17. یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176۔177)
18. بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص 176)
19. یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔
20. اصل میں لفظ تَماثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔التمثال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلق من خلق اللہ (لسان العرب)"" تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جن سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔
غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کر لیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمانؑ سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب کو شرک و بت پرستی جادو گری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہر گز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب توراۃ کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو توراۃ کے قانون کی ناسخ ہوتی۔ اب توراۃ کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں :
’’تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کوئی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ‘‘(خروج۔ باب 20۔آیت 4) ۔
تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو‘‘ (احبار۔ باب 26، آیت 1)
’تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ‘‘(استثنا، باب 4۔ آیت 16۔18) ۔
'' لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکر وہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے “(استثناء، باب 27۔ آیت 15)
ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جِنوں سے لیا ہو گا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پراعتماد کر کے کیسے تسلیم کر لی جائے جو حضرت سلیمانؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے (1۔سلاطین۔ باب 11). تاہم مفسرین نے تو بنی اسرائیل کی یہ روایات نقل کرنے کے ساتھ اس امر کی صراحت کر دی تھی کہ شریعت محمدیہ یہ فعل حرام ہے اس لیے اب کوئی شخص حضرت سلیمانؑ کی پیروی میں تصویریں اور مجسمے بنانے کا مجاز نہیں ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کے بعض لوگوں نے )جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری و بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں،قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل ٹھیرا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کتاب میں اس کے اس فعل کا ذکر کیا ہے اور اس پر کسی نا پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا ہے تو اسے لازماً حلال ہی ہونا چاہیے۔
ان مقلدین مغرب کا یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ لفظ تماثیل جو قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے، انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے، بلکہ اس کا اطلاق غیر جاندار اشیاء کی تصویر وں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے محض اس لفظ کے سہارے حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ قرآن کی رو سے انسانی اور حیوانی تصاویر حلال ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ اس معاملہ میں جو ارشادات حضورؐ سے ثابت ہیں اور جو آثار اکابر صحابہ سے منقول ہوئے ہیں انہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
1۔ عن عایشہ اُم المومنین ان ام جیبۃ وام سلمۃ ذکر تا کنیسۃ راْینھا بالحبشۃ فیھا تصاویر فذکرتا للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال ان اولئک اذاکان فیھم الرجل الصالح فمات بنو ا علیٰ قبر ہ مسجد او صوروافیہ تلک اصور فیہ تلک صور فاولئِک شرار الخلق عنداللہ یوم القیٰمۃ (بخاری، کتاب المساجد)
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے حبش میں ایک کنیسہ دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ اس کا ذکر انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا۔حضورؐ نے فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی صالح شخص ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ بناتے اور اس میں یہ تصویریں بنا لیا کرتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے روز اللہ کے نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں گے۔
2۔ عن ابی حجیفہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لعن المصور (بخاری، کتاب البیوع، کتاب الطلاق و کتاب اللباس)
ابو حجیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصور پر لعنت فرمائی ہے۔
3۔ عن ا بی زرعہ قال دخلتُ مع ابی ہریرۃ داراً بالمدینۃ فرأی اعلاھا مصوراً یصور قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول ومن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقو احبۃ ولیخلقو اذرۃ (بخاری، کتاب اللباس۔ مُسند احمد اور مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ مروان کا گھر تھا)
ابو زرعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مکان کے اوپر ایک مصور تصویریں بنا رہا ہے۔ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے۔ یہ لوگ ایک دانہ یا ایک چیونٹی تو بنا کر دکھائیں۔
