Tafheem ul Quran

Surah 33 Al-Ahzab, Ayat 53-58

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتَ النَّبِىِّ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡذَنَ لَـكُمۡ اِلٰى طَعَامٍ غَيۡرَ نٰظِرِيۡنَ اِنٰٮهُ وَلٰـكِنۡ اِذَا دُعِيۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانْتَشِرُوۡا وَلَا مُسۡتَاۡنِسِيۡنَ لِحَـدِيۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِكُمۡ كَانَ يُؤۡذِى النَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىٖ مِنۡكُمۡ وَاللّٰهُ لَا يَسۡتَحۡىٖ مِنَ الۡحَـقِّ ؕ وَاِذَا سَاَ لۡتُمُوۡهُنَّ مَتَاعًا فَسۡـئَـلُوۡهُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰ لِكُمۡ اَطۡهَرُ لِقُلُوۡبِكُمۡ وَقُلُوۡبِهِنَّ ؕ وَمَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰهِ وَلَاۤ اَنۡ تَـنۡكِحُوۡۤا اَزۡوَاجَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِهٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰ لِكُمۡ كَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ عَظِيۡمًا‏ ﴿33:53﴾ اِنۡ تُبۡدُوۡا شَيۡـئًا اَوۡ تُخۡفُوۡهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا‏ ﴿33:54﴾ لَا جُنَاحَ عَلَيۡهِنَّ فِىۡۤ اٰبَآئِهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآئِهِنَّ وَلَاۤ اِخۡوَانِهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآءِ اِخۡوَانِهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّقِيۡنَ اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدًا‏ ﴿33:55﴾ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓـئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏ ﴿33:56﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‏ ﴿33:57﴾ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَيۡرِ مَا اكۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿33:58﴾

53 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو 95 نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ 96 مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو 97 تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں ، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے 98 تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو 99 ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو 100 ، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ 54 - تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ 101 55 - ازواجِ نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے ، ان کے بھائی ، ان کے بھتیجے ، ان کے بھانجے 102 ، ان کے میل جول کی عورتیں 103 اور ان کے مملوک 104 گھروں میں آئیں۔ (اے عورتو!) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے۔ 105 56 - اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں 106 ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو 107 57 - جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔ 108 58 - اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان 109 اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔ ؏۷


Notes

95. یہ اُس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحبِ خانہ گھر میں ہے یا نہیں۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص ، خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا۔

96. یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے۔ جو غیر مہذب عادات اہلِ عرب میں پھیلی ہوئی تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے ، آپ تشریف لے جایئے ، تو بے مروّتی ہے۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آ جائیں ، ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اُس وقت جانا چاہیے جب کہ گھر والا کھانے کی دعوت دے۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اُس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں۔

97. یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحبِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپؐ اپنے اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے۔ آخر کار حضرت زینبؓ کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیّت رسانی کی حد سے گزر گئی۔ حضورؐ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے ، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آ کر حضورؐ اُٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپؐ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپؐ حضرت زینب ؓ کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بُری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے۔ حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں۔(مسلم۔ نَسائی۔ ابنِ جریر)

98. یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضورؐ سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ ، آپؐ کے ہاں بھلے اور بُرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ازواج رسولؐ سے کہا کہ ’’ اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں۔‘‘لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے ، اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے۔ آخر یہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے سوا (جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے ) کوئی مرد حضورؐ کے گھر میں نہ آئے ، اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ اِس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے ، اور چوں کہ حضورؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دِل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے ، اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے ‘‘ اُس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دِلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سُنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مِل جاتی ہے ؟

99. یہ اشارہ ہے اُن الزام تراشیوں کی طرف جو اُس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے۔

100. یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغازِ سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اہلِ ایمان کی مائیں ہیں۔

101. یعنی اگر حضورؐ کے خلاف دِل میں بھی کوئی بُرا خیال کوئی شخص رکھے گا ، یا آپؐ کی ازواج کے متعلق کسی کی نیت میں بھی کوئی برائی چھپی ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے وہ چھپی نہ رہے گی اور وہ اس پر سزا پائے گا۔

102. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور حواشی نمبر ۳۸ تا ۴۲۔ اس سلسلے میں علامہ آلوسی کی یہ تشریح بھی قابِل ذکر ہے کہ ’’ بھائیوں ، بھانجوں ، اور بھتیجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار آ جاتے ہیں جو ایک عورت کے لیے حرام ہوں ، خواہ وہ نَسَبی رشتہ دار ہوں یا رضاعی۔ اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلۂ والدین ہیں۔ یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے ساقط کر دیا گیا کہ بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر آ جانے کے بعد اُن کے ذکر کی حاجت نہیں ہے ، کیوں کہ بھانجے اور بھتیجے سے پردہ نہ ہونے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہے ‘‘۔ (روح المعانی)

103. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۳۔

104. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۴۔

105. اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم قطعی کے آ جانے کے بعد آئندہ کسی ایسے شخص کو گھروں میں بے حجاب آنے کی اجازت نہ دی جائے جو ان مستثنیٰ رشتہ داروں کے دائرے سے باہر ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ خواتین کو یہ روش ہر گز نہ اختیار کرنی چاہیے کہ وہ شوہر کی موجودگی میں تو پردے کی پابندی کریں مگر جب وہ موجود نہ ہو تو غیر محرم مردوں کے سامنے پردہ اٹھا دیں۔ ان کا یہ فعل چاہے ان کے شوہر سے چھپا رہ جائے خدا سے تو نہیں چھپ سکتا۔

106. اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر بے حد مہربان ہے ، آپ کی تعریف فرماتا ہے ، آپؐ کے کام میں برکت دیتا ہے ، آپؐ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے۔ ملائکہ کی طرف سے آپؐ پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپؐ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپؐ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپؐ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے ، آپؐ کے دین کو سر بلند کرے ، آپؐ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپؐ کو مقام محمُود پر پہنچائے۔ سیاق و سباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب دشمنانِ اسلام اس دینِ مبین کے فروغ پر اپنے دِل کی جلن نکالنے کے لیے حضورؐ کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اُچھال کر وہ آپؐ کے اُس اخلاقی اثر کو ختم کر دیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کو یہ بتایا کہ کفّار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں ، آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے ، اس لیے کہ میں اُس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اُس کے حامی اور ثنا خواں ہیں۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پا سکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ ربّ العالمین، محمدؐ کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے۔

107. دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے ، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے ، اس شخص نے تمہیں اُٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے ، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی کوئی بُرائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیرِ مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے ربِّ دوجہاں ! جس طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں ، تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دُنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔

اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ۔ دوسرے سَلِّمُوْ اتَسْلِیْماً

صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں۔ ایک ، کسی پر مائل ہونا، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اُس پر جھُکنا۔ دوسرے ، کسی کی تعریف کرنا۔ تیسرے ، کسی کے حق میں دُعا کرنا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے معنی میں نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ اللہ کا کسی اور سے دُعا کرنا قطعاً نا قابل تصوّر ہے۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان ، تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا۔ ا س میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا۔مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دُعائے رحمت کا مفہوم بھی۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ ، ان کی مدح و ثنا کرو، اور ان کے لیے دُعا کرو۔

سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے۔ ایک، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں سَلِّمُوْ ا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دُعا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دِل و جان سے ان کا سا تھ دو ، اُن کی مخالفت سے پرہیز کرو، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔

یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدّد صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، سلام کا طریقہ تو آپؐ ہمیں بتا چکے ہیں (یعنی نماز میں السّلام علیک ایّھا النبی وراحمۃاللہ و برکاتۃٗ اور ملاقات کے وقت السّلام علیک یا رسول اللہ کہنا)مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟اس کے جوا ب میں حضورؐ نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

کعب بن عجُر ہؓ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھو ڑے تھو ڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ؒ ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔

ابن عباسؓ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے (ابن جریر)

ابو ُحمید سا عدی ؓ: اللہم صلی علی محمد وازاجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبرک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید (مالک ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ،،نسائی ، احمد ، ابن حبان، حا کم)

ابُو مسعود بدریؓ: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍوعلیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارکت علیٰ ابراھیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید( مالک، مسلم ، ابوداود ، ترمذی ، نَسائی، احمد، ابن جریر، ابن حبان ، حاکم)

ابو سعیدخُدری ؓ : اللہم صل علی محمد عبدک ورسولک کما صلیت علی ابراھیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرھیم (احمد بخاری نسائی ، ابن ماجہ )

بُرَیدَہ الخُزاعی : الّھمّ اجعل صلٰوتک ورحمتک وبرکاتک علی محمد وعلیٰ اٰل محمد کما جعلتھا علیٰ ابراھیم انک حمید مجید (احمد، عبد بن حمید،ابن مَردُویَہ)

