Tafheem ul Quran

Surah 33 Al-Ahzab, Ayat 41-52

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اذۡكُرُوۡا اللّٰهَ ذِكۡرًا كَثِيۡرًا ۙ‏ ﴿33:41﴾ وَّ سَبِّحُوۡهُ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلًا‏ ﴿33:42﴾ هُوَ الَّذِىۡ يُصَلِّىۡ عَلَيۡكُمۡ وَمَلٰٓـئِكَتُهٗ لِيُخۡرِجَكُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ ؕ وَكَانَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَحِيۡمًا‏ ﴿33:43﴾ تَحِيَّتُهُمۡ يَوۡمَ يَلۡقَوۡنَهٗ سَلٰمٌ ۖۚ وَاَعَدَّ لَهُمۡ اَجۡرًا كَرِيۡمًا‏  ﴿33:44﴾ يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ‏ ﴿33:45﴾ وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذۡنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيۡرًا‏ ﴿33:46﴾ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ بِاَنَّ لَهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ فَضۡلًا كَبِيۡرًا‏  ﴿33:47﴾ وَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَدَعۡ اَذٰٮهُمۡ وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ﴿33:48﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَكَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ فَمَا لَـكُمۡ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ عِدَّةٍ تَعۡتَدُّوۡنَهَا ۚ فَمَتِّعُوۡهُنَّ وَسَرِّحُوۡهُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا‏ ﴿33:49﴾ يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ وَمَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِىۡ هَاجَرۡنَ مَعَكَ وَامۡرَاَةً مُّؤۡمِنَةً اِنۡ وَّهَبَتۡ نَفۡسَهَا لِلنَّبِىِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنۡ يَّسۡتَـنۡكِحَهَا خَالِصَةً لَّـكَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِىۡۤ اَزۡوَاجِهِمۡ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ لِكَيۡلَا يَكُوۡنَ عَلَيۡكَ حَرَجٌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿33:50﴾ تُرۡجِىۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُـْٔوِىۡۤ اِلَيۡكَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَمَنِ ابۡتَغَيۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكَ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ تَقَرَّ اَعۡيُنُهُنَّ وَلَا يَحۡزَنَّ وَيَرۡضَيۡنَ بِمَاۤ اٰتَيۡتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَلِيۡمًا‏ ﴿33:51﴾ لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكَ حُسۡنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ​ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ رَّقِيۡبًا‏ ﴿33:52﴾

41 - اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو 42 - اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۔78 43 - وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دُعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے 79 44 - جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہوگا 80 اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔ 45 - اے نبیؐ، 81 ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر 82 ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر،83 46 - اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے 84 والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔ 47 - بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو (تم پر)ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ 48 - اور ہر گز نہ دبو کفار و منافقین سے ، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔ 49 - اَے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو 85 تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو۔ لہذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ 86 50 - اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں 87 ، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں ، اور تمہاری وہ چچازاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے ، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نؐبی اسے نکاح میں لینا چاہے 88۔ یہ رعایت خالصتاً تمہارے لیے ہے ، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے 89 ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں۔ (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے )تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے 90 ، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ 51 - تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی، اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی 91 اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے ، اور اللہ علیم و حلیم ہے 92 52 - اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں ، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویوں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، 93 البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے 94 اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ؏۶


Notes

78. اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہو اور دینِ حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بیہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سُنتے رہیں ، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں ، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں ، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دِنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے ‘‘ کا مفہوم حاشیہ نمبر ۶۳میں بیان کیا جا چکا ہے۔ صبح و شام تسبیح کرنے سے مُراد دائماً تسبیح کرتے رہنا ہے۔ اور تسبیح کے معنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے ہیں نہ کہ محض دانوں والی تسبیح پھرانے کے۔

79. اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دِلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کُڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمہارے اوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعہ سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی ، کفر و جاہلیّت کی تاریکیوں سے نِکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے۔ اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصّہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسول پر نِکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہّ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محروم ہو جاؤ۔

صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت ، مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں ، یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اپنی عنایات سے اِنہیں سرفراز کر ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکر الجمیل فی عباداللہ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے بندوں کے درمیان ناموری عطا فرماتا ہے اور تمہیں اِس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمہاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمہاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔

80. اصل الفاظ ہیں تَحِیَّتھُمْ یَوْمَ یَلقَوْنَہٗ سَلٰمٗ’’ ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلام ہو گا۔‘‘ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السّلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا ، جیسا کہ سُورۂ یٰسین میں فرمایا

