1. قرآن مجید کی متعدّد سُورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے ۔ یہ بظاہر اُسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلا ن کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں ۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ ، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت اِنذار بھی شامل ہوتا ہے ۔اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اِتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ ا نسانی کلام نہیں ہے ، خدا وندِ عالم کا کلام ہے ۔یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں ۔ تسلیم کرتا ہو ں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہو گا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی ۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوندِ عالَم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اِس بِنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنّا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں ۔
یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے ، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزولِ قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے ، اور یہ دلیل مکّہ معظّمہ کے اُن باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا ۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی اُن کے سامنے تھی ، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی ۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز ،سنجیدہ اور پاک سیرت ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوّت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اُس سے وہ باتیں کبھی نہ سُنی تھیں جو نبوّت کے بعد یکایک اُس نے بیان کرنی شروع کر دیں ۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو بداہۃً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے ۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں ، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں ۔ انہیں اس کتاب میں ،اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اُس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدّعی کاکام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشا ن دہی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوّت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے ۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھِنچ CFرہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے ۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اِسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔
2. اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے ۔
3. یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود ، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے ، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں ، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟
4. جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ،کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی ، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں ۔ کون ، کس ماحول میں ، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا ، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا ۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی ۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف حتمی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا ۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے ۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے ۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے ۔
5. یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے ۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے ۔
واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے ۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے ۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے ۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے ۔
یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں ۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھا کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے ۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں ، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئے ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے ۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین ، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی ۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے ، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَلَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُفَیل ، ورقہ بن نَو فَل ، عثمان بن الحُوَیرِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب ابعَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے ۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصروردا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵)
6. اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے ۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں ،اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہانکے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز ، کوئی حاجت روا ، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا ، اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے ۔
7. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم الاعراف آیت 54 ص ۳۶۔یونس آیت ۲۶۱3۔۲۶۲۔۴۴۱ ۔۴۴۲۔الرعد آیت 2
8. یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے ۔ تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو ۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے ، مخلوق ہے ۔ اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے ، بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے ۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟
9. یعنی تمہارے نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے ۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا ۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا ، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں ۔ اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :
وَیَسْتَعْجِلُوْ نَکَ بِاعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِف اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًاعِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْف سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o (آیت ۴۷)
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے ۔
دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :
سَاَلَ سَآئِلُٗ م بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(oلا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعُٗ(oلا)مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَے ْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍOفَا صْبِرْ صَبْرًاجَمِے ْلًاoاِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (oلا)وَّنَرٰہٗ قَرِیْباًoط (المعارج ۔آیات ۱۔۷)
پوچھنے والا پوچھتا ہے اُس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے ، اُس خدا کی طرف سے جو چَڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا )۔چَڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے ۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو ۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔
ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے ۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے بُرے نتائج سامنے آ جائیں ۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں ، صدیاں بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہیں ۔
10. یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بے شمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں ۔ فرشتے ہوں یا جن ،یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو ۔ یہ صفت صرف اللہ تعا لیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے ۔ جو کچھ گزر چکا ہے ، جو کچھ موجود ہے ، اور جو کچھ آنے والا ہے ،سب اس پر روشن ہے ۔
11. یعنی ہر چیز پر غالب۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے ۔ ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے ۔
12. یعنی اس غلبے اور قوتِ قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے ۔
13. یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں ، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے ۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے ۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر ، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے ۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے ،اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں ۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے، نہ اس میں کوئی ترمیم پیش کرسکتے ہو ۔
14. یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation ) سے انسان کو پیدا کیا ،اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں ۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں ۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں ۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے ، حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell )والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں ۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا ، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے ، اور پھر اس کی نسل تناسُل (Procreation )کی مختلف صورتوں سے چلی ہے ۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں ۔(مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ،آل عمران حاشیہ 53 صفحات ۲۵۹۔ النسآء حاشیہ1 ۳۱۹۔ الانعام حاشیہ 63 ۵۶۶۔جلد دوم،الاعراف حاشیہ 10،145 صفحات ۱۰۔۱۱ الحجر حاشیہ 17۔۱۰۶۔۵۰۴۔ جلد سوّم ، الحج حاشیہ 5 صفحات ۲۰۱۔ المؤمنون حاشیہ 12،13 ۲۶۹)۔
15. یعنی ایک باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء و جوارح کے ساتھ مکمل کر دیا۔
16. روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے ، بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے ، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی ، صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے ۔اِس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی ۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم،فکر ، شعور، ارادہ،فیصلہ،اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تُو ہیں ۔ ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے ، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے ، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے ۔ یہ اوصاف کسی بے علم ،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں ۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم ، صفحات ۵۰۴۔۵۰۵)۔
17. یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔’’اُس کی تخلیق کی‘‘ ، ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘،’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘،’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا ۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘،’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘،’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے ۔
کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے ۔ اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں ، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں ، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ اس کے بعد ’’دِل ‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind )ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔
18. یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اِتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے ۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ دِل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہِ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اِس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو ، اور اس سے کچھ اونچے اُٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو ۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریّت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو ، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذّتوں میں غرق ہو جاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے ، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا ، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا۔
19. رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے ۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے ۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ ’’ وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں ‘‘ ،اور ’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اُٹھیں گے ‘‘۔
20. اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے ۔’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے ؟( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ’’ہم ‘‘ نکل چکا ہوتا ہے ۔ اس جسم کا نام ’’ہم ‘‘ نہیں ہے ۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ’’ہم ‘‘پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے ۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا ۔ اور جب یہ ’’ہم ‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم ‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا ۔اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ‘ کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کر تا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا ۔پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے ۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’ کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘ ؟تو یہ ا نکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلے اس ’’ ہم‘‘اور اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا۔اس ’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہ کہیں سے کوئلہ کہیں سے لوہاکہیں سے چونا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ ہم‘‘ براجمان ہو گیا ۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس کالبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ ہم ‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سر نو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے ، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘۔یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-free )یہاں سے نکل جائیں ۔پھر ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو ۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے ۔
21. یعنی تمہارا ’’ہم ‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتۂ موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا ۔ اُس کا کوئی ادنیٰ جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا ۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Cuatody )میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا ۔
اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے :
۱)۔اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی ، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی ۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver )کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے ۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔(اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔الانعام ، ۹۳۔ النحل ، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔۹۴۔
۲)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی ر ہتی ہے ۔قرآن کے الفاظ ’’ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے ۔
۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life )نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی ‘ اس کی وہ اَنا (Ego )ہے جو ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم‘‘ اور’’ تم‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کی جاتی ہے ۔یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact )نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو ۔ اور یہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے ۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی ۔