ابو ہریرہ ؓ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و بارکت علی ابراہیم واٰل ابراھیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید (نسائی)

طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم انک حمیدٌ مجید (ابن جریر)

یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے :

اوّلاً ، ان سب میں حضورؐ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا ، تو محمدؐ پر درود بھیج۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی ،اللہ تعالی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھجو ، مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبیؐ نے لو گوں کو یہ بتا یا ہے کہ تم پر ’’صلوٰۃ‘‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ کے مراتب بلند نہیں کر سکتے۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفع ذکر کیے لیے آپؐ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کر سکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔لہٰذا حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گو یا اللہ کے حضور اپنے اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا ، تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔

ثانیاً،حضورؐ کی شان کرم نے یہ گوا را نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں ،

بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریّت کو بھی آپؐ نے شامل کر لیا۔ ازواج اور ذریّت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا آل کا لفظ، تو وہ محض حضورؐ کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں۔ عربی لغت کی رُو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مدد گار اور متبع ہوں ، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں ۱۴ مقامات پر آلِ فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت مو سیٰ ؑ کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ۴۹۔ ۵۰۔آل عمران، ۱۱۔ الاعراف، ۱۳۰۔ المومن، ۴۶) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر نہ ہو ، خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو ، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو ، خواہ وہ حضورؐ سے کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیر و بھی ہیں۔

ثالثاً ہر درود جو حضورؐ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپؐ پر ویسی ہی مہربانی فر مائی جائے جیسی ابراھیم ؑ اور آل ابراہیمؑ پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ)کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم ؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا ، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذِ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد منشاء یہ کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مر جع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو ، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔

یہ امر کہ حضورؐ پر درود بھیجنا سنت ِاسلام ہے جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں ا س کا پڑھنا مسنون ہے ، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضورؐ پر درود بھیجنا فرض ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

امام شافعی ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اُس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے ، اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی۔ صحابہؓ میں سے ابنِ مسعود انصاریؓ ، ابن عمر ؓ اور جابر ؓبن عبداللہ ، تابعین میں سے شَعبِی ، امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا ، اور آخر میں امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ اور جمہور علماء مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود۔

ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا۔

ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضورؐ کا نام آئے ، درود پڑھنا واجب ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضورؐ کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے ، درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے۔

یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں۔ باقی رہی درود کی فضیلت ، اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا ، اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا ، تو اس پر ساری اُمت متفق ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دِل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے احسانات کی بھی ہو گی،اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضورؐ پر درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرتِ درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دینِ محمدؐ سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمتِ ایمان کی کتنی قدر اس کے دِل میں ہے۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ (احمد و ابن ماجہ)’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے ‘‘من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔‘‘ اولی الناس بی یومالقیامۃ اکثر ھم علیّ صلوٰۃ(ترمذی)’’قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔‘‘البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ(ترمذی) ’’بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا دوسروں کے لیے اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان یا صلّی اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں ، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ (البقرہ۔ ۱۵۷) خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْ ھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ۔(التوبہ۔ ۱۰۳) ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓعِکَتُہٗ (الاحزاب۔ ۴۳)اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپؐ نے دُعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی ادفیٰ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپؐ فرماتے ہیں۔اللھم صلِّ علیھم۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعل سَلوٰتک ورحمتکعلیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ۔اور مومن کی روح کے متعلق خضرؐ نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیکا وعلیٰ جسدک۔ لیکن جمہور اُمت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ ’’ میں نے سُنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دُعا پر اکتفا کریں۔‘‘ (روح المعانی)۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضورؐ کے سِوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے۔

108. اللہ کو اذیت دینے سے مُراد دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کہ نافرمانی کی جائے ، اس کی مقابلے میں کفر و شرک اور دہریت کا رویہ اختیار کیا جائے ، اور اس کے حرام کو حلال کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کے رسولؐ کو اذیت دی جائے ، اور رسول کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔

109. یہ آیت بہتان کی تعریف متعین کر دیتی ہے ، یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو، یا جو قصور آدمی نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بمَا یکرہ ۔’’ تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اسے ناگوار ہو۔‘‘ عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو۔ فرمایا ان کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہٗ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتّہ۔’’ اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جو تُو نے بیان کیا تو تُو نے اس کی غیبت کی۔ اور اگر وہ اس میں نہیں ہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ یہ فعل صرف ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہو۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے کو جرم مستلزمِ سزا قرار دیا جائے۔