کہ سَلاَم قَوْلاًمِّنْ رَّ بٍّ رَّ حِیْمٍ(آیت۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے ، جیسے سورۂ نحل میں ارشاد ہوا اَلَّذِیْنَ تَتْوَفّٰھُمُ الْمَلیٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلاَم عَلَیْکُمُ ادْخُلُواالْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ،’’جن لو گوں کی روحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے ، ان سے وہ کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر ، داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے ‘‘(آیت ۳۲)تیسرے یہ کہ وہ خودآپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے ،جیسے سورۂ یونس میں فرمایا ’دَعْوھُم فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتھُمْ فِیْھَا سَلام وَاٰخِرُ دَعْوٰ ھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ ‘‘ وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا ، پاک ہے تیری ذات ، ان کا تحیہ ہو گا سلام اور ان کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ‘‘۔ (آیت ۱۰)

81. مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں ، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔

82. نبی کو’’ گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں

ایک قولی شہادت ، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ،انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو ، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔

دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے ، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے ، کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔

تیسرے اُخروی شہادت ، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے ، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعا لیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لو گوں کے اعمال پر شہادت دیں گے ، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے عمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ ، آیات ۱۷۔۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لو گوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔حم السجدہ ۲۰۔۲۱) رہے انبیاء علیم السلام ، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے :

’’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ (المائدہ۔۱۰۹) جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، پھر پوچھے گا کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔

اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے :

وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔۱۱۷)

میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔

یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے :

وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔۱۴۳)

اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹)

اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور ( اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔

اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی ، ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس ، ابو الدّردا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔

83. یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بناپر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

84. یہاں بھی ایک عام مبلغ کی تبلیغ اور نبی کی تبلیغ کے درمیان وہی فرق ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ دعوت اِلی اللہ تو ہر مبلّغ دیتا اور دے سکتا ہے ، مگر وہ اللہ کی طرف سے اِس کام پر مامور نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن (Sanction )سے دعوت دینے اُٹھتا ہے۔ اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے ربّ العالمین کی فرمانروائی کا زور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے بھیجے ہوئے داعی کی مزاحمت خود اللہ کے خلاف جنگ قرار پاتی ہے ، جس طرح دُنیوی حکومتوں میں سرکاری کام انجام دینے والے سرکاری ملازم کی مزاحمت خود حکومت کے خلاف جنگ سمجھی جاتی ہے۔

85. یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نِکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ تزْویج کے ہیں اور وطی کی لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلامِ عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ

اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاسل للجماع ثم استعیر للعقد۔’’ لفظ نکاح کی اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘ اِس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان ، یا دُنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اُسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجاز و استعارے کے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دُنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔

جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے ، ان میں نکاح ایک اصلاحی لفظ ہے جس سے مُراد یا تو مجرد عقد ہے ، یا پھر وطی بعدِ عقد۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح۔

86۔

یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً اُسی زمانے میں طلاق کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے پر نازل ہوئی تھی، اس لیے پچھلے سلسلۂ بیان اور بعد کے سلسلۂ بیان کے درمیان اس کو رکھ دیا گیا۔ اس ترتیب سے یہ بات خود مترشح ہوتی ہے کہ یہ تقریر ما سبق کے بعد اور تقریر ما بعد سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

اس آیت سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱) آیت میں اگرچہ’’ مومن عورتوں ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ کتابی عورتوں کے معاملہ میں قانون وہ نہیں ہے جو یہاں بیان ہوا ہے ، لیکن تمام علمائے اُمّت کا اس پر اتفاق ہے کہ معنًی یہی حکم کتابیات کے بارے میں بھی ہے۔ یعنی کتابی عورت سے بھی کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو تو اس کی طلاق ، اس کے مہر، اس کی عدّت اور اس کو مُتعۂ طلاق دینے کے جملۂ احکام وہی ہیں جو مومن عورت سے نکاح کی صورت میں ہیں۔ علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مخصوص طور پر صرف مومن عورتوں کا ذکر جو کیا ہے اس سے مقصود دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مومن عورتیں ہی موزوں ہیں۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح جائز ضرور ہے مگر مناسب اور پسندیدہ نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر قرآن کے اس انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل ایمان سے متوقع یہی ہے کہ وہ مومن عورتوں سے نکاح کریں گے۔

