ہوں گی، مگر ساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گر پڑے یا ایسی طوفانی بارش نہ ہو جائے جو سب کچھ بہا لے جائے۔

35. یہ چیز ایک طرف حیات بعد الموت کی نشان دہی کرتی ہے ، اور دوسری طرف یہی چیز اِ س امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خدا ہے، اور زمین وآسمان کی تدبیر کرنے والا ایک ہی خدا ہے ۔ زمین کی بے شمار مخلوقات کے رزق کا انحصار اُس پیداوار پر ہے جو زمین سے نکلتی ہے۔ اس پیداوار کا انحصار زمین کی صلاحیت ِ بار آوری پر ہے۔ اس صلاحیت کے روبکار آنے کا انحصار بارش پر ہے ، خواہ وہ براہِ راست زمین پر برسے، یا اس کے ذخیرے سطحِ زمین پر جمع ہوں، یا زیر زمین چشموں اور کنوؤں کی شکل اختیار کریں ، یا پہاڑوں پر یخ بستہ ہو کر دریاؤں کی شکل میں بہیں۔ پھر اس بارش کا انحصار سورج کی گرمی پر، موسموں کے ردو بدل پر ، فضائی حرارت و برودت پر ، ہواؤں کی گردش پر، اور اُ س بجلی پر ہے جو بادلوں سے بارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھا د بھی شامل کردیتی ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک کی اِن تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اور مناسبتیں قائم ہونا، پھر ان سب کا بے شمار مختلف النوع مقاصد اور مصلحتوں کے لیے صریحًا سازگار ہونا، اور ہزاروں لاکھوں برس تک اِن کا پوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا ، کیا یہ سب کچھ محض اتفاقًا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ کسی صانع کی حکمت اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کی غالب تدبیر کے بغیر ہو گیا ہے؟ اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ زمین ، سورج ، ہوا ، پانی، حرارت، برودت، اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور ربّ ایک ہی ہے؟

36. یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اُس کے حکم سے ایک دفعہ وجود میں آگئے ہیں ، بلکہ ان کا مسلسل قائم رہنا اور ان کے اندر ایک عظیم الشان کارگاہِ ہستی کا پیہم چلتے رہنا بھی اسی کے حکم کی بدولت ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر اس کا حکم انہیں بر قرار نہ رکھے تو یہ سارا نظام یک لخت درہم برہم ہو جائے۔

37. یعنی کائنات کے خالق و مدبر کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ اُسے اِس کے لیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی، بلکہ اس کی صرف ایک پکار اِس کے لیے بالکل کافی ہوگی کہ آغازِ آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب ایک ساتھ زمین کے ہر گوشے سے نِکل کھڑے ہوں۔

38. یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنا اگر اُس کے لیے مشکل نہ تھا، تو آخر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا؟ پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتے جاگتے موجود ہو۔ اس لیے اس کا مشکل نہ ہونا تو ظاہر ہے۔ اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے وہی چیز دوبارہ بنانا نسبتًہ زیادہ ہی آسان ہونا چاہیے۔