4۔ عن ا بی محمد الھذلی عن علی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی جنازۃ فقال ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یَدَع بھاوثناً الاکسرہ ولا قبراً الاسوّاہ ولاصورۃ الالطخھا۔ فقال رجل انا یا رسول اللہ فانطلق فھاب اھل المدینہ۔ فرجع۔ فقوال علی انا انطلق یا رسول اللہ۔ قال فانطلق، فانطلقَ ثم رجع۔ فقال یا رسول اللہ لم ادعُ بھا وثناً الا کسرتہ ولا قبراً الّا سویتہ ولا صورۃ الالطختھا۔ ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عاد لصنعۃ شئ من ھٰذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمدؐ(مسند احمد۔ مسلم، کتاب الجنائز اور نَسائی کتاب الجنائز میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث منقول ہوئی ہے )۔
ابو محمد ہُذَلی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون ہے جو جا کر مدینہ میں کوئی بُت نہ چھوڑے جسے توڑ نہ دے اور کوئی قبر نہ چھوڑے جسے زمین کے برابر نہ کر دے اور کوئی تصویر نہ چھوڑے جسے مٹا نہ دے۔ ایک شخص نے عرض کیا میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ گیا مگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیر پلٹ آیا۔ پھر حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا تم جاؤ۔ حضرت علیؓ گئے اور واپس آ کر انہوں نے عرض کیا میں نے کوئی بت نہیں چھوڑا جسے توڑ نہ دیا ہو، اور کوئی قبر نہیں چھوڑی جسے زمین کے برابر نہ کر دیا ہو اور کوئی تصویر نہ چھوڑی جسے مٹا نہ دیا ہو۔ اس پر حضورؐ نے فرما یا، اب اگر کسی شخص نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)پر نازل ہوئی ہے۔
5۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم ………… ومن صور صورۃ عذبُ کلف ان ینفخ فیھا ولیس بنا فخ (بخاری۔ کتاب التعبیر۔ ترمذی، ابواب للباس، نسائی۔ کتاب الزینۃ۔ مسند احمد)
ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں' ……اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا۔
6۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما اذا تاہ رجل فقال یا اباعباس انی انسان انما معیشتی من صنعۃ یدی وانی اسنع ھٰذہ اتصاویر۔ فقال ابن عباس لا احد ثک الاما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول۔ سمعتہ یقول من صورصور ۃً فان اللہ معذ بہ حتٰی ینفخ فیھا الروح ولیس بنا فخ فیھا ابداً۔ فربالرجل ربو ۃً شدیدۃواصفر وجھہ۔ فقال ویحک ان ابیت الا ان تصنع فعلیک بھٰذا الشجر کل شئی لیس فیہ روح(بخاری، کتاب البیوع۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینۃ۔ مسند ٓاحمد)۔
سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس نے کہا کہ اے ابو عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے۔ ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنی ہے۔ میں نے حضورؐ سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے، اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا بندہ خدا، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا، یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو۔
عبد اللہ بن مسعود قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامۃ المصورون ( بخاری، کتاب اللباس، مسلم، کتاب اللباس،نسائی، کتاب الزینہ،مسند احمد)
7۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ کے ہاں سخت ترین سزا پانے والے مصور ہوں گے۔
8۔ عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان الذین یصنعون ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم (بخاری، کتاب اللباس۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)
عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔
9۔ عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا اشتزت نمرقۃ فیھا تصاویر فقام النبی صلی اللہ علیہ و سلم بالباب ولم ید خل فقلت اتوب الی اللہ ممّا اذنبت قال ما ھٰذہ النمر قۃ قلت لتجلس علیھا وتو سد ھا قال ان اصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیواما خلقتم والملا ئکۃ لا تد خل بیتاً فیہ الصورۃ۔ (بخاری، کتاب الباس، مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ، ابن ماجہ، کتاب التجارات۔ موطا، کتاب الاستیذان)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور دروازے ہی میں کھڑے ہو گئے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں خدا سے توبہ کرتی ہوں ہر اس گناہ پر جو میں نے کیا ہو۔ حضورؐ نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ اس غرض کے لیے ہے کہ آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو۔ اور ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔
10۔ عن عائشۃ قالت دخل علَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و انا متسترہ بقرام فیہ صورۃ فتلوَّ نَ وجھہ ثم تناول الستر نھتکہ ثم قال ان من اشد الناس عذاباً یوم القیٰمۃ الذین یشبہون بخلق اللہ (مسلم، کتاب اللباس بخاری، کتاب اللباس۔نسائی، کتاب الزینہ)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جس میں تصویر تھی۔ آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو دیا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔
عن عائشۃ قالت قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سفر وقد سترت علی بابی درنوکاً فیہ الخیل ذوات الاجنحۃ فامرنی فنزعتہ ( مسلم کتاب اللباس،نسائی، کتاب الزینۃ)
11۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، جس میں پر دار گھوڑوں کی تصویریں تھیں۔ حضورؐ نے حکم دیا کہ اسے اتار دو اور میں نے اتار یا۔
12۔ عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن الصورۃ فی البیت ونھٰی ان یصنع ذالک۔ (ترمذی، ابواب اللباس)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرما دیا کہ کوئی شخص تصویر بنائے۔
