Tafheem ul Quran

Surah 31 Luqman, Ayat 1-11

الٓمّٓ ​ۚ‏ ﴿31:1﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ الۡحَكِيۡمِۙ‏ ﴿31:2﴾ هُدًى وَّرَحۡمَةً لِّلۡمُحۡسِنِيۡنَۙ‏ ﴿31:3﴾ الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ يُوۡقِنُوۡنَؕ‏ ﴿31:4﴾ اُولٰٓـئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ​ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿31:5﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡتَرِىۡ لَهۡوَ الۡحَدِيۡثِ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ​ۖ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ​ؕ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏ ﴿31:6﴾ وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسۡتَكۡبِرًا كَاَنۡ لَّمۡ يَسۡمَعۡهَا كَاَنَّ فِىۡۤ اُذُنَيۡهِ وَقۡرًا​ۚ فَبَشِّرۡهُ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ ﴿31:7﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ جَنّٰتُ النَّعِيۡمِۙ‏  ﴿31:8﴾ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقًّا ​ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏  ﴿31:9﴾ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا​ وَاَ لۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ دَآ بَّةٍ​ ؕ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿31:10﴾ هٰذَا خَلۡقُ اللّٰهِ فَاَرُوۡنِىۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ​ؕ بَلِ الظّٰلِمُوۡنَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿31:11﴾

1 - 1. ا ل م ۔ 2 - 2. یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں، 1 3 - 3. ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں کے لیے 2 ، 4 - 4. جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ 3 5 - 5. یہی لوگ اپنے ربّ کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ 4 6 - 6. اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے 5 جو کلام دلفریب 6 خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر 7 بھٹکادے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے 8 ۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ 9 7 - 7. اُسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رُخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سُناہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ اچھا ، مژدہ سُنادو اسے ایک درد ناک عذاب کا ۔ 8 - 8. البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، اُن کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں 10 9 - 9. جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ 11 10 - 10. 12 اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں۔ 13 اس نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے۔ 14 اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلادیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگادیں۔ 11 - 11. یہ تو ہے اللہ کی تخلیق ، اب ذرا مجھے دکھاوٴ ، ان دُوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ 15 ۔۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ 16 ؏۱


Notes

1. یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے ، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے ۔

2. یعنی یہ آیات راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اُٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے ، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کر دیا جائے تو ان سے رُک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے ۔

3. یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں ۔ دراصل پہلے ’’ نیکو کار‘‘ کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے ، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے ۔ پھر اُن ’’ نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے ۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے ۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں ، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے ،متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے ۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے ، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو ، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں ، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے ۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ ’’ نیکوکار ‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے ۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر و اخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔

4. جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں ۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ’’ یہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے ۔

یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا ۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸۔

5. یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔

6. اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے ۔لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے ۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے ،مثلاً گپ ،خرافات ، ہنسی مذاق ،داستانیں، افسانے اور ناول ، گانا بجانا ، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔

لہو الحدیث ’’ خریدنے ‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں ۔حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے ۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے ۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا ۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے ، ساحر ہے ، شاعر ہے ،مجنوں ہے ۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے ۔ ٹھیرو ، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام ،ج ۱،ص۳۲۰۔۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے ۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے ۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے ۔

لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء،’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ ، حاکم بہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس،جابر بن عبداللہ،مجاہد، عِکرمہ ، سعید بن جُبیر ، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں ۔ ابن ابی جریر ، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمہؓ باہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’ مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے ۔‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے ، اور ان کی قیمت حرام ہے ۔‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْ یَّشْترِی ْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں ۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیات کی بیع و شراء کا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے )۔

7. ’’ علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’ خریدتا ہے ‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’ بھٹکادے ‘‘ کے ساتھ بھی ۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے ۔ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے ۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے ، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے ۔

8. یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے ۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جائے ۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں،اُدھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو،اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انھیں سنائی جا سکیں۔

9. یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے ۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔

10. یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنّت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی ۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ’’ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں ،‘‘ تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں گی اور وہ اُن نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے ، نہ کہ اُس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دے دیا جائے ۔

11. یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ’’ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے ‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے ۔نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے ۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے ۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔

12. اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے ۔

13. اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے ، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو حساب عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے ۔

14. تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، سورة النحل صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲۔

15. یعنی اُن ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو ،جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو، جن کی بندگی بجا لانے پر تمہیں اتنا اصرار ہے ۔

16. یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے ، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی ۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے کا اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے ۔کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں ؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے ؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتا ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟بگڑی تو وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