18. یہاں سے رکوع ۳ تک کی آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت اِن دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔
19. یہ آندھی اُسی وقت نہیں آگئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اُس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقر یباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں ، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد فرشتے بھی لیے جا سکتے ہیں ، اگر چہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔
20. اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہر طرف سے چڑھ آئے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نجد اور خیبر سے چڑھ کر آنے والے اوپر سے آئے ، اور مکہ معظمہ کی طرف سے آنے والے نیچے سے آئے۔
21. ایمان لانے والوں سے مُراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول مان کر اپنے آپ کو حضورؐ کے پیروؤں میں شامل کیا تھا ، جن میں سچے اہل ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔ اس پیراگراف میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گروہ کا مجموعی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد کے تین پیرا گرافوں میں منافقین کی روش پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پھر آخر کے دو پیراگراف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین صادقین کے بارے میں ہیں۔
22. یعنی اس امر کے وعدے کہ اہلِ ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا۔
23. اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ظاہری مطلب یہ ہے کہ خندق کے سامنے کفار کے مقابلے پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، شہر کی طرف پلٹ چلو۔ اور باطنی مطلب یہ ہے کہ اسلام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، اب اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جانا چاہیے تاکہ سارے عرب کی دشمنی مول لے کر ہم نے جس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے اُس سے بچ جائیں۔ منافقین اپنی زبان سے اس طرح کی باتیں اس لیے کہتے تھے کہ جو ان کے دام میں آ سکتا ہو اس کو تو اپنا باطنی مطلب سمجھا دیں ، لیکن جو ان کی بات سُن کر چوکناّ ہو اور اس پر گرفت کرے اس کے سامنے اپنے ظاہر الفاظ کی آڑ لے کر گرفت سے بچ جائیں۔
24. یعنی جب بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ مل گئے تو ان منافقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر سے نکل بھاگنے کے لیے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ، لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے۔ حالانکہ اُس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمّہ دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ بنی قریظہ کی بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا حضورؐ کا کام تھ نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا۔
25. یعنی اس خطرے سے بچاؤ کا انتظام تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر چکے تھے۔ یہ انتظام بھی دفاع کی اُس مجموعی سکیم ہی کا ایک حصّہ تھا جس پر سالار لشکر کی حیثیت سے حضورؐ عمل فرما رہے تھے۔ اس لیے کوئی فوری خطرہ اس وقت نہ تھا جس کی بنا پر ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی معقول ہوتا۔
26. یعنی اگر شہر میں داخل ہو کر فاتح کفار اِن منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ختم کر دو۔
27. یعنی جنگِ اُحُد کے موقع پر جو کمزوری انہوں نے دکھائی تھی اس کے بعد شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اب آزمائش کا کوئی موقع پیش آیا تو ہم اپنے اس قصور کی تلافی کر دیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو محض باتوں سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ جو شخص بھی اُس سے کوئی عہد باندھے اُس کے سامنے کوئی نہ کوئی آزمائش کا موقع وہ ضرور لے آتا ہے تاکہ اس کا جھوٹ سچ کھل جائے۔ اس لیے وہ جنگ احد کے دو ہی سال بعد اُس سے بھی زیادہ بڑا خطرہ سامنے لے آیا۔اور اس نے جانچ کر دیکھ لیا کہ ان لوگوں نے کیسا کچھ سچا عہد اس سے کیا تھا۔
28. یعنی اِس فرار سے کچھ تمہاری عمر بڑھ نہیں جائے گی۔ اس کا نتیجہ بہر حال یہ نہیں ہو گا کہ تم قیامت تک جیو اور روئے زمین کی دولت پالو۔ بھاگ کر جیو گے بھی تو زیادہ سے زیادہ چند سال ہی جیو گے اور اُتنا ہی کچھ دنیا کی زندگی کا لطف اُٹھا سکو گے جتنا تمہارے لیے مقدّر ہے۔
29. یعنی چھوڑو اس پیغمبر کا ساتھ۔کہاں دین و ایمان اور حق و صداقت کے چکّر میں پڑے ہو؟ اپنے آپ کو خطرے اور مصائب میں مبتلا کرنے کے بجائے وہی عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کر جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔
30. یعنی اپنی محنتیں ، اپنے اوقات ، اپنی فکر، اپنے مال، غرض کوئی چیز بھی وہ اُس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے ، وہ کسی کام میں بھی کھلے دِل سے اہلِ ایمان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔
31. لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹتے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے ، لہٰذا ہم بھی مالِ غنیمت کے حق دار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصّہ ، ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں ، سب کچھ تم ہی لوگ نہ لُوٹ لے جاؤ۔
32. یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں ، جو روزے رکھے ، جو زکوٰتیں دیں ، اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالیٰ کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجر انھیں نہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے ، نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، زکوٰۃ بھی دیتے تھے ، اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے ، ان کی بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑے آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا ، دین کے مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں ، بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں۔ جہاں خدا اور اس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرار ایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں۔
33. یعنی اِن کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اُس کے لیے دُشوار ہو۔