13۔ عن ابن عباس عن ا بی طلحہ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لا تد خل الملا ئکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ۔ (بخاری کتاب اللباس) ۔
ابن عباسؓ ابوطلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا پلا ہوا ہو اور نہ ایسے گھر میں جس میں تصویر ہو۔
14۔ عن عبداللہ بن عمر قال وعدالنبی صلی اللہ علیہ و سلم جبریل فرا ث علیہ حتی اشتد علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فلقیہ فشکا الیہ ماوجد فقال لہْ انّا لا ند خل بیتاً فیہ صورۃ ولا کلب۔ (بخاری، کتاب اللباس۔ اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، ابو داوْد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام مالک اور امام احمد نے متعدد صحابہ سے نقل کی ہیں) ۔
عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریلؑ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا مگر بہت دیر لگ گئی اور وہ نہ آئے۔ حضورؐ کو اس سے پریشانی ہوئی اور آپ گھر سے نکلے تو وہ مل گئے۔ آپ ؐ نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کُتا ہو یا تصویر ہو۔
ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایتیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جن میں تصاویر کے معاملہ میں رخصت پائی جاتی ہے مثلاً ابو طلحہ انصاری کی یہ روایت کہ جس کپڑے میں تصویر کڑھی ہوئی ہو اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے۔(بخاری، کتاب اللباس) اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کر جب انہوں نے گدّا بنا لیا تو حضور نے اسے بچھانے سے منع نہ فرمایا۔ (مسلم، کتاب اللباس) اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی روایت کہ ممانعت اس تصویر کی ہے جو نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو، نہ کہ اس تصویر کی جو فرش کے طور پر بچھا دی گئی ہو (مسند احمد)۔ لیکن ان میں سے کوئی حدیث بھی دراصل ان احادیث کی تردید نہیں کرتی جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔ جہاں تک تصویر بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز ان میں سے کسی حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔ یہ احادیث صرف اس مسئلے سے بحث کرتی ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہوئی ہو اور آدمی اس کو لے چکا ہو تو کیا کرے۔ اس باب میں ابو طلحہ انصاری والی روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ بکثرت دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر دار کپڑا لٹکانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے پھاڑ دیا ہے۔ نیز خود حضرت ابو طلحہ کا اپنا عمل جو ترمذی اور موطّا میں منقول ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دار پردہ تو در کنار وہ ایسا فرش بچھانے میں بھی کراہت محسوس کرتے تھے جس میں تصاویر ہوں۔ رہیں حضرت عائشہ اور سالم بن عبداللہ کی روایات تو ان سے صرف اتنا جواز نکلتا ہے کہ اگر تصویر احترام کی جگہ پر نہ ہو بلکہ ذلت کے ساتھ فرش میں رکھی جائے اور اسے پامال کیا جائے تو وہ قابل برداشت ہے۔ ان احادیث سے آخر اس پوری ثقافت کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے جو تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے آرٹ کو تہذیب انسانی کا قابل فخر کمال قرار دیتی ہے اور اسے مسلمانوں میں رواج دینا چاہتی ہے۔
تصاویر کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابر صحابہ کے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انہوں نے اس باب میں اختیار کیا۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضورؐ نے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد اکابر صحابہ کا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضورؐ نے امت کو چھوڑا تھا۔ اب دیکھیے کہ تصویروں کے ساتھ اس مقدس گروہ کا کیا برتاؤ تھا۔
قال عمر رضی اللہ عنہ انا لا ندخل کنا ئسکم کن اجل التماثیل التی فیھا الصُّوَر۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
حضرت عمر نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے کہ ان میں تصویریں ہیں۔
کان ابن عباس یصلی فی بیعۃ الابیعۃ فیھا تماثیل (بخاری، کتاب الصلوٰۃ(
ابن عباسؓ گرجا میں نماز پڑھ لیتے تھے، مگر کسی ایسے گرجا میں نہیں جس میں تصویریں ہوں۔
عن ا بی الھیاج الاسدی قال لی عَلی الاابعثک علیٰ ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان لا تدع تمثاًلاالاطمستہ ولاقبراً مشرفاً الا سویتہ ولاصورۃ الا طمستھا۔ )مسلم، کتاب الجنائز۔ نسائی، کتاب الجنائز)
ابو الہیاج اسدی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے کہا کیا نہ بھیجوں میں تم کو اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تم کوئی مجسمہ نہ چھوڑو جسے توڑ نہ دو، اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو جسے زمین کے برابر نہ کر دو اور کوئی تصویر نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو۔
عن حنش الکنانی عن علی انہ بعث عامل شرطتہٖ فقال لہ اتدری علی ما ابعثک؟ علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان انحت کل صورۃ و ان اسوی کل قبر (مسند احمد)
حنش الکنانی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں؟ اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا۔ یہ کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔
اسی ثابت شدہ اسلامی ضابطہ کو فقہائے اسلام نے تسلیم کیا ہے اور اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
