64. یہ پھر اُس جنگ کی طرف اشارہ ہے جو اُس وقت روم و ایران کے درمیان برپا تھی ، جس کی آگ نے پورے شرق اوسط کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ”لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی“ ہے مراد و ہ فسق و فجور اور ظلم و جَور ہے جو شرک یا دہریت کا عقیدہ اختیار کر نے اورآخرت کو نظر انداز کر دینے سے لازمًا انسانی اخلاق و کردار میں رونما ہوتا ہے۔ ”شاید کہ وہ باز آئیں“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی سزا سے پہلے اِس دنیا میں انسانوں کو ان کے تمام اعمال کا نہیں بلکہ بعض اعمال کا بُرا نتیجہ اس لیے دکھاتا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں اور اپنے تخیلات کی غلطی کو محسوس کر کے اُس عقیدۂ صالحہ کی طرف رجوع کریں جو انبیاء علیہم السلام ہمیشہ سے انسان کے سامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں، جس کو اختیار کر نے کے سوا انسانی اعمال کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو اہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، التوبہ، آیت ۱۲۶۔ الرعد، آیت۳۱۔ السجدہ، ۲۱، الطور، ۴۷۔
65. یعنی روم و ایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ہے۔ پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی و بربادی کے ریکارڈ سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان سب قوموں کو جن خرابیوں نے برباد کیا اُن سب کی جڑ یہی شرک تھا جس سے باز آنے کے لیے آج تم سے کہا جا رہا ہے۔
66. یعنی اس کو نہ اللہ تعالیٰ خود ٹالے گا اور نہ اس نے کسی کے لیے ایسی کسی تدبیر کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے کہ وہ اسے ٹال سکے۔
67. یہ ایک جامع فقرہ ہے جو تمام اُن مضرتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے جو کافر کو اپنے کفر کی بدولت پہنچ سکتی ہیں۔ مضرتوں کی کوئی مفصل فہرست بھی اتنی جامع نہیں ہو سکتی۔
68. یعنی بارانِ رحمت کی خوشخبری دینے کے لیے۔
69. یہ ایک اور قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو جہاز رانی میں مددگار ہوتی ہیں۔ قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اور جہازوں کا سفر زیادہ تر بادِ موافق پر منحصر تھا اور بادِ مخالف ان کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتی تھی۔ اس لیے بارش لانے والی ہواؤں کے بعد ان ہواؤں کا ذکر ایک نعمتِ خاص کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔
70. یعنی تجارت کےلیے سفر کرو۔
71. یعنی ایک قسم کی نشانیاں تو وہ ہیں جو کائنات ِ فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جن سے انسان کو اپنی زندگی میں ہر آن سابقہ پیش آتا ہے ، جن میں سے ایک ہواؤں کی گردش کا یہ نظام ہے جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ اور دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو انبیاء علیہم السلام معجزات کی صورت میں، کلامِ الہٰی کی صورت میں، اپنی غیر معمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں ، اور انسانی معاشرے پر اپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لے کر آئے۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ جس توحید کی تعلیم انبیاء دے رہے ہیں وہی بر حق ہے۔ ان میں سے ہر نشانی دوسری کی مؤیِّد ہے۔ کائنات کی نشانیاں انبیاء کے بیان کی صداقت پر شہادت دیتی ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی نشانیاں اُس حقیقت کو کھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کر رہی ہیں۔
72. یعنی جو لوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سے اندھے بن کر توحید سے انکار پر جمے رہے اور خدا سے بغاوت ہی کیے چلے گئے۔
73. یہاں جس انداز سے نبوت اور بارش کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا گیا ہے اس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لے ویسی ہی رحمت ہے جیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے۔ جس طرح آسمانی بارش کے نزول سے مردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہے اور اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، اسی طرح آسمانی وحی کا نزول اخلاق و روحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کو جِلا اُٹھاتا ہے اور اس میں فضائل و محامد کے گلزار لہلہانے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کفار کی اپنی بد قسمتی ہے کہ خدا کی طرف سے یہ نعمت جب ان کے ہاں آتی ہے تو وہ اس کا کفران کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے مژدۂ رحمت سمجھنے کے بجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔
74. یعنی بارانِ رحمت کے بعد جب کھیتیاں سر سبز ہو چکی ہوں اور اس وقت اگر کوئی ایسی سخت سرد یا سخت گرم ہوا چل پڑے جو ہری بھری فصلوں کو جلا کر رکھ دے۔
75. یعنی پھر وہ خدا کو کوسنے لگتے ہیں اور اس پر الزام رکھنے لگتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی مصیبتیں ہم پر ڈال رکھی ہیں۔ حالانکہ جب خدا نے ان پر نعمت کی بارش کی تھی اس وقت انہوں نے شکر کے بجائے اس کی ناقدری کی تھی۔ یہاں پھر ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ جب خدا کے رسول اس کی طرف سے پیامِ رحمت لاتے ہیں تو لوگ ان کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں خدا ان پر ظالموں اور جبّاروں کو مسلّط کر دیتا ہے اور وہ جو رو ستم کی چکی میں انہیں پیستے ہیں اور جوہرِ آدمیت کا قلع قمع کر ڈالتے ہیں تو وہی لوگ خد ا کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور اسے الزام دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی ظلم سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔
76. یہاں مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں ، جن کے اند راخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے ، جن کی بندگی ٔ نفس اور ضد اور ہٹ دھرمی نے اُس صلاحیت ہی کا خاتمہ کر دیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔
77. بہروں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں پر ایسے قفل چڑھا رکھے ہیں کہ سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہیں سنتے۔ پھر جب ایسے لوگ یہ کوشش بھی کریں کہ دعوتِ حق کی آواز سرے سے ان کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے، اور داعی کی شکل دیکھتے ہی دور بھاگنا شروع کر دیں تو ظاہر ہے کہ کوئی انہیں کیا سنائے اور کیسے سنائے؟
78. یعنی نبی کا کام یہ تو نہیں ہے کہ اندھوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ساری عمر راہِ راست پر چلاتا رہے۔ وہ تو راہِ راست کی طرف رہنمائی ہی کر سکتا ہے ۔ مگر جن لوگوں کی ہِیے کی آنکھیں پھوٹ چکی ہوں اور جنہیں وہ راستہ نظر ہی نہ آتا ہو جو نبی انہیں دکھانے کی کوشش کرتا ہے ، ان کی رہنمائی کر نا نبی کے بس کا کام نہیں ہے۔