Tafheem ul Quran

Surah 34 Saba, Ayat 1-11

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ وَلَـهُ الۡحَمۡدُ فِى الۡاٰخِرَةِ ؕ وَهُوَ الۡحَكِيۡمُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿34:1﴾ يَعۡلَمُ مَا يَلِجُ فِى الۡاَرۡضِ وَمَا يَخۡرُجُ مِنۡهَا وَمَا يَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعۡرُجُ فِيۡهَا ؕ وَهُوَ الرَّحِيۡمُ الۡغَفُوۡرُ‏ ﴿34:2﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَاۡتِيۡنَا السَّاعَةُ ؕ قُلۡ بَلٰى وَرَبِّىۡ لَـتَاۡتِيَنَّكُمۡۙ عٰلِمِ الۡغَيۡبِ ۚ لَا يَعۡزُبُ عَنۡهُ مِثۡقَالُ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَلَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرُ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿34:3﴾ لِّيَجۡزِىَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِؕ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿34:4﴾ وَالَّذِيۡنَ سَعَوۡ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيۡنَ اُولٰٓـئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مِّنۡ رِّجۡزٍ اَلِيۡمٌ‏ ﴿34:5﴾ وَيَرَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ هُوَ الۡحَـقَّ ۙ وَيَهۡدِىۡۤ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِ‏ ﴿34:6﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا هَلۡ نَدُلُّكُمۡ عَلٰى رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمۡ اِذَا مُزِّقۡتُمۡ كُلَّ مُمَزَّقٍۙ اِنَّكُمۡ لَفِىۡ خَلۡقٍ جَدِيۡدٍۚ‏ ﴿34:7﴾ اَ فۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمۡ بِهٖ جِنَّةٌ  ؕ بَلِ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ فِى الۡعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الۡبَعِيۡدِ‏ ﴿34:8﴾ اَفَلَمۡ يَرَوۡا اِلٰى مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ نَّشَاۡ نَخۡسِفۡ بِهِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ نُسۡقِطۡ عَلَيۡهِمۡ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبۡدٍ مُّنِيۡبٍ‏ ﴿34:9﴾ وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ يٰجِبَالُ اَوِّبِىۡ مَعَهٗ وَالطَّيۡرَ ۚ وَاَلَـنَّا لَـهُ الۡحَدِيۡدَ ۙ‏ ﴿34:10﴾ اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرۡ فِى السَّرۡدِ وَاعۡمَلُوۡا صَالِحًـا ؕ اِنِّىۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿34:11﴾

1 - حمد اُس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے 1 اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے 2 ۔ وہ دانا اور باخبر ہے۔ 3 2 - جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُتر تا ہےاور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے، ہر چیز کو وہ جانتا ہے، وہ رحیم اور غفور ہے۔ 4 3 - منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی ہے 5 ! کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آکر رہے گی۔6اُس سے ذرّہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھُپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔ نہ ذرّے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔ 7 4 - اور یہ قیامت اس لیے آئے گی کہ جزا دے اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں۔ اُن کے لیے مغفرت ہے اور رزقِ کریم۔ 5 - اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے۔ 8 6 - اے نبیؐ ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے۔ 9 7 - منکرین لوگوں سے کہتے ہیں” ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہوچکا ہوگا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیے جاوٴ گے؟ 8 - نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھُوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنُون لاحق ہے۔“10نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بُری طرح بہکے ہوئے ہیں۔ 11 9 - کیا اِنہوں نے کبھی اُس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو اِنہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو اِنہیں زمین میں دَھسا دیں، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے اِن پر گِرا دیں۔ 12 در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ 13 ؏۱ 10 - ہم نے داوٴدؑ کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔ 14 (ہم نے حکم دیا کہ)اے پہاڑو، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو( اور یہی حکم ہم نے)پرندوں کو دیا۔ 15 ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا 11 - اس ہدایت کے ساتھ کہ زر ہیں بنا اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھ۔ 16 (اے آلِ داوٴدؑ) نیک عمل کرو، جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو میں دیکھ رہا ہوں۔


Notes

1. حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا۔

2. یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی۔

3. یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، کیا اس کی ضروریات ہیں، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرّے کی حالت پوری طرح معلوم ہے۔

4. یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں اگر کوئی شخص یا گروہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے باوجود پکڑا نہیں جا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ دنیا اندھیر نگری اور اللہ تعالیٰ اس کا چوپٹ راجہ ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے اور درگزر سے کام لینا اس کی عادت ہے۔ عاصی اور خاطی کو قصور سرزد ہوتے ہی پکڑ لینا، اس کا رزق بند کر دینا، اس کے جسم کو مفلوج کر دینا اس کو آناً فاناً ہلاک کر دینا، سب کچھ اس کے قبضے میں ہے، مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ قادر مطلق ہونے کے باوجود وہ نا فرمان بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، سنبھلنے کی مہلت عطا کرتا ہے، اور جب بھی وہ باز آ جائیں، معاف کر دیتا ہے۔

5. یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چند را چَندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی۔

6. پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کے لیے ’’ عالم الغیب‘‘ کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو

الاعراف، 187۔ طٰہٰ، 15۔ لقمان 34۔ الاحزاب، 63۔الملک، 25۔26۔ النازعات، 42 تا 44۔

7. یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر7 میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہو جائے گا تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور ان کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں۔ اس شبہ کو یہ کہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرّہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔

8. اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پائے۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج بھی نکل آتے ہیں، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے۔ اس کا آنا نہیں بلکہ نہ آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ا یمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قسم کا عذاب ہے۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہو گیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پائے مگر مغفرت سے محروم نہ رہے گا اور جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عناد و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچ گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے۔

9. یعنی یہ معاندین تمہارے پیش کردہ حق کو باطل ثابت کرنے کے لیے خواہ کتنا ہی زور لگائیں، ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہو سکتیں، کیونکہ ان باتوں سے وہ جہلا ہی کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ علم رکھنے والے لوگ ان کے فریب میں نہیں آتے۔

10. قریش کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا تو (معاذ اللہ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے، یا پھر یہ مجنون ہے۔ لیکن یہ مجنون والی بات بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے۔

11. یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نادانو، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے۔

12. یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید از امکان تھا۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے۔

1۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ

چھوڑ ا جا سکتا ہے، سراسر ایک لغو بات ہے۔

2۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آ جانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا پھر بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی۔

3۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں، رہتے تواسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتی۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے، یا اور کوئی نا گہانی آفت آ جاتی ہے۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَا وَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو۔

13. یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی۔

14. اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت، عدل و انصاف، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول۔ ص 595 تا 598)

15. یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت 79 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 174175)

16. یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 80 میں گزر چکا ہے اور وہاں اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ص 175۔176)