Tafheem ul Quran

Surah 30 Ar-Rum, Ayat 28-40

ضَرَبَ لَكُمۡ مَّثَلًا مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ​ؕ هَلْ لَّكُمۡ مِّنۡ مَّا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ مِّنۡ شُرَكَآءَ فِىۡ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ فَاَنۡتُمۡ فِيۡهِ سَوَآءٌ تَخَافُوۡنَهُمۡ كَخِيۡفَتِكُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ​ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿30:28﴾ بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ​ۚ فَمَنۡ يَّهۡدِىۡ مَنۡ اَضَلَّ اللّٰهُ ​ؕ وَمَا لَهُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِيۡنَ‏ ﴿30:29﴾ فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّيۡنِ حَنِيۡفًا ​ؕ فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ​ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰهِ​ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ  وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۙ ‏ ﴿30:30﴾ مُنِيۡبِيۡنَ اِلَيۡهِ وَاتَّقُوۡهُ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَلَا تَكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَۙ‏ ﴿30:31﴾ مِنَ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَعًا ​ؕ كُلُّ حِزۡبٍۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُوۡنَ‏ ﴿30:32﴾ وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوۡا رَبَّهُمۡ مُّنِيۡبِيۡنَ اِلَيۡهِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُمۡ مِّنۡهُ رَحۡمَةً اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ بِرَبِّهِمۡ يُشۡرِكُوۡنَۙ‏  ﴿30:33﴾ لِيَكۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَيۡنٰهُمۡ​ؕ فَتَمَتَّعُوۡا فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿30:34﴾ اَمۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ سُلۡطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوۡا بِهٖ يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿30:35﴾ وَاِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَةً فَرِحُوۡا بِهَاؕ​ وَاِنۡ تُصِبۡهُمۡ سَيِّئَةٌ ۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ اِذَا هُمۡ يَقۡنَطُوۡنَ‏ ﴿30:36﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيَقۡدِرُ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿30:37﴾ فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ​ؕ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ​ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿30:38﴾ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ​ۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ‏ ﴿30:39﴾ اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ ثُمَّ رَزَقَكُمۡ ثُمَّ يُمِيۡتُكُمۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡكُمۡ​ ؕ هَلۡ مِنۡ شُرَكَآئِكُمۡ مَّنۡ يَّفۡعَلُ مِنۡ ذٰ لِكُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ​ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿30:40﴾

28 - وہ تمہیں39 خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟40 --۔۔۔۔ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ 29 - مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو۔41 ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔ 30 - 42پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین43 کی سمت میں جمادو،44 قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نےانسانوں کو پیدا کیا ہے،45 اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی،46 یہی بالکل راست اور درست دین ہے،47 مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 31 - (قائم ہو جاؤ اس بات پر)اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے،48 اور ڈرو اس سے49 اور نماز قائم کرو،50 اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے 32 - جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا دیا ہے او گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔51 33 - لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتے ہیں،52 پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انھیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں53 34 - تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا ۔ 35 - کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟54 36 - جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔55 37 - کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتاہے(جس کا چاہتا ہے)۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔56 38 - پس (اے مومن)رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) 57۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔58 39 - جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے ، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا،59 اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔60 40 - 61اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تمہیں رزق دیا،62 پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟63 پاک ہے وہ اور بہت بالا و بر تر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ؏۴


Notes

39. یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان مِلا جُلا چل رہا تھا۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائل یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔

40. مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اسکی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے ، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ اُس تَلبِیْہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔”میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔“ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقًا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔

41. یعنی جب کوئی شخص سیدھی سیدھی عقل کی بات نہ خود سوچے اور نہ کسی کے سمجھانے سے سمجھنے کے لیے تیار ہو تو پھر اس کی عقل پر اللہ کی پھٹکار پڑ جاتی ہے اور اس کے بعد ہر وہ چیز جو کسی معقول آدمی کو حق بات تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے ، وہ اس ضدی جہالت پسند انسان کو الٹی مزید گمراہی میں مبتلا کر تی چلی جاتی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے”بھٹکانے“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ راستی پسند انسان جب اللہ سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی طلبِ صادق کے مطابق اس کے لیے زیادہ سے زیادہ اسبابِ ہدایت پیدا فرما دیتا ہے۔ اور گمراہی پسند انسان جب گمراہ ہی ہونے پر اصرار کرتا ہے تو پھر اللہ ا س کے لیے وہی اسباب پیدا کرتا چلا جاتا ہے جو اسے بھٹکا کر روز بروز حق سے دو ر لیے چلے جاتے ہیں۔

42. یہ ”پس“ اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پر کھل چکی، اور تم کو معلوم ہو گیا کہ اس کائنات کا اور خود انسان کا خالق و مالک اور حاکم ذی اختیار ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو اس کے بعد لا محالہ تمہارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے۔

43. اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے ، جس میں بندگی، عبادت، اور طاعت کا مستحق اللہ وحدہُ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، جس میں الُوہیّت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعًا کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھیرایا جاتا، جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کر ے گا۔

