Tafheem ul Quran

Surah 33 Al-Ahzab, Ayat 35-40

اِنَّ الۡمُسۡلِمِيۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِيۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِيۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِيۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِيۡنَ وَالصّٰٓـئِمٰتِ وَالۡحٰفِظِيۡنَ فُرُوۡجَهُمۡ وَالۡحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿33:35﴾ وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ ؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿33:36﴾ وَاِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِىۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخۡفِىۡ فِىۡ نَفۡسِكَ مَا اللّٰهُ مُبۡدِيۡهِ وَتَخۡشَى النَّاسَ ​ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰٮهُ ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآئِهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ مَفۡعُوۡلًا‏ ﴿33:37﴾ مَا كَانَ عَلَى النَّبِىِّ مِنۡ حَرَجٍ فِيۡمَا فَرَضَ اللّٰهُ لهٗ ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِى الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَا  ۙ‏ ﴿33:38﴾ اۨلَّذِيۡنَ يُبَـلِّـغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَهٗ وَلَا يَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيۡبًا‏ ﴿33:39﴾ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا‏ ﴿33:40﴾

35 - بالیقین 53 جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں 54 ، مومن ہیں 55 ، مطیع فرمان ہیں 56 ، راست باز ہیں 57 ، صابر ہیں 58 ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں 59 صدقہ دینے والے ہیں 60 ، روزہ رکھنے والے ہیں 61 ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں 62 ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں 63 ، اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔ 64 36 - 65 کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ 66 37 - 67 اے نبیؐ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا 68 کہ ’’اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر‘‘۔ 69 اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو 70 پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا۔ 71 تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا 72 تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں 73 اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔ 38 - نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو 74 یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے 75 39 - (یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے۔ 76 40 - (لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے 77 ؏۵


Notes

53. پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔

54. یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔

55. یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے ، بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسی کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُولا۔ایمان کا لذت شناس ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔

اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔

لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں۔

56. یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں ، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔

57. یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ ، فریب، بدنیتی ، دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جوایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔

58. یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

59. یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے۔

60. اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار ، کوئی مصیبت زدہ ، کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔

61. اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں۔

62. اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں۔

63. اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسی طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی ہو تو انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں :

عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ والصَّدَ قَۃ کل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’ معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز ، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’ جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔‘‘

64. اس آیت میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قدر و قیمت کن اوصاف کی ہے۔ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ( Basic values ) ہیں جنہیں ایک فقرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عمل کے لحاظ سے تو بلاشبہ دونوں صنفوں کا دائرۂ کار الگ ہے۔ مردوں کو زندگی کے کچھ شعبوں میں کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور شعبوں میں اگر یہ اوصاف دونوں میں یکساں موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دونوں کا مرتبہ یکساں اور دونوں کا اجر برابر ہو گا۔ اس لحاظ سے ان کے مرتبے اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک نے چولھا چکی سنبھالا اور دوسرے نے خلافت کی مسند پر بیٹھ کر احکام شریعت جاری کیے ، ایک نے گھر میں بچے پالے اور دوسرے نے میدانِ جنگ میں جا کر اللہ اور اس کے دین کے لیے جان لڑائی۔

65. یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں۔

66. ابن عباس ، مجاہد ، قَتادہ ، عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیدؓ کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینبؓ نے کہا ، انا خیر منہ نسباً، ’’ میں اُس سے نسب میں بہتر ہوں ‘‘۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لاارضاہ لنفسی وانا ایّم قریش’’۔ میں اُسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں ‘‘۔اسی طرح کا اظہارِ نا رضا مندی اُن کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی(اُمَیْمہَ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضورؐ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے ، اور اس کا پیغام آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے دہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینبؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامّل سرِ اطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زیدؓ کی طرف سے دس دینار اور ۶۰ درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیے ، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا۔

یہ آیت اگر چہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے ، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظامِ زندگی پر ہوتا ہے ، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد، یا قوم ، یا ادارے ، یا عدالت ، یا پارلیمنٹ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اُس میں وہ خود اپنی آزادیِ رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسولؐ کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا ، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویّوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکمِ خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے ، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔

67. یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا کلام منکرین کومطمئن نہیں کرسکتا تھا۔اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تو انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