۲) ’’ہاتھ لگانے ‘‘ یا ’’مَس‘‘ کرنے سے مُراد لغت کے اعتبار سے تو محض چھونا ہے ، لیکن یہاں یہ لفظ کنایۃً مباشرت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر شوہر نے مباشرت نہ کی ہو تو خواہ وہ عورت کے پاس تنہائی میں رہا ہو، بلکہ اسے ہاتھ بھی لگا چکا ہو تب بھی طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم نہ آئے۔ لیکن فقہاء نے برسبیلِ احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خَلوت صحیحہ ہو جائے (یعنی جس میں مباشرت ممکن ہو) تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم آئے گی اور سقوطِ عدّت صرف اُس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔

۳) طلاق قبلِ خلوت کی صورت میں عدّت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حقِ رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر لے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکم صرف طلاق قبلِ خلوت کا ہے۔ اگر خلوت سے پہلے عورت کا شوہر مر جائے تو اس صورت میں عدّتِ وفات ساقط نہیں ہوتی بلکہ عورت کو وہی چار مہینے دس دن کی عدّت گزارنی ہوتی ہے جو منکوحۂ مدخولہ کے لیے واجب ہے۔ (عدّت سے مُراد وہ مدّت ہے جس کے گزر نے سے پہلے عورت کے لیے دوسرا نکاح جائز نہ ہو۔)

۴) مَلَکُمْ عَلَیھِنَّ مِنْ عِدَّ ۃٍ(تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے ) کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عِدّت عورت پر مرد کا حق ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صرف مرد ہی کا حق ہے۔ دراصل اس میں دو حق اور بھی شامل ہیں۔ ایک حقِ اولاد۔ دوسرے حق اللہ یا حق الشرع۔ مرد کا حق وہ اس بنا پر ہے کہ اِس دَوران میں اُس کو رجوع کر لینے کا حق ہے ، نیز اس بنا پر کہ اس کی اولاد کے نسب کا ثبوت اس بات پر منحصر ہے کہ عدّت کے زمانہ میں عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا ظاہر ہو جائے۔ اولاد کا حق اس میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے با پ سے بچے کے نسب کا ثابت ہونا اس کے قانونی حقوق قائم ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے اخلاقی مرتبے کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کا نسب مشتبہ نہ ہو۔ پھر اس میں حق اللہ (یا حق الشرع) اس لیے شامل ہو جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کی پروانہ بھی ہو تو خدا کی شریعت ان حقوق کی حفاظت ضروری سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو یہ پروانہ بھی لکھ کر دیدے کہ میرے مرنے کے بعد یا مجھ سے طلاق لے لینے کے بعد تیرے اُوپر میری طرف سے کوئی عدت واجب نہ ہو گی تب بھی شریعت کسی حال میں اس کو ساقط نہ کرے گی۔

۵) فَمَتِّعُوْ ھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحاًجَمِیْلاً (ان کو کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو) اس حکم کا منشا دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر پورا کرنا ہو گا۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر کیا گیا تھا اور پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اس صورت میں نصف مہر دینا واجب ہو گا جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۷ میں ارشاد ہوا ہے۔ اس واجب سے زائد کچھ دینا لازم نہیں ہے مگر مستحب ہے۔ مثلاً یہ بات پسندیدہ ہے کہ نصف مہر دینے کے ساتھ مرد و ہ جوڑا بھی عورت کے پاس ہی رہنے دے جو دُلہن بننے کے لیے بھیجا گیا تھا، یا اور کچھ سامان اگر شادی کے موقع پر اسے دیا گیا تھا تو وہ واپس نہ لے لیکن اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا واجب ہے ، اور یہ ’’کچھ نہ کچھ ‘‘ آدمی کی حیثیت اور مقدرت کے مطابق ہونا چاہیے ، جیسا کہ بقرہ کی آیت ۲۳۶ میں فرمایا گیا ہے۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ مُتعۂ طلاق دینا بہرحال واجب ہے خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ (اسلامی فقہ کی اصطلاح میں مُتعۂ طلاق اُس مال کو کہتے ہیں جو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت عورت کو دیا جاتا ہے )۔