"ہمارے اصحاب (یعنی فقہائے احناف )اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو، یا کسی دوسری غرض کے لیے۔ ہر حالت میں تصویر کشی حرام ہے کیوں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں، یا کسی برتن میں یا دیوار میں، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے۔ البتہ جاندار کے سوا کسی دوسری چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی رائے امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کی ہے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی گڑیاں مستثنی ہیں۔مگر امام مالک ان کے خریدنے کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری۔ج22 ص70۔ اسی مسلک کو امام ثوری نے شرح مسلم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح نَوَوِی، مطبوعہ مصر، ج 14۔ ص 81۔ 82)"
یہ تو ہے تصویر سازی کا حکم۔ رہا دوسرے کی بنائی ہوئی تصویر کے استعمال کا مسئلہ تو اس کے بارے میں فقہائے اسلام کے مسلک علامہ ابن حجر نے اس طرح نقل کیے ہیں: ’’ مالکی فقیہ ابن عربی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ پڑتا ہو اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے قطع نظر اس سے کہ وہ تحقیر کے ساتھ رکھی گئی ہو یا نہ۔ اس اجماع سے صرف لڑکیوں کی گڑیاں مستثنیٰ ہیں۔'' ابن عربی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ نہ پڑتا ہو وہ اگر اپنی حالت پر باقی رہے (یعنی آئینہ کی پرچھائیں کی طرح نہ ہو بلکہ چھپی ہوئی تصویر کی طرح ثابت و قائم ہو) تو وہ بھی حرام ہے، خواہ اسے حقارت کے ساتھ رکھا گیا ہو یا نہ۔ البتہ اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے اجزاء الگ الگ کریے گئے ہوں تو اس کا استعمال جائز ہے …… امام الحرمین نے ایک مسلک یہ نقل کیا ہے کہ پردے یا تکیہ پر اگر تصویر ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے، مگر دیوار یا چھت میں جو تصویر لگائی جائے وہ ممنوع ہے کیونکہ اس کا اعزاز ہو گا،
بخلا ف اس کے پردے اور تکیے کی تصویر حقارت سے رہے گی. ابن ابی شیبہ نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ زمانہء تابعین کے علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ فرش اور تکیہ میں تصویر کا ہونا۔ اس کے لیے باعث ذلت ہے۔ نیز ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اونچی جگہ پر جو تصویر لگائی گئی ہو وہ حرام ہے اور قدموں میں جسے پامال کیا جاتا ہو وہ جائز ہے۔ یہی رائے ابن سیرین، سالم بن عبداللہ، عِکرمہ بن خالد اور سعید بن جُبیر سے بھی منقول ہے۔" (فتح الباری، ج10،ص300)
اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صریح ارشاد ات صحابہ کرام کے عمل اور فقہائے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی مو شگافیاں بدل نہیں سکتیں۔
بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو۔ فوٹو اور دستی تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق ہے وہ طریق تصویر سازی کے لحاظ سے ہے، اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔
بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا، اور اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لیے حرام کی گئی ہیں۔ دوسرے، یہ دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ آج خود بر عظیم ہندو پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے شرک ہو رہا ہے، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو پوج رہے ہیں، حتٰی کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہییں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات سے قانون اخذ کرنے کے بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف ایک شرک و بت پرستی ہی کی موجب نہیں بنتی، بلکہ دنیا میں دوسرے بہت سے فتنوں کی موجب بھی بنی ہے اور بن رہی ہے۔ تصویر ان بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تصویر کو دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج یہ فتنہ ہر زمانے سے زیادہ برسر عروج ہے، تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے، اصلاً غلط ہے۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کر کے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں۔
بعض لوگ چند بظاہر بالکل ’’بے ضرر‘‘ قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیز ی اور سیاسی پروپیگنڈے اور ایسے ہی دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کر لیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے۔ علاوہ بریں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کر سکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ حدبندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھیرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کر دینے کے بعد بھی جو از کی سرحد کبھی واضح نہ ہو سکتی اور بے شمار تصویروں کے بارے میں یہ اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انہیں حد جواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صاف حد قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جاتا کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جا سکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کر سکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جا کر اسے رک جانا چاہیے۔ (مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل، حصہ اول، ص 152 تا 155)
21. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بہت بڑے پیمانے پر مہمان نوازی ہوتی تھی۔ بڑے بڑے حوض جیسے لگن اس لیے بنائے گئے تھے کہ ان میں لوگوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا جائے اور بھاری دیگیں اس لیے بنوائی گئی تھیں کہ ان میں بیک وقت ہزاروں آدمیوں کا کھانا پک سکے۔
22. یعنی شکر گزار بندوں کی طرح کام کرو۔ جو شخص نعمت دینے والے کا احسان محض زبان سے مانتا ہو، مگر اس کی نعمتوں کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہو، اس کا محض زبانی شکر یہ بے معنی ہے۔ اصل شکر گزار بندہ وہی ہے جو زبان سے بھی نعمت کا اعتراف کرے، اور اس کے ساتھ منعم کی عطا کردہ نعمتوں سے وہی کام بھی لے جو منعم کی مرضی کے مطابق ہو۔
23. اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ۔۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جِنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے۔
24. موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَحُبْعام چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرا ہوا تھا، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا۔ اس کی جانشینی کے تھوڑ ی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل(یعنی جِنوں ) کو حضرت سلیمانؑ نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو سے نکل گئے۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِن یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟
پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے، اور اس گروہ کے غیب سے نا واقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمانؑ کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے، حالاں کہ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں۔ لیکن جو لوگ مادّہ پرست دنیا کے سامنے جِن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مُصر ہیں۔
قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے :
وَجَعَلُو لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم۔ (الانعام، 100)
اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
وَجَعَلُو ا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا۔ (الصّٰفّٰت۔ 158)
اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی تعلق تجویز کر لیا۔
وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِ جَالٍ مِّنَ الْجِنِّ۔ (الجن۔6)
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے ہو حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں (مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر 63 ملاحظہ ہو)
25. سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقلی دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7۔8۔12 میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔
26. یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے۔
27. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی۔
28. یعنی بندگی و شکر گزاری کے بجائے انہوں نے نا فرمانی و نمک حرامی کی روش اختیار کر لی۔
29. اصل میں لفظ سَیْلُ الْعَرِم استعمال کیا گیا ہے۔ عَرِم جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’بند‘‘ کے ہیں۔ یمن کے کھنڈروں میں جو قدیم کتبات موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں ان میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ مثلاً 542ء یا 543ء کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر اَبرہہ نے سدّ مارِب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا اس میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا سیل العَرِم سے مراد وہ سیلاب ہے جو کسی بند کے ٹوٹنے سے آئے۔
30. یعنی سیل العَرِم کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا علاقہ برباد ہو گیا۔ سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ باندھ کر جو نہریں جاری کی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں اور آب پاشی کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس کے بعد وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا خود رو جنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل اگر کوئی چیز باقی رہ گئی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے۔
31. ’’برکت والی بستیوں ‘‘سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے جسے قرآن مجید میں عموماً اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیت 137۔ بنی اسرائیل، آیت 1۔ الانبیاء، آیات 71 و 81)
" نمایاں بستیوں ‘‘سے مراد ہیں ایسی بستیاں جو شاہراہ عام پر واقع ہوں، گوشوں میں چھپی ہوئی نہ ہوں۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بستیاں بہت زیادہ فاصلے پر نہ تھیں بلکہ متصل تھیں۔ ایک بستی کے آثار ختم ہونے کے بعد دوسری بستی کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔
سفر کی مسافتوں کو ایک اندازے پر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ یمن سے شام تک کا پورا سفر مسلسل آباد علاقے میں ملے ہوتا تھا جس کی ہر منزل سے دوسری منزل تک کی مسافت معلوم و متعین تھی۔ آباد علاقوں کے سفر اور غیر آباد صحرائی علاقوں کے سفر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ صحرا میں مسافر جب تک چاہتا ہے چلتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو کسی جگہ پڑاؤ کر لیتا ہے۔ بخلاف اس کے آباد علاقوں میں راستے کی ایک بستی سے دوسری بستی تک کی مسافت جانی بوجھی اور متعین ہوتی ہے۔ مسافر پہلے سے پروگرام بنا سکتا ہے کہ راستے کے کن کن مقامات پر وہ ٹھیر تا ہوا جائے گا، کہاں دوپہر گزارے گا اور کہاں رات بسر کرے گا۔
