Tafheem ul Quran

Surah 31 Luqman, Ayat 31-34

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ الۡفُلۡكَ تَجۡرِىۡ فِى الۡبَحۡرِ بِنِعۡمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمۡ مِّنۡ اٰيٰتِهٖؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ‏ ﴿31:31﴾ وَاِذَا غَشِيَهُمۡ مَّوۡجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَهُ الدِّيۡنَ ۙ فَلَمَّا نَجّٰٮهُمۡ اِلَى الۡبَـرِّ فَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ​ؕ وَمَا يَجۡحَدُ بِاٰيٰتِنَاۤ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوۡرٍ‏ ﴿31:32﴾ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡـئًا​ ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ​ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ ﴿31:33﴾ اِنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ عِلۡمُ السَّاعَةِ​ ۚ وَيُنَزِّلُ الۡغَيۡثَ​ ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡاَرۡحَامِ​ ؕ وَمَا تَدۡرِىۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَكۡسِبُ غَدًا​ ؕ وَّمَا تَدۡرِىۡ نَـفۡسٌۢ بِاَىِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ ‏ ﴿31:34﴾

31 - 31. کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟ 55 درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ 56 32 - 32. اور جب (سمندر میں) ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جا تی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے، پھر جب وہ بچاکر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے 57 ، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے۔ 58 33 - 33. لوگو! بچو اپنے ربّ کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا۔ 59 فی الواقع اللہ کا وعدہ سچّا ہے۔ 60 پس یہ دُنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے 61 اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکہ دینے پائے۔ 62
34 - 34. اُس گھڑی کا علم اللہ کی کے پاس ہے ، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماوٴں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے ، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کِس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ 63 ؏۴


Notes

55. یعنی ایسی نشانیاں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختیارات بالکل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنا لے اور جہاز رانی کے فن اور اس سے تعلق رکھنے والی معلومات اور تجربات میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے ، لیکن سمندر میں جن ہولناک طاقتوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ تنہا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کا فضل شامِل حال نہ ہو ۔ اس کی نگاہ کرم پھرتے ہی آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ذرائع و وسائل اور کمالات فن کتنے پانی میں ہیں ۔ اسی طرح آدمی امن و اطمینان کی حالت میں چاہے کیسا ہی سخت دہریہ یا کٹّا مشرک ہو، لیکن سمندر کے طوفان میں جب اس کی کشتی ڈولنے لگتی ہے اس وقت دہریے کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے ، اور مشرک بھی جان لیتا ہے کہ خدا بس ایک ہی ہے ۔

56. یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق حاصل کر کے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں ۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے ) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اور ناگوار ، سخت اور نرم ، اچھے اور بُرے ، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں ۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑ گڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے ، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے ) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکر و سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں ۔

57. اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے ۔اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے ، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی ۔اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے ۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آگیا ۔ تیسرا وہ جس کے اندر اس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔

58. یہ دو صفات اُن دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں کیا گیا تھا۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے ۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے مُحسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر،اپنی دہریّت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدانِ حقیقت کا نتیجہ تھا ۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالتِ اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی، ورنہ درحقیقت خدا وُدا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ رہے مشرکین ، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے ، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودانِ باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں ۔ یہ خیال تک انھیں نہیں آتا کہ جب ساری اُمیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اُس وقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو۔

59. یعنی دوست ، لیڈر ،پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں ، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے ۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے ، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کے اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے ۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا ۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے ، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک برحق ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے ۔

60. اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔

61. دنیا کی زندگی سطح بین انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے ، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے ، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کر لو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے ۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’’ معیار زندگی ‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے ۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے ،ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے ۔کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے ، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے ، وہ خدا کا محبوب ہے ، اور جس کی دنیا خراب ہے ، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے ۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے ۔

62. الغرور (دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے ، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے ، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے ، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے ۔

’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے ‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں ۔ کسی کو اس کا ’’ دھوکے باز ‘‘ یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں ۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے ۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے ۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے ، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا ۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے ، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے ۔

63. یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے ، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔

پہلا فقرہ: ’’ اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے ۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں ، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا وقت کب آئے گا ۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے ۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جب ،جہاں ، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہے جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے ۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ ٍتم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے ۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے ، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا ۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنیا کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے ۔

یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالاں کہ غیب نام ہی ا ُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے ۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جِلد سوم ، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