79. یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا، یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ اسی کی مشیت پر موقوف ہے کہ جسے چاہے کمزور پیدا کرے اور جس کو چاہے طاقت ور بنائے، جسے چاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنے دے اور جس کو چاہے جوان مرگ کر دے، جسے چاہے لمبی عمر دے کر بھی تندرست و توانا رکھے اور جس کو چاہے شاندار جوانی کے بعد بڑھاپے میں، اس طرح ایڑیاں رگڑوائے کہ دنیا اسے دیکھ کر عبرت کرنے لگے ۔ انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتا رہے مگر خدا کے قبضۂ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جو حالت بھی خدا اس پر طاری کر دے اسے وہ اپنی کسی تدبیر سے نہیں بد ل سکتا۔
80. یعنی قیامت جس کے آنے کے خبر دی جارہی ہے۔
81. یعنی مرنے کے وقت سے قیامت کی اُس گھڑی تک۔ ان دونوں ساعتوں کے درمیان چاہے دس بیس ہزار برس ہی گزر چکے ہوں، مگر وہ یہ محسوس کریں گے کہ چند گھنٹے پہلے ہم سوئے تھے اور اب اچانک ایک حادثہ نے ہمیں جگا اُٹھایا ہے۔
82. یعنی ایسے ہی غلط اندازے یہ لوگ دنیا میں بھی لگاتے ہیں۔ وہاں بھی یہ حقیقت کے ادراک سے محروم تھے، اسی وجہ سے یہ حکم لگایا کرتے تھے کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی، مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ، اور کسی خدا کے سامنے حاضر ہو کر ہمیں حساب نہیں دینا۔
83. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے ”نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ اپنے ربّ کو راضی کرو،“ اس لیے کہ توبہ اور ایمان اور عملِ صالح کی طرف رجوع کرنے کے سارے مواقع کو وہ کھو چکے ہوں گے اور امتحان کا وقت ختم ہو کر فیصلے کی گھڑی آچکی ہو گی۔
84. اشارہ ہے اُس وعدے کی طرف جو اُوپر آیت نمبر ۴۷ میں گزر چکا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی بیّنات کا مقابلہ تکذیب و تضحیک اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کیا ہے اللہ نے ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیا ہے (فَا نْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا)، اور اللہ پر یہ حق ہے کہ مومنوں کی نُصرت فرمائے (وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْ مِنِیْنَ)۔
85. یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہو جاؤ، یاان کی پھبتیوں اور طعنوں او ر تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمت ہو جاؤ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کر لینے پر اتر آؤ۔ اس کے بجائے و ہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند، اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ، اور اپنے عزم میں اتنا راسخ ، اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جا سکے، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جا سکے، نہ کسی فریب سے تم کو پھُسلایا جا سکے، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے ، اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جا سکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ”یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔“ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت ِ عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کر دی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