32. ضروری نہیں ہے کہ انہوں زبان ہی سے یہ دعا کی ہو۔ دراصل جو شخص بھی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ خدایا، میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ اور اسی طرح جو قوم اللہ کے فضل سے غلط فائدہ اٹھاتی ہے وہ گویا اپنے رب سے یہ دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار، یہ نعمتیں ہم سے سلب کر لے کیونکہ ہم ان کے قابل نہیں ہیں۔
علاوہ بریں رَبَّنَا بَا عِدْ بَیْنَ اَسْفَا رِنَا (خدایا ہمارے سفر دور دراز کر دے ) کے الفاظ سے کچھ یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ شاید سبا کی قوم کو اپنی آبادی کی کثرت کھَلنے لگی تھی اور دوسری نادان قوموں کی طرح اس نے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھ کر انسانی نسل کی افزائش کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
33. یعنی سبا کی قوم ایسی منتشر ہوئی کہ اس کی پرا گندگی ضرب المثل ہو گئی ۔ آج بھی اہل عرب اگر کسی گروہ کے انتشار کا ذکر تے ہیں " تفر قوا ایدی سبا'" وہ تو ایسے پرا گندہ ہو گئے جیسے سبا کی قوم پر گندہ ہوئی تھی۔" اللہ تعالی کی طرف سے جب زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رُ خ کیا۔ اَوس و خز ر ج کے قبیلے یثرب میں جا بسے۔ خُز ا عہ نے جدے کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ اَزد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا ۔ لخم اور جذام اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے۔ حتی کہ " سبا " نام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا۔
34. اس سیاق و سباق میں صابر و شاکر سے مراد ایسا شخص یا گروہ ہے جو اللہ کی طرف سے نعمتیں پاکر آپے سے باہر نہ ہو جائے، نہ خوشحالی پر پھولے اور نہ اس خدا کو بھول جائے جس نے یہ سب کچھ اسے عطا کیا ہے۔ ایسا انسان ان لوگوں کے حالات سے بہت کچھ سبق لے سکتا ہے جنہوں نے عروج و ترقی کے مواقع پاکر نا فرمانی کی روش اختیار کی اور اپنے انجام بد سے دوچار ہو کر رہے۔
35. تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 650 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذُسمو ی یا ذوسماوی (یعنی رب السماء) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں۔ بعض مقامات پر اس معبود کا نام ملکن ذُ سموی(وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا۔ چنانچہ 378 ء کے ایک کتبے میں بھی الٰہ ذوسموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے۔ پھر 465 ء کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصرور داالٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے )۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ 458 قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن(یعنی رحمان کی مدد سے )۔
36. یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ ان کا ارادہ تو خدا کی فرمانبرداری کرنے کا ہو مگر وہ زبردستی ان کا ہاتھ پکڑ ا کر انہیں نا فرمانی کی راہ پر کھینچ لے گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی قدرت اس کو دی تھی کہ وہ انہیں بہکائے اور ایسے تمام لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے جو خود اس کی پیروی کرنا چاہیں۔ اور اس اغوا کے مواقع ابلیس کو اس لیے عطا کیے گئے تاکہ آخرت کے ماننے والوں اور اس کی آمد میں شک رکھنے والوں کا فرق کھل جائے۔
دوسرے الفاظ میں یہ ارشاد ربانی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہو کر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے۔ بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے، یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے، اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سَودا اِس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی ا لآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔
37. قوم سبا کی تاریخ کی طرف یہ اشارات جو قرآن مجید میں کیے گئے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم کے متعلق دوسرے تاریخ ذرائع سے فراہم ہوئی ہیں۔
تاریخ کی رو سے ’’سبا ‘‘ جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن عبدالبرّ اور ترمذی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے عرب میں حسب ذیل قبیلے پیدا ہوئے : کِنْدَہ۔ حِمْرَ۔ اَزْد۔ اَشْعَریین۔ مَذْحِج۔ اَنْمار )جس کی دو شاخیں ہیں خَثْعَمْ اور بَجیْلَہ۔ عامِلہ۔ جُذام۔ لَحْم اور غسان۔
بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا۔ 2500 قبل مسیح میں اُور کے کتبات اس کا ذکر سابوم کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد بابِل اور آشور (اسیریا) کے کتبات میں اور اسی طرح بائیبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے، (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو زَبور، 72: 15۔یرمیاہ 6:20۔ حذقی ایل 27:22۔38:13۔ ایوب 6:19) یونان و روم کے مورخین و جغرافیہ نویس تھیو فراسٹس (288 قبل مسیح) کے وقت سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک مسلسل اس کا ذکر کرتے چلے گئے ہیں۔
