36. یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے کہ بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ (علیہ السّلام)کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پِسی ہوئی قوم ہدایت پاکر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی ۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہلِ عرب سے فرمایا جا رہا ہے کے جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھیجی گئی تھی،اسی طرح تمہاری ہدایت کے لیے یہ کتاب بھیجی گئی ہے ۔
**************
37. یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنا یا اور جن مدارج پر ان کو پہنچایا ،وہ محض ا ن کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا کہ گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بامِ عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرامت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکامِ الہٰی کی پیروی میں دکھائی ۔خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دُنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے ۔ انہوں نے جب حق پر ستی میں ہر خطر ے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفارِ عرب کو متنبہ کر نا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا ۔ اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کر صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے ۔اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے ۔
38. یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست رو ائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے ۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں ۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا ۔
39. یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویّے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا ۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے ۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے ۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامانِ عبرت بن کر رہ گئے ۔
40. سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے ،بلکہ اِس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے ۔ ا س میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے ، اُسی طرح یہ دعوتِ اسلام بھی اِس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے ، لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے ۔
41. یعنی تم جو کہتے ہو کہ آخر کار اللہ کی مدد آئے گی اور ہمیں جھٹلانے والوں پر اُس کا غضب ٹوٹ پڑے گا، تو بتاؤ وہ وقت کب آئے گا ؟ کب ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا؟
42. یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو۔خُدا کا عذاب آگیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا ۔ اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے ۔ عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