22. اب اُس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جب اپنے رب کی طرف پلٹ کر یہ انسانی ’’اَنا‘‘ اپنا حساب دینے کے لے اس کے حضور کھڑی ہو گی ۔
23. یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں ، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں ، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲ ۔ ۶۰۳ ۔۶۰۴۔جلد دوّم ص، ۲۷۶ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)
تفہیم القرآن جلد اول سورہ بقرۃ حاشیہ 228،الانعام حواشی 1،141 ،جلد دوم یونس حاشیہ 26، جلد سوم المؤمنون حاشیہ91
**************
24. اشارہ ہے اُس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا ۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔‘‘
اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی واصل
بجہنم ہوں گے ۔
25. یعنی دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے ۔
26. بالفاظ دیگر وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے ۔نفس کی کبریائی انہیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی۔
27. یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ۔ اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں ۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں ۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔
بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں ،بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں ۔
28. رزق سے مُراد ہے رزق حلال ۔ مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا ۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے ۔
29. بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشرٍ۔’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کبھی کسی کان نے سُنا ، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘ ۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرہ بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد ، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سند وں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
30. یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ مومن سے مُراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اُس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے ۔ اس کے برعکس فاسق وہ جو فسق (خروج از طاعت ،یا با الفاظ دیگر بغاوت ، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ) کا رویّہ اختیار کرے ۔
31. یعنی نہ دُنیا میں ان کا طرزِ فِکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے ۔
32. یعنی وہ جنّتیں اُن کی سیر گاہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہی ان کی قیام گاہیں بھی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
33. ’’عذاب اکبر‘‘ سے مُراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔اس کے مقابلہ میں ’’ عذاب ادنیٰ ‘‘ کا الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مُراد وہ تکلیفیں ہیں جو اِسی دُنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ،اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ،نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ،زلزلے ،سیلاب، وبائیں ،قحط ،فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ،کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ اُن آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آ جائیں اور اُس طرز فِکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اُس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اِنتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دِلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اُسی کار فرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ،اور نہ کسی جِن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا ، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ۔ ان سے سبق لے کر دُنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے ۔
34. ’’رب کی آیات ‘‘یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آ جاتی ہیں ۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں:
۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں ۔
۲۔وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہیں ۔
۳۔وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں ، اسکے لاشعور میں ، اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں ۔
۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں ۔
۵۔وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں ۔
۶۔ اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے سے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں ۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے ، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے ،بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے ۔ تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے ۔پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر او ر خود مختاری کی روش سے باز آ جا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں ، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں ، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے ، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے ، اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے ، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے ۔
35. خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضورؐ کی رسالت میں ، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے ۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ (آیات نمبر ۲ اور ۳ )میں بیان ہوا تھا ۔ کفارِ مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے ۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا ۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتابِ الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے ۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو ۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن میں سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو دی گئی تھی ۔لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے ۔