۶) بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی تھُکّا فضیحتی کے بغیر شریفانہ طریقے سے علیٰحدگی اختیار کر لی جائے۔ ایک آدمی کو اگر عورت پسند نہیں آئی ہے یا کوئی اور وجہ شکایت پیدا ہوئی ہے جس کی بنا پر وہ اس عورت کو نہیں رکھنا چاہتا تو بھلے آدمیوں کی طرح اسے طلاق دے اور رخصت کر دے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے عیوب لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے تاکہ کوئی دوسرا بھی اس عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے اس ارشاد سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق کے نفاذ کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ معلّق کرنا خدائی تشریع کی حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے ، کیوں کہ اس صورت میں ’’ بھلے طریقے سے رخصت کرنے ‘‘ کا کوئی امکان نہیں رہتا، بلکہ مرد نہ بھی چاہے تو تھُکّا فضیحتی اور بدنامی و رسوائی ہو کر رہتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں اس امر کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کہ مرد کا اختیارِ طلاق کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہو۔ آیت بالکل صراحت کے ساتھ ناکح کو طلاق کا اختیار دے رہی ہے اور اُسی پر یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اگر وہ ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو چھوڑنا چاہے تو لازماً نصف مہر دے کر یا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال دے کر چھوڑے۔ اس سے آیت کا مقصود صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کھیل بننے سے روکنے کے لیے مرد پر مالی ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا جائے تاکہ وہ خود ہی اپنے اختیارِ طلاق کو سوچ سمجھ کر استعمال کرے اور دو خاندانوں کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی مداخلت کی نوبت نہ آنے پائے ، بلکہ شوہر سرے سے کسی کو یہ بتانے پر مجبور ہی نہ ہو کہ وہ بیوی کو کیوں چھوڑ رہا ہے۔

۷) ابن عباس، سعید بن المُسَیِّب ، حسن بصری ، علی بن الحسین (زین العابدین) ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے آیت کے الفاظ ’’جب تم نکاح کرو پھر طلاق دے دو ‘‘ سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اُسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے نکاح ہو چکا ہو۔ نکاح سے پہلے طلاق بے اثر ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے ، یا فلاں قبیلے یا قوم کی عورت سے یا کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘۔ تو یہ قول لغو و بے معنیٰ ہے ،اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو سکتی۔ اس خیال کی تائید میں یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: لا طلاق لا بن اٰدم فی ما لا یملک ،’’ ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں ہے اُس کے بارے میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا‘‘ (احمد، ابو داؤد ، ترمذی، ابن ماجہ ) اور لاَ طلاق قبل النکاح’’،نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ‘‘۔ ( ابن ماجہ)۔ مگر فقہاء کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ اِس آیت اور اِن احادیث کا اطلاق صرف اِس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک غیر عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو یوں کہے کہ ’’ تجھ پر طلاق ہے ‘‘ یا ’’ میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ یہ قول بلا شبہ لغو ہے جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ یوں کہے کہ ’’ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق ہے۔‘‘ تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ دراصل وہ شخص اس امر کا فیصلہ اور اعلان کرتا ہے کہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وارد ہو گی۔ یہ قول لغو و بے اثر نہیں ہو سکتا ، بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اُسی وقت اُ سپر طلاق پڑ جائے گی۔ یہ مسلک جن فقہاء کا ہے ان کے درمیان پھر اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس نوعیت کے ایقاعِ طلاق کی وسعت کس حد تک ہے۔

امام ابو حنیفہ، امام محمد اور امام زُفَر کہتے ہیں کہ خواہ کوئی شخص عورت یا قوم یا قبیلے کی تخصیص کرے یا مثال کے طور پر عام بات اس طرح کہے کہ ’’ جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے ‘‘ ، دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ ابو بکر جَصّاص نے یہی رائے حضرت عمرؓ ، عمداللہ بن مسعود ؓ ، ابراہیم النَّخعی، مجاہد اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ سے بھی نقل کی ہے۔

سُفیان ثَوری اور عثمان الْبَتِّی کہتے ہیں کہ طلاق صرف اُسی صورت میں پڑے گی جب کہنے والا یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔‘‘حسن بن صالح، لَیث بن سعد اور عامر الشَّعبِی کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق عمومیت کے ساتھ بھی پڑ سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی نوع کی تخصیص ہو۔ مثلاً آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں فلاں خاندان ، یا فلاں قبیلے ، یا فلاں شہر یا ملک یا قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔‘‘

ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک اُوپر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ اس میں مدّت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں اِس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں گروہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘ تب یہ طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں۔ بلکہ امام مالکؒ اس پر اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ اگر یہ مدّت اتنی طویل ہو جس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہو تو اس کا قول بے اثر رہے گا۔