44. ”یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس طرف جما دو“،یعنی پھر کسی اور طرف کا رُخ نہ کرو۔ زندگی کے لیے اِس راہ کو اختیار کر لینے کے بعد پھر کسی دوسرے راستے کی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔ پھر تمہاری فکر اور سوچ ہو تو مسلمان کی سی اور تمہاری پسند اور ناپسند ہو تو مسلمان کی سی۔ تمہاری قدریں اور تمہارے معیار ہوں تو وہ جو اسلام تمہیں دیتا ہے ، تمہارے اخلاق اور تمہاری سیرت و کردار کا ٹھپّہ ہو تو اُس طرح کا جو اسلام چاہتا ہے ، اور تمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات چلیں تو اُس طریقے پر جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے۔

45. یعنی تمام انسان اِس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور مُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہو جانا چاہیے۔ اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی ٔ غیر کا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے۔

اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فا بواہ یھودانہ او ینصر انہ او یمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء، ھل تحسون فیھا من جد عاء۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ، اصل انسانی فطرت پر پیداہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔

مُسند احمد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتیٰ قتلو ا الذُّرّیّۃ، ”لوگوں کو کیا ہو گیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔“ ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا انما خیارکم ابناء المشرکین، ”تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں۔“ پھر فرمایا کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فا بوا ھا یھود انھا او ینصر انھا، ”ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔“ ایک اور حدیث جو امام احمد ؒ نے عیاض بن حمار المُجاشِعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم و انھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم و حَرَّ مَتْ علیہم ما احللتُ لھم و اَمَرَتْھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہٖ سُلطانا۔”میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آکر انہیں ان کے دین سے گمراہ کیا، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھیرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔“

46. یعنی خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔ نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتا ہے، نہ کسی غیر خدا کو خدا بنا لینے سے وہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتا ہے۔ انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنا بیٹھے، لیکن یہ امرِ واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو بھی چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے، مگر حقیقت ِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل ہیں نہ اس کے اختیارات ، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے۔“ یعنی اللہ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا درست نہیں ہے۔

47. یعنی فطرتِ سلیمہ پر قائم رہنا ہی سیدھا اور صحیح طریقہ ہے۔

48. اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویّہ اختیار کر کے اپنے مالکِ حقیقی سے انحراف کیا ہو، یا جس نے بھی بندگی ٔ ِ غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی ربّ سے بے وفائی کی ہو، وہ اپنی اس رو ش سے باز آجائے اور اُسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہو ا ہے۔

49. یعنی تمہارے دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا، یا اس کے بجائے کسی اور کی بندگی کی تو اِس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہو گی۔ اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو۔

50. اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف، دونوں قلب کے افعال ہیں۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازمًا کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اِس رجوع و تقویٰ کی کیفیت کو ایک عملی مُمارَست کے ذریعہ سے پے در پے نشو و نما نصیب ہوتا چلا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اُس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فوراً ہی اِس جسمانی عمل، یعنی اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی۔ اُس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کر تا جاتا ہے، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہو تا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کر نے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو، اُس کی نوبت دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائمًا کرنا ہوتا ہے، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق ، جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے ، آدمی کو بار بار دُہرانا ہوتا ہے تاکہ و ہ اسے بھولنے نہ پائے۔ مزید براں کفار اور اہل ایمان، دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعتِ رب کی روش اختیار کر لی ہے۔ اہلِ ایمان پر اِس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے باخبر کر دے۔ کفار پر اِس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہو تی رہے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلوٰۃ ہی سب سےزیادہ موزوں ذریعہ ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ کا یہ حکم مکّۂ معظمہ کے اُس دَور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔ اُس وقت دُور دُور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی ، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں، یا اقامتِ صلوٰۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ ”نظامِ ربوبیت“چلانا ہوتا، جیسا کہ منکرینِ سنت کا دعویٰ ہے ، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اِس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟

51. یہ اشارہ ہے اِس چیز کی طرف کہ نوعِ انسانی کا اصل دین وہی دینِ فطرت ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہوا توحید تک پہنچا ہے، جیسا کہ قیاس و گمان سے ایک فلسفۂ مذہب گھڑ لینے والے حضرات سمجھتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اُس اصلی دین میں بگاڑ آنے سے رونما ہوئے ہیں۔ اور یہ بگاڑ اس لیے آیا ہے کہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پر اپنی اپنی نَو ایجاد باتوں کا اضافہ کر کے اپنے الگ دین بنا ڈالے اور ہر ایک اصل حقیقت کے بجائے اُس اضافہ شدہ چیز کا گرویدہ ہو گیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک مستقل فرقہ بنا تھا۔ اب جو شخص بھی ہدایت پا سکتا ہے وہ اِسی طرح پا سکتا ہے کہ اُس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جو دینِ حق کی بنیاد تھی، اور بعد کے ان تمام اضافوں سے اور ان کے گرویدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑ کر بالکل الگ ہو جائے۔ ان کے ساتھ ربط کا جو رشتہ بھی وہ لگائے رکھے گا وہی دین میں خلل کا موجب ہو گا۔

52. یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ امیدوں کےسہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔

52. یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ امیدوں کےسہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔

53. یعنی پھر دوسرے معبودوں کی نذریں اور نیازیں چڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اور کہا جانے لگتا ہے کہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اور فلاں آستانے کے صدقے میں ٹلی ہے۔

54. یعنی آخر کس دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے؟ یا کوئی کتابِ الہٰی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے؟

55. اوپر کی آیت میں انسان کی جہالت و حماقت اور اس کی ناشکری و نمک حرامی پر گرفت تھی۔ اِس آیت میں اس کے چھچھورے پن اور کم ظرفی پر گرفت کی گئی ہے۔ اِس تھُڑ دلے کو جب دنیا میں کچھ دولت ، طاقت ، عزت نصیب ہوجاتی ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اِس کا کام خوب چل رہا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ میرے ہی کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو مجھے وہ کچھ میسر ہُوا جس سے دوسرے محروم ہیں۔ اس غلط فہمی میں فخر و غرور کا نشہ اس پر ایسا چڑھتا ہے کہ پھر یہ نہ خدا کو خاطر میں لاتا ہے نہ خلق کو۔ لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑا اِس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور بدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پر دل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کر دیتی ہے جس میں یہ ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کر گزرتا ہے ، حتیٰ کہ خود کشی تک کر جاتا ہے۔

56. یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ا س کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہوسکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اُسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلقِ خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہر گز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑ جائیں ، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخرت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہوسکتی ہے اور نہ مشرک کو۔

57. یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار ، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پانے کے یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال اُن دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں۔ اس ارشاد الہٰی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے۔ یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوقِ ملکیت ساقط کر دیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہو جائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتیٰ کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کر دے سکے، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبۂ خیر سگالی پرورش کر سکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظامِ تمدّن و معیشت، جسے آج کل ہمارے ملک میں ”قرآنی نظامِ ربوبیت“ کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جا رہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشوونما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعًا بند ہو جاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اُسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل ِ دولت کے مالک ہوں، اُن پر آزادانہ تصرّف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔ اِسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان بالاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہو جائے جس میں بدی کا رُکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی ٔ نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں۔

58. یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کردینے سے حاصل ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصُول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اِن حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔

59. قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سو د یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھی گی ، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر جب مدینہ ٔطیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰ وَ یُرْ بِی الصَّدَقٰتِ، ” اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔“ (بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران ، آیت ۱۳۰۔ البقرہ، آیات ۲۷۵ تا ۲۸۱)۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربوٰ سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعًا حرام کیا گیا ہے، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اِس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا س سے زیادہ واپس کرے گا، یا مُعطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا، یا اس کا خوشحال ہو جانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہو گا۔ یہ ابنِ عباسؓ، مجاہدؓ، ضحاکؓ، قتادَہ، عِکْرِمَہ، محمد بن کَعْب القُر َظِی اور شَعبی کا قول ہے۔ اور غالبًا یہ تفسیر اِن حضرات نے اس بنا پر فرمائی ہے کہ آیت میں اِس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہو گی، حالانکہ اگر معاملہ اُس سود کا ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں اس سے مراد وہی معروف ربوٰ ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے حضرت حسن بصری اور سُدِّی کی ہے اور علامۂ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے، کیونکہ عربی زبان میں ربوٰ کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر تفسیرِ اول کے حق میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ روم کا نزول جس زمانے میں ہو اہے اُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہُوا ہے۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے وہ پہلے سے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے (النحل آیت ۶۷)، پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے (البقرہ ۲۱۹) ، پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النساء ۴۳)، پھر اس کی قطعی حر مت کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو، بلکہ حقیقی افزائش ِ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا (آل عمران ، آیت ۱۳۰)۔ اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کر دیا گیا (البقرہ، آیت ۵)۔

60. اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبۂ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہٰی کے ساتھ کوئی شخص راہِ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہِ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔

61. یہاں سے پھر کفار و مشرکین کو سمجھانے کے لیے سلسلۂ کلام توحید و آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے۔

62. یعنی زمین میں تمہارے رزق کے لیے جملہ و سائل فراہم کیے اور ایسا انتظام کر دیا کہ رزق کی گردش سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصّہ پہنچ جائے۔

63. یعنی اگر تمہارے بنائے ہوئے معبودوں میں سے کوئی بھی نہ پیدا کرنے والا ہے ، نہ رزق دینے والا، نہ موت و زیست اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور نہ مرجانے کے بعد وہ کسی کو زندہ کر دینے پر قادر ہے، تو آخر یہ لوگ ہیں کس مرض کی دوا کہ تم نے اِنہیں معبُود بنا لیا؟