اس کا وطن عرب کا جنوبی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے عروج کا دَور گیارہ سو برس قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں ایک دولت مند قوم کی حیثیت سے اس کا شہرہ آفاق میں پھیل چکا تھا۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی۔ پھر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان (965۔ 926 قبل مسیح)کے ہاتھ پر ایمان لے آئی تو اغلب یہ ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں نہ معلوم کس وقت اس کے اندر شرک و بُت پرستی کا پھر زور ہو گیا اور اس نے اَلْمقہ (چاند دیوتا)، عَشْتَر (زُہرہ)ذاتِ حمیم اور ذابِ بعدان (سورج دیوی) ہوبس، حرمتم یا حریمت اور ایسے ہی دوسرے بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کو پوجنا شروع کر دیا۔ اَلْمقہ اس قوم کا سب سے بڑا دیوتا تھا، اور اس کے بادشاہ اپنے آپ کو اسی دیوتا کے وکیل کی حیثیت سے اطاعت کا حق دار قرار دیتے۔ یمن میں بکثرت کتبات ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ان دیوتاؤں، اور خصوصاً اَلمقہ کے مندروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر اہم واقعہ پر ان کے شکریے ادا کیے جاتے تھے۔
آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں یمن سے تقریباً 3 ہزار کتبات فراہم ہوئے ہیں جو اس قوم کی تاریخ پر اہم روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ عربی روایات اور رومی و یونانی تواریخ کی فراہم کردہ معلومات کو اگر جمع کر لیا جائے تو اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ اس کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ ان معلومات کی رو سے اس کی تاریخ کے اہم ادوار حسبِ ذیل ہیں:
1۔ 650 قبل مسیح سے پہلے کا دَور۔ اس زمانے میں ملوک سبا کا لقب مُکَرِّ بِ سبا تھا۔ اغلب یہ ہے کہ یہ لفظ مُقَرِّب کا ہم معنی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بادشاہ انسانوں اور خداؤں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے، یا دوسرے الفاظ میں یہ کاہن بادشاہ (Priest-Kings ) تھے۔ اس زمانے میں ان کا پایہ تخت صرواح تھا جس کے کھنڈر آج بھی مارِب سے مغرب کی جانب ایک دن کی راہ پر پائے جاتے ہیں اور خَریبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی دَور میں مارب کے مشہور بند کی بنا رکھی گئی اور وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہوں نے اسے وسیع کیا۔
2۔ 650 قبل مسیح سے 115 قبل مسیح تک کا دور۔ اس دَور میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لقب چھوڑ کر مَلِک (بادشاہ) کا لقب اختیار کر لیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت میں مذہبیت کی جگہ سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب ہو گیا اس زمانے میں ملوکِ سبا نے صرواح کو چھوڑ کر مارب کو اپنا دار السلطنت بنایا اور اسے غیر معمولی ترقی دی۔ یہ مقام سمندر سے 3900 فیٹ کی بلندی پر صنعاء سے 60 میل جانب مشرق واقع اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا۔
3۔ 115 ق م سے 300 عیسوی تک کا دور۔ اس زمانے میں سبا کی مملکت پر حمیر کا قبیلہ غالب ہو گیا جو قوم سبا ہی کا ایک قبیلہ تھا اور تعداد میں دوسرے تمام قبائل سے بڑھا ہوا تھا۔ اس دور میں مارب کو اجاڑ کر رَیدان پایہ تخت بنایا گیا جو قبیلہ حمیر کا مرکز تھا۔ بعد میں یہ شہر ظفار کے نام سے موسوم ہوا۔ آج کل موجودہ شہر یریم کے قریب ایک مدوَّر پہاڑی پر اس کے کھنڈر ملتے ہیں اور اسی کے قریب علاقہ میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصوّر تک نہیں کر سکتا کہ یہ اسی قوم کی یاد گار ہے جس کے ڈنکے کبھی دنیا بھر میں بجتے تھے۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصّہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت اور یمینات کا استعمال ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ یمن اس پورے علاقے کا نام ہو گیا جو عرب کے جنونی مغربی کونے پر عسیر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک واقع ہے۔ یہی دور ہے جس میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا۔
4۔ 300 ء کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور۔ یہ قوم سبا کی تباہی کا دور ہے۔ اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں۔ بیرونی قوموں کی مداخلت شروع ہوئی۔ تجارت برباد ہوئی۔ زراعت نے دم توڑا اور آخر کار آزاد ی تک ختم ہو گئی۔ پہلے رَیدانیوں، حمیریوں، اور ہمدانیوں کی باہمی نزاعات سے فائدہ اٹھا کر 340 سے 378 ء تک یمن پر حبشیوں کا قبضہ رہا۔ پھر آزادی تو بحال ہو گئی مگر مارب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ آخر کار 450 ء یا 451 ء میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد اَبرہہ کے زمانے تک اس بند کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں، لیکن جو آبادی منتشر ہو چکی تھی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور نہ آب پاشی اور زراعت کا وہ نظام جو درہم برہم ہو چکا تھا، دوبارہ بحال ہو سکا۔ 523 ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نَجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الاُخدود کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت یمن پر انتقاماً حملہ آور ہو گئی اور اس نے سارا ملک فتح کر لیا۔ اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبہ کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کے لیے 570 یا 571 ء میں (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے چند روز قبل) مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی پوری فوج پر وہ تباہی آئی جسے قرآن مجید میں اصحاب الفیل کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ آخر کار 575 ء میں یمن پر ایرانیوں کا قبضہ ہوا، اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 628 ء میں ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا۔
