Tafheem ul Quran

Surah 31 Luqman, Ayat 20-30

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمۡ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ وَاَسۡبَغَ عَلَيۡكُمۡ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ​ؕ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيۡرٍ‏  ﴿31:20﴾ وَ اِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اتَّبِعُوۡا مَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ قَالُوۡا بَلۡ نَـتَّـبِـعُ مَا وَجَدۡنَا عَلَيۡهِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوۡ كَانَ الشَّيۡطٰنُ يَدۡعُوۡهُمۡ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيۡرِ‏ ﴿31:21﴾ وَمَنۡ يُّسۡلِمۡ وَجۡهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى​ؕ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ‏ ﴿31:22﴾ وَمَنۡ كَفَرَ فَلَا يَحۡزُنۡكَ كُفۡرُهٗ ؕ اِلَيۡنَا مَرۡجِعُهُمۡ فَنُنَبِّئُهُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿31:23﴾ نُمَتّـِعُهُمۡ قَلِيۡلًا ثُمَّ نَضۡطَرُّهُمۡ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيۡظٍ‏ ﴿31:24﴾ وَلَـئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَـقُوۡلُنَّ اللّٰهُ​ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ​ ؕ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿31:25﴾ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏  ﴿31:26﴾ وَلَوۡ اَنَّ مَا فِى الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَةٍ اَقۡلَامٌ وَّالۡبَحۡرُ يَمُدُّهٗ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ سَبۡعَةُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ كَلِمٰتُ اللّٰهِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿31:27﴾ مَا خَلۡقُكُمۡ وَلَا بَعۡثُكُمۡ اِلَّا كَنَفۡسٍ وَّاحِدَةٍ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿31:28﴾ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَيُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ كُلٌّ يَّجۡرِىۡۤ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ ﴿31:29﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِ الۡبَاطِلُ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡكَبِيۡرُ‏ ﴿31:30﴾

20 - 20. کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخّر کر رکھی ہیں 35 اور اپنی کُھلی اور چھپی نعمتیں 36 تم پر تمام کر دی ہیں ؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں 37 بغیر اس کے کے ان کے پاس کوئی علم ہو ،یا ہدایت ، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔ 38 21 - 21. اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریں گےخواہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو؟ 39 22 - 22. جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے 40 اور عملاً وہ نیک ہو 41 ، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا 42 ، اور سارے معاملا ت کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ 23 - 23. اب جو کفر کرتا ہے اس کو کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے 43 ، انھیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انھیں بتادیں گے کہ ہو کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ 24 - 24. ہم تھوڑی مدت انھیں دنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں ، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔ 25 - 25. اگر تم ان سے پوچھو کے زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔ کہو الحمدللہ۔ 44 مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ 45 26 - 26. آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے 46 ، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔ 47 27 - 27. زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر(دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں لکھنے سے ختم نہ ہوں گی۔ 48 بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ 28 - 28. تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو ( اس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہی کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ 49 29 - 29. کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہؤالے آتا ہے اور دن کو راے میں۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے 50 ، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں 51 ، اور (کیا تم نہیں جانتے) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ 30 - 30. یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے 52 اور اسے چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں۔ 53 اور ( اس وجہ سے کہ ) اللہ ہی بزرگ و بر تر ہے۔ 54 ؏۳


Notes

35. کسی چیز کو کسی کے لیے مسخّر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے ۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جائے جس کی بدولت وہ اُس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے ۔ زین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخّر نہیں کر دیا ہے ، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں ۔ مثلاً ہوا، پانی ، مٹی ،آگ نباتات، معدنیات، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں، اور چاند،سورج، وغیرہ دوسرے معنی میں۔

36. کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے ۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے ، اس کی رز ق رسانی کے لیے ، اس کے نشو و نما کے لیے ، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے ، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں ، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے ۔

37. یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلاوہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ

38. یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو، نہ کسی ایسے رہنما کی رہنمائی اِنہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں۔

39. یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ داد ا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے ۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے ۔ کوئی عقلمند آدمی یہ نادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے ۔

40. یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے ۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے ۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کاقانون بنائے ۔

41. یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے ۔

42. یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی، نہ ا س بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہو گا۔

43. خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ، جو شخص تمہاری بات ماننے سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پر اصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے ، لیکن دراصل اس نے زک اپنے آپ کو پہنچائی ہے ۔ اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا ، اپنا کچھ بگاڑا ہے ۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

44. یعنی شکر ہے کہ تم اتنی بات تو جانتے اور مانتے ہو ۔ لیکن جب حقیقت یہ ہے تو پھر حمد ساری کی ساری صرف اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے ۔ دوسری کوئی ہستی حمد کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تخلیق کائنات میں کوئی اس کا حصہ ہی نہیں ہے ۔

45. یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالقِ کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں ، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں ۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے ، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے ، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں ، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے ، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو ۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھیرانا،کسی کے آگے سر نیاز جھکانا ،اور کسی کو حاکِم ذی اختیار اور مُطاعِ مطلق تسلیم کرنا، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا ۔

46. یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا، یا اسکے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے ۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اُس کی مِلک ہے ۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں۔

47. اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے ۔

48. اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشمے ۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے ۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کر ے گا شاید اس قو ل میں مبالغہ کیا گیا ہے۔لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے ۔جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں ، ان سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار ، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی ۔ تنہا اس زمین پر جتنی مو جو دات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے ، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبطِ تحریر میں لائی جا سکیں۔

اس بیان سے دراصل یہ تصوّر دلانا مقصُود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں اُن چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار ، اس کے کسی اقل قلیل جُز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے ۔پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو۔

49. یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سُن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سُن سکے ۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اور ایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کسی چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے ۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دو بار ہ وجود میں لانے کا بھی ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کر سکتا ہے ۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے ۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے ۔

50. یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں ۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالمِ بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انھیں دیوتا مان رہے ہیں ۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیّاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سرِ مو ہٹ نہیں کر سکتے ۔

51. یعنی ہر چیز کی جو مدّت مقرر کر دی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے ۔ سورج ہو یا چاند ،یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سیارہ ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی ۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی ۔ اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث، اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہو سکتی ہیں۔

52. یعنی حقیقی فاعِل مختار ہے ، خلق و تدبیر کے اختیارات کا اصل مالک ہے ۔

53. یعنی وہ سب محض تمہارے تخیلّات کے آفریدہ خدا ہیں۔ تم نے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل دکھتے ہیں اور فلاں حضرت کو مشکل کشائی و حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں۔ حالاں کہ فی الواقع ان میں سے کوئی صاحب بھی کچھ نہیں بنا سکتے ۔

54. یعنی ہر چیز سے بالا تر جس کے سامنے سب پست ہیں، اور ہر چیز سے بزرگ جس کے سامنے سب چھوٹے ہیں۔