87. یہ دراصل جواب ہے اُن لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں ، مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب ؓ سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چار بیویاں موجود تھیں۔ ایک حضرت سودہؓ جن سے ۳سنہ قبلِ ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا۔ دوسری ، حضرت عائشہؓ جن سے نکاح تو ۳ سنہ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر انکی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی ، تیسری ، حضرت حفصہؓ جن سے شعبان ۳ ھجری میں آپ کا نکاح ہوا۔ اور چوتھی ، حضرت اُم سَلمہ ؓ جنہیں حضورؐ نے شوال ۴ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا۔ اس طرح حضرت زینب ؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اُس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبیؐ ، تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں۔

اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دِلوں میں مخالفینِ اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے ، اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی نے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا ء کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے۔

88. پانچویں بیوی کو حضورؐ کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورؐ کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی:

۱۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپؐ کی ملکیت میں آئیں۔ اس اجازت کے مطابق حضورؐ نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ ، غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہؓ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مُقَوقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدّم الذکر تین کو آپؐ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا ، لیکن حضرت ماریہؓ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔

۲۔ آپؐ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپؐ کا ساتھ دیا ہو۔ آیت میں آپؐ کے ساتھ ’’ہجرت کرنے ‘‘ کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپؐ کے ساتھ رہی ہوں ، بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہِ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں۔ حضورؐ کو اختیار دیا گیا کہ اِن رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپؐ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپؐ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہؓ سے نکاح فرمایا۔ (ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی ، دونوں مذہبوں سے مختلف ہے۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے )۔

۳۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہبہ کرے ،یعنی بلا مہر آپ کو حضورؐ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضورؐ اسے قبول کرنا پسند فرمائیں۔ اس اجازت کی بنا پر آپؐ نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہؓ کو اپنی زوجیت میں لیا۔ لیکن آپؐ نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر اُن کے ہبہ سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپؐ نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا۔

89. اس فقرے کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گاکہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کرے اور وہ بلا مہر اس سے نکاح کر لے۔ اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مُراد یہ ہو گی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف حضورؐ کے لیے ہے ، عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خاص ہیں جن میں اُمت کے دوسرے لوگ آپؐ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔قرآن و سُنت کے تتبُّع سے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً حضورؐ کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام اُمت کے لیے وہ نفل ہے۔ آپؐ کے لیے اور آپؐ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے وہ حرام نہیں ہے۔ آپؐ کی میراث تقسیم نہ ہو سکتی تھی، باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورۂ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپؐ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں ، بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا ، اپنے نفس کو ہبہ کر نے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپؐ کو اجازت دی گئی ، اور آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیویاں تمام اُمت پر حرام کر دی گئیں۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں ہے جو حضورؐ کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو۔ مفسرین نے آپؐ کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپؐ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا، حالانکہ باقی اُمت کے لیے وہ حلال ہے۔

90. یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا۔’’ تنگی نہ رہے ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپؐکو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپؐ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصّب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اُس وقت ۴۰ سال تھی ، اور پوری ۲۵برس تک آپ اُن کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر جب اُن کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہؓ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضورؐ کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی۔ دراصل ’’ تنگی نہ رہنے ‘‘ کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اُس کارِ عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف اُن حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپؐ کو کھُلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا ، اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا ’’تنگی‘‘ تھی۔

حضورؐ کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک اَن گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدّن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذّب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اُصولِ تمدّن و تہذیب سکھانے کے لیے آپؐ مامور کیے گئے تھے اُن کی رُو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپؐ کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپؐ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدّد خواتین سے آپؐ نکاح کریں ، ان کو براہِ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں ، اور پھر اُن سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں۔

اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سُپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظامِ زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کر دیں۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی جہاں قبائلی طرزِ زِندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا۔ اِن حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپؐ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپؐ مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں۔ چنانچہ جن خواتین سے آپؐ نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے ساتھ نکاح کر کے آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا۔ حضرت امّ سلمہؓ اُس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولیدؓ کا تعلق تھا۔ اور حضرت اُم حبیبہؓ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا ، بلکہ اُم حبیبہؓ کے ساتھ حضورؐ کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضورؐ کے مقابلے پر نہ آیا۔ حضرت صفیہ ؓ، جُویریہ ؓ، اور رَیحانہؓ یہودی خاندانوں سے تھیں۔ انہیں آزاد کر کے جب حضورؐ نے ان سے نکاح کیے تو آپؐ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ کیونکہ اُس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پُورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی۔

معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپؐ کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ چنانچہ ایک نکاح آپؐ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا ، جیسا کہ اسی سور ۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے۔

یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے۔ تاکہ جو کارِ عظیم آپؐ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپؐ جتنے نکاح کرنا چاہیں کر لیں۔

اس بیان سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدّد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی ، یا بانجھ تھی ، یا اولاد نرینہ تھی ، یا کچھ یتیموں کی پر ورش کا مسئلہ در پیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے ،یا سیا سی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدّد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک ، جن کا آج نام لیا جا رہا ہے ، محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدّد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا ہے کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور او پر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ در اصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیّل ہے کہ تعدّدِ ازواج بجائے خود ایک برائی ہے۔ اسی تخیّل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیّل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے ، قرآن و سنت اور پوری امتِ مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً نا آشنا ہے۔

91. اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپؐ پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ جب اللہ تعالی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواجِ مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو بر تاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مو من خواتین آپؐ کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں۔ لیکن اللہ تعالی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام ازواج کے در میان پورا پورا عدل فرما یا ، کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی ، او ربا قاعدہ باری مقرر کر کے آپؐ سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے۔ محدّثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف چار بیویوں (حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ ، حضرت زنیب ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم تمام ازواج کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے۔ بخاری، مسلم ، نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپؐ ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے۔‘‘ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے۔ اگر چہ کم ہی ایسا ہو تا تھا کہ آپؐ کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں ، مگر جس بیوی کی باری کا دن ہو تا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ ؓ ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپؐ لیے مشکل ہو گئی تو آپؐ نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ ؓ کے ہاں رہنے دو ، اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپؐ نے آخری زمانہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گزارا۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ ؓ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ ؓ کو بخش دی تھی ، کیوں کہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں۔

اس مقام پر کسی کے دِل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواجِ مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے سے مستثنیٰ کیا گیا تھا،انہی مصالح کا تقاضا یہ بھی تھا کہ آپؐ کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور اُن اسباب کا سدّ باب کیا جائے جو آپؐ کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں۔ ازواجِ مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت اُن کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اُس عظیم الشان کام میں آپؐ کی رفیق کار بنیں جو رہتی دُنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حدِ استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھے اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کو تمام ازواج رسولؐ نے بخوشی قبول کیا۔

92. یہ تنبیہ ہے ازواج مطہرات کے لیے بھی اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی۔ ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ اس بات کی ہے کہ اللہ کا یہ حکم آ جانے کے بعد اگر وہ دِل میں بھی کبیدہ خاطر ہوں گی تو گرفت سے نہ بچ سکیں گی۔ اور دوسرے لوگوں کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازدواجی زندگی کے متعلق کسی طرح کی بدگمانی بھی اگر انہوں نے اپنے دِل میں رکھی یا فکر و خیال کے کسی گوشے میں بھی کوئی وسوسہ پالتے رہے تو اللہ سے ان کی یہ چوری چھپی نہ رہ جائے گی۔ اس کے ساتھ اللہ کی صفتِ حِلُم کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کا تخیل بھی اگرچہ سخت سزا کا مستوجب ہے ، لیکن جس کے دِل میں کبھی ایسا کوئی وسوسہ آیا ہو وہ اگر اسے نِکال دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی کی اُمید ہے۔

93. اس ارشاد کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضورؐ کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپؐ کے لیے حلال نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواجِ مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپؐ کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دُنیا کو انہوں نے تج دیا ہے ، اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپؐ جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں ، تو اب آپؐ کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ا ن میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں۔

94. یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عورتوں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کے لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔ اسی مضمون کی تصریح سوُرۂ نساء آیت ۳، سُورۂ مومنون آیت ۶، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے ، مگر نہ اُس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے لئے اس کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا تو حلال نہیں ہے ، البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا ، اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے ، اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدّت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے ، تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اُٹھا نا ہے جس کی ذمّہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر اُن کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو ، لونڈی بنانے کی اجازت دی ، اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دیدی جائیں اُن کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں تاکہ اُن کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