Tafheem ul Quran

Surah 33 Al-Ahzab, Ayat 28-34

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا‏ ﴿33:28﴾ وَاِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَالدَّارَ الۡاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ اَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿33:29﴾ يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ مَنۡ يَّاۡتِ مِنۡكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفۡ لَهَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَيۡنِ ​ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ ﴿33:30﴾ وَمَنۡ يَّقۡنُتۡ مِنۡكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتَعۡمَلۡ صَالِحًـا نُّؤۡتِهَـآ اَجۡرَهَا مَرَّتَيۡنِۙ وَاَعۡتَدۡنَا لَهَا رِزۡقًا كَرِيۡمًا‏ ﴿33:31﴾ يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَيَـطۡمَعَ الَّذِىۡ فِىۡ قَلۡبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۚ‏ ﴿33:32﴾ وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا ۚ‏ ﴿33:33﴾ وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا‏ ﴿33:34﴾

28 - 41 اے نبیؐ! اپنی بیویوں سے کہو ، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں۔ 29 - اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔42 30 - نبیؐ کی بیویو، تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا 43 ، اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے44 ۔ 31 - اور تم میں سے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے45 اور ہم نے اس کے لیے رزقِ کریم مہیا کر رکھا ہے۔ 32 - نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔46 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔ 47 33 - اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو۔48 اور سابق دَورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ 49 نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔
اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہل بیت نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ۔50
34 - یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔51 بے شک اللہ لطیف52 اور باخبر ہے۔ ؏۴


Notes

41. یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگِ احزاب اور بنی قُریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا :’’ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْاءَ لْنَنِی النفقۃ،‘‘ یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ‘‘۔اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپؐ کے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاجِ مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔

42. اس آیت کے نزول کے وقت حضورؐ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں ، حضرت سَودہؓ، حضرت حفصہؓ، اور حضرت ام سَلمہؓ۔ ابھی حضرت زینب ؓ سے حضورؐ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام لابن العربی طبع مصر ۱۹۵۸ عیسوی ، جلد ۳،ص ۱۳۔۱۵۱۲)۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپؐ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے گفتگو کی اور فرمایا ’’ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لے لو، پھر فیصلہ کرو ‘‘پھر حضورؐ نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی۔ انھوں نے عرض کیا ،’’ کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو چاہتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد حضورؐ باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے دیا تھا۔ مسند احمد ، مسلم ، نَسائی)

اِصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں ، یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضورؐ کو حکم دیا تھا۔ اگر ازواجِ مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپؐ سے آپ جُدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضورؐ کے جدا کرنے سے ہوتیں ، جیسا کہ آیت کے الفاظ’’ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن حضورؐ پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں اُن کو جدا کر دیتے ، کیوں کہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور اُن سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا ، کیوں کہ وہ دُنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِؐ پاک سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کے لیے باقی نہ رہا، کیوں کہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جُدا کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون اختیار کرتیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا۔

اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اُس کے استعمال سے روک سکتا ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے ، چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے ، اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یوں ہی ضائع ہو جانے دے۔

۲۔اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو۔ مثلاً اگر وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ یا’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ نا چاقی اور جھگڑے کی حالت میں ، یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے ، کیوں کہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی۔۔دوّم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے۔ اگر وہ غائب ہو تو اُسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے ، اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سُننے چاہییں۔ جب تک وہ سُنے نہیں ، یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا۔

۳۔اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اُسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھ جائے ، یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی ، تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا۔ یہ رائے حضرت عمرؓ،ِ حضرت عثمانؓ ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ،جابر بن زید، عطاء، مجاہد، شَعبِی ، نَخَعِی، امام مالک، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام اَوزاعی، سفیان ثَوری اور ابو ثَور کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری، قتَادہ اور زُہْری کی ہے۔

۴۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے ، مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے ، یا اتنی مدّت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدّت تک اس کو حاصل رہے گا۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا۔

۵۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ مبہم الفاظ جن سے مدّعا واضح نہ ہوتا ہو، مؤثر نہیں ہو سکتے۔

۶۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہے ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ دوسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ تیسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے۔‘‘ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں :

الف۔ ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنیفہ کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی(یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا ، لیکن عدّت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں )۔ اور اگر شوہر نے کہا ہو کہ’’ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی پڑے گی( معنی عدّت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو، یا اس کی تصریح کی ہو تو اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ و ہ بصراحت اپنے اوپر تین طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق دی۔

ب ۔ ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنیفہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا دینے کی ہو، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیارِ طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔امام مالک ؒ کے نزدیک مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا۔

ج۔ ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ‘‘ کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن۔

۷۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابو الدرداءؓ ، ابن عباسؓ، اور ابن عمرؓ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نساء ہ فا خترنہ اکان ذٰلک طلاقاً؟’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضورؐ ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا ، پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا‘‘ ؟اس معاملہ میں صرف حضرت علیؓ اور زیدؓ بن ثابت کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

43. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہّرات سے کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا۔ بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمّہ داریاں بھی بہت سخت ہیں ، اس لیے ان کا اخلاقی رویہّ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لِئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ،’’اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہو جائے گا‘‘ (الزمر۔آیت ۶۵) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ حضورؐ سے شرک کا کوئی اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کو اور آپؐ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احتراز لازم ہے۔

44. یعنی تم اس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ نبی کی بیویاں ہونا تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے ، یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ اُن کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آ سکتی ہے۔

45. گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور بُرائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ اُن کی بُرائی تنہا انہی کی بُرائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ بُرے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔

اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکابِ خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا۔ مثلاًمسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے۔ محرّمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشدّ ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا۔

46. یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے ، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جوحضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں ، اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں ، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں ؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھنے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے ؟

رہا یہ فقرہ کہ ’’ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں نکلتا عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہیے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں ‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’ تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے ، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

47. یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو ، اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو ، اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذاں دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔

اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے ، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے ناچے ، تھرکے ،بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess )بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے ؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔

48. اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار ‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’ وقار ‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’ قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو ‘‘۔اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’ سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو ‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے ، اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں ، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے ، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے ؟ جواب میں فرمایا من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کی بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔’’ عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ۴۹)

قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں ، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں ، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں ، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں ، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’ مسافر نوازی ‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں ، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ز وائدالزھد میں ، اور ابن المُنذِر، ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔

49. اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج ‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔

تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے ‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’ بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’ بُرج ‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہونگے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن ابی شُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’ تبرُّج کے معنی ہیں نازو اد ا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا ‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا ’’ عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدعی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسن کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔

جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک ، آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں ، جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’ اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ ، آیت ۵۰ میں ، جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔‘‘ تیسرے سُورۂ فتح ، آیت ۲۶ میں ، جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’ حمیت جاہلیہ ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’ تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا ، ستاروں کی گردش سے فال لینا ، اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا ، چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز و ادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آگیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔

50. جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’ اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’ گھر والوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں ، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے ، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’ اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل ، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓ اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا بتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں ‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق ، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ کے اعتبارسے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

لیکن اگر کوئی کہ کہے کہ ’’ اہل البیت ‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں ‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے گندگی کو دور کر دے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائیے )۔ حضورؐ نے فرمایا ،’’ تم الگ رہو، تم توخیر ہو ہی۔‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم ، ترمذی۔ احمد،ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ ، حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔

اِسی طرح ا ن لو گوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے ‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا ربا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا ‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں ‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی ‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا ‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں ، اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔

ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’ اہل البیت ‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراد اس سے خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں ، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔’’ مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘‘ (المائدہ۔آیت ۶)۔

51. اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے ،جس کے دو معنی ہیں : ’’ یاد رکھو ‘‘ اور’’ بیان کرو‘‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو،تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس لیے تمہاری ذمّہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو ، جو کچھ تم سُنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔

اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مُراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ کگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آ جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے ، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سُنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سیرتِ پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھے وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ(جو تلاوت کی جاتی ہیں )کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مُراد صرف قرآن ہے ، کیونکہ ’’تلاوت‘‘ کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد کے لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے اُن منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَتَّبَعُوْ امَا تَتْلُو االشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔’’ اُنہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سُناتے تھے )شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب ا للہ کی آیات سُنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔

52. اللہ لطیف ہے۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