68. مراد ہیں حضرت زید ، جیسا کہ آگے بصرا حت بیان فرما دیا گیا ہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا احسان کیا؟اس کو سمجھنے کے لیے ضروری کہ مختصراً یہاں اُن کا قصّہ بیان کر دیا جائے۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حا رِ ثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور اُن کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے اُن میں حضرت زید بھی تھے۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے۔ انہوں نے مکّہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت مین نذر کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت خدیجہ ؓ کا جب نِکاح ہوا تو حضورؐ نے ا ن کے ہاں زید کو دیکھا اور ا ن کی عادات و اطوار آپؐ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپؐ نے انہیں حضرت خدیجہؓ سے مانگ لیا۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اُس خیرالخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی۔ کچھ مدت بعد ا ن کے باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچّہ مکّہ میں ہے۔وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں ، آپ ہمارا بچّہ ہمیں دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فِدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں۔ انہوں نے کہا یہ تو آپؐ نے انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے۔ آپ بچے کو بُلا کر پوچھ لیجیے۔ حضورؐ نے زید ؓ کو بُلایا اور ان سے کہا اِن دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ،یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا۔ آپؐ نے فرمایا ، اچھا ، تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو۔ انہوں نے جواب دیا میں آپؐ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا، زید ، کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اِس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں اُن کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دُنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سُن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے۔ حضورؐ نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمعِ عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ، آج سے زید میرا بیٹا ہے ، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمدؐ کہنے لگے۔ یہ سب واقعات نبوّت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوّت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپؐ سے نبوّت کا دعویٰ سُنتے ہی اسے تسلیم کر لیا۔ ایک حضرت خدیجہؓ ، دوسرے حضرت زیدؓ، تیسرے حضرت علیؓ، اور چوتھے حضرت ابو بکرؓ۔ اُس وقت حضرت زیدؓ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضورؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے۔ ہجرت کے بعد ۴ ھج میں نبی صلی اللہ ولیہ و سلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ سے ان کا نکاح کر دیا ، اپنی طرف سے اُن کا مہر ادا کیا ، اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔

یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ اِن الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ ’’ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا۔‘‘

69. یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت زید ؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ حضرت زینبؓ نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح میں جانا قبول کر لیا تھا ، لیکن وہ اپنے دِل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں ،اُن کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں ، اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زیدؓ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدّت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

70. بعض لوگوں نے اس فقرے کا اُلٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت زینبؓ سے نکاح کے خواہشمند تھے ، اور آپؐ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زیدؓ ان کو طلاق دے دیں ، مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپؐ نے معاذاللہ اوپری دِل سے ان کو منع کیا، اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ’’ تم دِل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔‘‘ حالاں کہ اصل بات اس کے برعکس ہے۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱۔۲۔۳۔اور۔۷ کے ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زیدؓ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زیدؓ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا۔ لیکن چوں کہ حضورؐ جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے .........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپؐ کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔اِس لیے آپؐ اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اسی بنا پر جب حضرت زیدؓ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپؐ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اِس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں ، ورنہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اُچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اُس کے لحاظ سے حضورؐ کی یہ بات اُس کو فروتر نظر آئی کہ آپؐ نے قصداً زیدؓ کو طلاق سے روکا تاکہ آپؐ اُس کام سے بچ جائیں جس میں آپؐ کو بدنامی کا اندیشہ تھا ، حالاں کہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپؐ سے لینا چاہتا تھا۔’’ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘ کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں ، مگر جب زیدؓ نے آکر اُن کی شکایت آپؐ سے کی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینبؓ سے کرنے والا ہوں ، تم زیدؓ سے یہ بات کہتے وقت اُس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ‘‘ (ابن جریر۔ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم)

علامۂ آلوسی نے بھی تفسیر رُوح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زیدؓ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینبؓ تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی‘‘

71. یعنی جب زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدّت پور ی ہو گئی۔’’حاجت پوری کر چکا‘‘ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زیدؓ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اور یہ صورتِ حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی، کیوں کہ عدّت کے دَوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے ، اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس لیے مطلّقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اُسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدّت گزر جائے۔

72. یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔

73. یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں ، ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ، اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا۔

74. ان الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو اس طرح کا نکاح محض مباح ہے مگر بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ ایک فرض تھا جو اللہ نے آپ پر عائد کیا تھا۔

75. یعنی انبیاء کے لیے ہمیشہ سے یہ ضابطہ مقرر رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم بھی آئے اس پر عمل کرنا ان کے لیے قضائے مُبْرَم ہے جس سے کوئی مفر اُن کے لیے نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر کوئی کام فرض کر دے تو اسے وہ کام کر کے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دُنیا اس کی مخالفت پر تُل گئی ہو۔

76. اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کسی اور کی باز پُرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

77. اس ایک فقرے میں اُن تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس نکاح پر کر رہے تھے۔

اُن کا اوّلین اعتراض یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپؐ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’’ محمّدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘‘، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا’’ مگر وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ‘‘، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصّبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا’’ اور وہ خاتم النبیین ہیں ‘‘، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح اُن کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسمِ جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں۔

اس کے بعد مزید زور دینے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘ یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں اِس رسمِ جاہلیّت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اب اُس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اُس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دُنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دُنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اُس کی سُنت ہونا ہی لوگوں کے دِلوں سے کراہیت کے ہر تصوّر کا قلع قمع کر دے۔

افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک گروہ نے اس آیت کی غلط تاویلات کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس لیے ختمِ نبوت کے مسئلے کی پوری توضیح اور اس گروہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی تردید کے لیے ہم نے اِس سورہ کی تفسیر کے آخر میں ایک مفصل ضمیمہ شامل کر دیا ہے۔