110. اصل الفاظ ہیں یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبَھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں ، مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْ خَاء، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسّرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف ’’لپیٹ لینا ‘‘ کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْ نَیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں مِنْ جَلَا ئِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تعبیض کے لیے ہے ، یعنی چادر کا ایک حصّہ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر اُن کا ایک حصہّ ، یا ان کا پلّو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ، جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔
یہی معنی عہدِ رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسّرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سِیرین ؒ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ (یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضِر خدمت نہ ہو سکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شُریح کا ہم پلّہ مانا جاتا تھا )۔ اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھُلی رکھی۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں۔ اُن کے جو اقوال ابنِ جریر۔ ابنِ ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلّو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں۔‘‘ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔
عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسّرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالا تفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ا بنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مَنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھُلے ہوئے ہوں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔‘‘ (جامع البیان جلد ۲۲۔ ص ۳۳)
علّامہ ابو بکر جصّاص کہتے ہیں :’’یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفّت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اُسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں۔‘‘ (احکام القرآن ، جلد ۳، صفحہ ۴۵)
علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔‘‘ ( الکشاف۔ جلد ۲،ص ۲۲)
علّامہ نظام الدین نیشا پوری کہتے ہیں :ید نین علیھن من جلا بیبھنّ ،یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں۔ اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (غرائب القرآن جلد ۲۲، ص۳۲)
امام رازی کہتے ہیں :’’ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں۔کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے ، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ با پردہ عورتیں ہیں ، ان سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘‘(تفسیر کبیر ، جلد ۶، ص ۵۹۱)
ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ لے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ’’ اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو۔‘‘یہ الفاظ اُن لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلّف یہ دعویٰ کرتے ہین کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضورؐ کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں۔ یہ لو گ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولادِ رسولؐ کے نسب سے انکار کر کے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اِس کی کیسی سخت جواب دہی اُنہیں آخرت میں کرنی ہو گی۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ ؓ کے بطن سے حضورؐ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؓ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں۔ حضورؐ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہؓ سے حضورؐ کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’ ابراہیمؑ کے سوا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں۔ قاسم، اور طاہرو طیب، اور زینب، اور رُقیَّہ، اورامّ کلثوم اور فاطمہ‘‘ (سیرت ابن ہشام، جلد اول۔ ص ۳۰۲) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السّائب کلبی کا بیان ہے کہ : ’’ مکہ میں نبوّت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے ، پھر زینبؓ، پھر رقیہ، پھر اُمِ کلثوم(طبقات ابن سعد ، جلد اول ، ص ۱۳۳)۔ ابنِ حزْم نے جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضورؐ کی چار لڑکیاں تھیں ، سب سے بڑی حضرت زینبؓ ان سے چھوٹی رقیّہ ؓ ، ان سے چھوٹی فاطمہؓ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم (ص۳۸۔۳۹)۔ طَبَری، ابن سعد ، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبدلبَر صاحب کتاب الاستیعاب، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے حضرت خدیجہؓ کے دو شوہر گزر چکے تھے۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے۔ دوسرے عتیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضورؐ سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپؐ کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں (ملاحظہ ہو طبری، جلد ۲، ص۴۱۱۔ طبقات ابنِ سعد ، جلد ۸، ص ۴۱ تا ۱۶۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸،۷۹،۴۵۲۔ الاستیعاب جلد ۲ ، ص۷۱۸)اِن تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بنادیتی ہے کہ حضورؐ کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں۔
111. ’’ پہچان لی جائیں ‘‘سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں ، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دِل کی تمنّا پوری کرنے کی اُمید کر سکے۔ نہ ’’ستائی جائیں ‘‘سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے ، ان سے تعرّض نہ کیا جائے۔
اس مقام پر ذرا ٹھیر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم، اور وہ مقصدِ حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے ، اسلامی قانونِ معاشرت کی کیا رُوح ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سورۂ نور ، آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکے ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ ’’ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئی بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اُس زینب کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ‘‘۔اُس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اِس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو، ورنہ ایک مزیّن اور جاذبِ نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا اُلٹا اور فوت ہو جائے گا۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصّہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھُپ جائے۔ پھر اس حکم کی علّت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں گی اور اذیت سے محفوظ رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت اُن عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذّت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دِہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں ، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمعِ انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں ،بلکہ عفت مآب چراغِ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیّت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دُلہن بن کر گھروں سے نِکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نِگاہوں کے سامنے اپنا حُسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نِکلو ، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے ، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوتِ التفات دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں ، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ’’معاشرے کی بیگم ‘‘اور ’’ مقبولِ عام خاتون‘‘ ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لہٰذا جو عورت جاذِب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمعِ انجمن نہیں بن سکتی ہو۔ چراغ خانہ بننا ہے تو اُن طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمعِ انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اور وہ طرز زِندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے ، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔
112. یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا ، بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کراس کی خلاف ورزی نہ کرو۔
113. ’’ دِل کی خرابی ‘‘سے مراد یہاں دو قسم خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی ، آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھُوٹے پڑتے ہوں۔
114. اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔
115. یعنی یہ اللہ کی شریعت کا ایک مستقل ضابطہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ جب بھی کسی معاشرے اور ریاست کا نظام خدائی شریعت پر قائم ہو گا اُس میں ایسے لوگوں کو پہلے متنبہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی روش بدل دیں ، اور پھر جب وہ باز نہ آئیں گے تو سختی کے ساتھ ان کا استیصال کر ڈالا جائے گا۔
116. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دِل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے کا یقین نہ تھا۔ قیامت کے تصوّر کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں ، بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی۔
117. یہ مضمون قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : اَعراف، ۱۸۷۔ النازعات، ۴۲۔۴۶۔ سَبا، ۳۔۵۔الملک ۲۴۔۲۷۔ المطفّفین، ۱۰۔۱۷۔ الحِجر، ۲۔۳۔ الفرقان ، ۲۷۔ ۲۹۔ حم السجدہ، ۲۶۔۲۹۔