Tafheem ul Quran

Surah 33 Al-Ahzab, Ayat 69-73

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَـرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًا ؕ‏ ﴿33:69﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا ۙ‏ ﴿33:70﴾ يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا‏ ﴿33:71﴾ اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَيۡنَ اَنۡ يَّحۡمِلۡنَهَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَ حَمَلَهَا الۡاِنۡسَانُؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوۡمًا جَهُوۡلًا ۙ‏ ﴿33:72﴾ لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَالۡمُشۡرِكٰتِ وَيَتُوۡبَ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿33:73﴾

69 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو 118 ، ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں ، پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا 119 70 - اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ 71 - اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگذر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ 72 - ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے 120 73 - اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں ، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں کی توبہ قبول کرے، اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ ؏۹


Notes

118. یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘ کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے ، اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں ، اور کہیں رُوئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصُود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں۔ سیاق و سباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں۔

119. دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی‘‘۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی ، انہی کی بدولت بنی ، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس مُحسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسبِ ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے :

کتاب خروج۔۵:۲۰۔۲۱۔۱۴ : ۱۱۔۱۲۔۳۔۱۷:۳۔۴

کتاب گنتی۔ ۱۱:۱۔۱۵۔۱۴: ۱۔۱۰۔۱۶ مکمّل۔۲۰:۱۔۵

قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کُشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو، ورنہ پھر اُسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔

یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا ’’احمدؐ نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔‘‘ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضورؐ سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہٗ اُوذی باکثر من ھٰذافَصَبَر۔’’اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا‘‘ (مُسند ، احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)

120. کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دُنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دُنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہّ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔

اس جگہ ’’امانت ‘‘ سے مر اد وہی ’’خلافت ‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رُو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے ، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اُسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں اُن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیار ات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں ، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے ، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور یہاں انہی کے لیے ’’ امانت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے ،اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے ، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھا ری بوجھ اٹھا لیا ہے۔

زمین و آسمان کے سامنے اس بارِ امانت کا پیش کیا جانا ، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو۔ اللہ تعالی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے ، بہرے اور بے جان ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہو ں۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بارِ گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں ، ہماری ہمت نہیں کے نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضورؐ کی سزا بر داشت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوعِ انسانی کو اللہ تعالی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کو دائر ۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو۔

البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵۔۶فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ :

’’میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تر ی کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے ، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت بھی کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہو ں۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا ، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بالا دستی بخش دوں گا ، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی بر پا کرنا چاہے کر سکے۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آ زادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے ، اور جس نے نافر نی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اتر نے کو تیار ہے ‘‘؟

یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سنا ٹا چھا جاتا ہے۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کر تی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے۔ آخر کا ریہ مشتِ استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں۔

یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر ا بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کر تا ہے ان کے صحیح یا غلط ہو نے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے۔ وہ جہول ہے ، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے۔ اور وہ ظلوم ہے ، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے۔