قوم سبا کا عروج دراصل دو بنیادوں پر قائم تھا۔ ایک زراعت۔ دوسرے تجارت۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لیے تھے اور ان سے نہریں نکال نکال کر پورے ملک کو اس طرح سیراب کر دیا تھا کہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق ہر طرف ایک باغ ہی باغ نظر آتا تھا۔ اس نظام آب پاشی کا سب س بڑا مخزن آب وہ تالاب تھا جو شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی پر بند باندھ کر تیار کیا گیا تھا مگر جب اللہ کی نظر عنایت ان سے پھر گئی تو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ عظیم الشان بند ٹوٹ گیا اور اس سے نکلنے والا سیلاب راستے میں بند پر بند توڑتا چلا گیا یہاں تک کہ ملک کا پورا نظام آب پاشی تباہ ہو کر رہ گیا۔ پھر کوئی اسے بحال نہ کر سکا۔
تجارت کے لیے اس قوم کو خدا نے بہترین جغرافی مقام عطا کیا تھا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر، مشک، مُرّ، قرفہ، قصب الذَّرِیرہ، سلیخہ اور دوسری ان خوشبو دار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی جنہیں مصر و شام اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔
اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے۔ ایک بحری۔ دوسری برّی۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا، کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہواؤں، زیر آب چٹانوں، اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے اور دوسری کوئی قوم اس خطرناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن اور مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے۔ برّی راستے عدن اور حضرموت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اور پھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ، جدہ، یثرب، العُلاء، تبوک اور ایلہ سے گزرتے ہوئی پَٹرا تک پہنچتی تھی۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا۔ اس بری راستے پر، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، یمن سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و روز ان کے تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوں کے آثار اس علاقے میں موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبات مل رہے ہیں۔
پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میں اس تجارت پر زوال آنا شروع ہوع ہو گیا۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقت ور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہو کہ عرب تاجر اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کریں۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا بطلیموس ثانی (285۔246 قبل مسیح) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو 17 سو برس پہلے فرعون سِسوسترِیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لیے کھدوائی تھی۔ اس نہر کے ذریعہ سے مصر کا بحری بیڑا پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوشش زیادہ کارگر نہ ہو سکی۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہوا تو رومی زیادہ طاقت ور تجارتی بیڑا بحر احمر میں لے آئے اور اس کی پشت پر انہوں نے ایک جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں، ان میں جہازوں کی ضروریات فراہم کرنے کا انتظام کیا، اور جہاں ممکن ہو وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھ دئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا۔ اسی سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوں کے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی۔
بحری تجارت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد صرف بری تجارت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی۔ پہلے نَبطیوں نے پیڑا سے الُعلا تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوں کو نکال باہر کیا۔ پھر 106 ء میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھوں میں چلے گئے۔ اس کے بعد حبش اور روم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہاں سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے سن سن کر یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اسٹاہو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں، اور ان کے مکانوں کی چھتوں، دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت، سونے، چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا ہے۔ پلینی کہتا ہے کہ روم اور فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جا رہی ہے، یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم ہیں، اور ان کا سرسبز و شاداب ملک باغات، کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے۔ آر ٹی میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے بجائے دار چینی، صندل اور دوسری خوشبو دار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یونانی مورخین روایت کرتے ہیں کہ ان کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے تجارتی جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صنعا کے بلند پہاڑی مقام پروہ فلک شگاف عمارت (Skyscraper) تعمیر کی جو قصر غُمدان کے نام سے صدیوں تک مشہور رہی ہے۔ عرب مورخین کا بیان ہے کہ اس کی 20 منزلیں تھیں اور ہر منزل 36 فیٹ بلند تھی۔ یہ سب کچھ بس اسی وقت تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لیے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